میرا وطن پاکستان

پختون قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی نے انکشاف کیا تھا کہ افغانستان پاکستان پر حملہ کرنا چاہتا تھا اس لئے حکومت پاکستان نے انھیں افغانستان بھیجا ۔اب پاکستانی وزرات خارجہ کی جانب سے بھی اس بات کی تصدیق کی گئی کہ افغانستان پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کا ارادہ رکھتا تھا اس لئے محمود خان اچکزئی کو افغانستان بھیجا گیا۔ یہ ایک اچھا عمل تھا جس میں دونوں ممالک کے درمیان پیدا شدہ غلط فہمیاں دور کرنے کیلئے مثبت کوشش کی گئی ۔پختونوں کی ایک پختہ عادت ہے کہ وہ جہاں رہتے ہیں اُسے اپنا وطن سمجھتے ہیں ، پختون زبان سے قدرے بھی واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ ، جب کسی پٹھان سے پوچھیں کہ ، کہ خان صاحب کہاں جارہے ہیں تو وہ ، مسکرا کر کہے گا کہ میں وطن واپس جا رہا ہوں ۔ دیگر قومیتوں کیلئے یقینا اس میں حیرانگی کا عنصر ہوگا کہ ، پاکستان کے شہری ہو ، اپنے گاؤں واپس جا رہے ہو ، تو پاکستان ہی وطن ہے ، یہ اپنے گاؤں کو کیوں وطن کہہ رہا ہے ، تو سادہ سی بات ہے کہ پختون کیلئے ہر وہ جگہ جہاں وہ رہتا ، کھاتا ، پیتا ، سوتا ، جاگتا اور مرتا ہے ۔ اس کا وطن ہوتا ہے۔ اس کی مراد اس زمین سے محبت ہوتی ہے اور اس کی سادگی میں کہے جانے والے الفاظ محبت کی انتہا ہوتے ہیں کہ وہ اپنے گاؤں کو وطن سمجھتا ہے ۔ تو پھر سوچئے کہ جس ملک و شہرمیں وہ رہتا ہے ، جس سے اس کے خاندان کا رزق وابستہ ہے ا سے وہ کتنی تعظیم اور محبت دیتا ہوگا ۔حقیقت کے آئینے میں اصلیت کا چہرہ دیکھنے سے اور تلخ حقیقت دیکھانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔خال خال لوگ ہی سچ سننے اور پڑھنے کی ہمت جُتا پاتے ہیں۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مجھے اپنے دین اسلام اور اپنی قومیت اٖفغان(پختون) اور پاکستان کا شہری ہونے پر فخر ہے۔لیکن پختونوں کے خلاف جس قسم کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تو اس کے جواب میں باقول "حاوی اعظم"آپ اندھے کو اندھا ، جُھوٹے کو جُھوٹا،نائی کو نائی،تَرکھان کو ترَکھان یا طوائف کو کہہ کر دیکھ لیجئے کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے "اس لئے جب پختون کی خدمات اور صلاحیتوں کے برخلاف آرا ء پیدا کرنے کی کوشش کی جائیں تو اس کا جواب بھی اسی طرح دینا پختون کی سرشت میں شامل ہے۔
خدا کے قہر و غصب کا اگر خیا ل نہ ہو ۔۔
مرے سوا مجھے کوئی ڈرا نہیں سکتا

یہاں اس بات کو سمجھ لینا ضروری ہے افغان،اغوان،اغان،پٹھان،پشتون یا پختون ایک ہی قوم کے لِسانی ، علاقائی ، جغرافیائی اور تاریخی بنا پر مختلف علاقوں میں کئی ناموں سے یاد کئے جاتے ہیں۔یہاں مقصود پختون قومیت کے حوالے سے تعریفیں مقصود نہیں ہے بلکہ اس اہم معاملے کو زیر بحث لانا ہے کہ غیر مسلم ممالک ، خاص طور پر امریکہ لابی ، مسلم ممالک کو اپنے زیر نگیں رکھنے کی خواہش مند ہے،9/11کے بعد امریکہ کی جانب سے صلیبی جنگوں کا اعلان اور ان کی موجودہ سازشیں،نیت کی غمازی کرتا ہے۔لیکن مسلم ممالک کی یہ حالت ہے کہ قدرتی دولت و معاشی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود محض ایک ٹیلی فون کی دہمکی پر ڈر نے و کپکپانے لگتے ہیں۔جہاں مسلم ممالک کو امریکی بلاک اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے تو ان مسلم ممالک میں سب سے زیادہ خطرہ اسے پختونوں سے ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سب کی آنکھوں میں پٹی باندھی جاسکتی ہے لیکن پختون کو اپنے زیر اثر رکھنے کیلئے ایسے لوہے کے چنے چبانا پڑیں گے۔اس کی چھوٹی سی مثال خود"اسلامی ممالک "کی سب سے بڑی ایٹمی طاقت کی حامل فوجی قوت کے جنرل (ر) پرویز مشروف کا اپنی کتابIn The line of Fire اور 22ستمبر 2006ٗ امریکی دورے کے دوران اعتراف ہے کہ اسے امریکہ نے دہمکی دی تھی کہ اگرامریکہ کے بجائے طالبان کا ساتھ دیا تو پاکستان کو ملامیٹ کرکے پتھر کے زمانے میں پہنچا دیگا۔جبکہ ایک پختون نے اپنی روایت کے مطابق امریکہ کے سب سے مطلوب شخص کو اربوں ڈالر کے لالچ اور پانچ سال جنگ کے باوجود حوالے کرنے سے انکار کیا ۔اقتدار اس لئے چھوڑ دیا کہ امریکہ نے جس طرح جاپان میں ایٹم بم گرا کر فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اسی طرح امریکہ اور نیٹو کی جانب سے نہتے افغانیوں پر"کلسٹر" بموں کی برسات تھی جس نے ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے اہم جاپانی شہروں کے عوام سے زیادہ پختونوں کو جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ایٹمی طاقت کے حامل جنرل کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے حالاں کہ افغانستان جیسا ملک جو روس کے جانے کے بعد ، خانہ جنگیوں سے معاشی طور پر تباہ حال ہوچکا تھا لیکن پختون نے اصولوں کے برخلاف اربوں ڈالروں کی پیش کش ٹھکرا دی لیکن صرف چند ہزار ڈالر کے عوض پرویز مشرف نے 600سے زائد پاکستانیوں کو امریکہ کے سپرد کردیا جبکہ حالیہ حکومت بھی اسی روش پر قائم ہے اور اس قوم کی بے قصور بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی تک نہیں چھڑائی جاسکتی ۔ آخر وہ کس منہ سے امریکہ کو کہے گا جب کہ خود اس نے اپنی عزت امریکہ کے ہاتھوں پامال کی ہو۔

2011؁ تک دنیا میں پختونوں کی تعداد بارہ کروڑ سے زیادہ ہے جبکہ عربوں کے علاوہ دنیا بھر کے اسرائیلوں کی تعداد پختونوں سے کم ہے۔ افغان افغانستان سے کہیں زیادہ بر صضیراور دیگر ممالک میں آباد ہیں۔افغانستان سے زیادہ پاکستان اور پاکستان سے زیادہ بھارت میں بسنے والے افغان اُن افغانوں کے علاوہ ہیں جو کہیں زیادہ تعداد میں دنیا کے دوسرے ممالک میں بستے ہیں۔صرف پاکستان میں3کروڑ سے زائد پختون بستے ہیں جبکہ افغانستان میں ایک کروڑ ستائس لاکھ سے زائد پختون آباد ہیں۔پختون کے بودوباش کی خاصیت پانی کی مانند ہے اور وجود پتھر جیسا ہے۔ پانی اپنے وجود کیلئے ہر کہیں سے راستہ اوور جگہ بنا لیتا ہے اور پتھر ، چٹان یا پہاڑ کی صورت میں پانی سے بنے ہوئے بڑے سے بڑے سیلاب تند موجوں یا طوفان کا رخ موڑ دیتا ہے۔منفی بیس سینٹی گریڈ ہو یا باون سینٹی گریڈ کی گرمی ، سنگلاخ پہاڑ ہوں یا سرسبز میدان یا پتھریلی زمین ، صدیوں کی سکونت ہو یا خانہ بدوشی ۔ پٹھان ہر جگہ ، ہر حالت میں یکساں رہنے کی سکت اور صلاحیت رکھتا ہے۔پٹھان معدودے چند اقوام میں سے ہے کہ جہاں جاتا ہے وہاں کی زبان سیکھ لیتا ہے۔مثال کے طور پر اردو کے بیسوں بڑے ادیب اور شاعر پٹھان ہیں مستثنات چھوڑ کر کوئی بتائے کہ اردو بولنے والا یا سندھی یا پنجابی ، پشتو زبان میں شعر یا کوئی سطر ہی بول دے۔برصغیر کے بیشتر اولیا کا تعلق افغانسان ، خصوصا غزنی سے ہے۔
جرات ، ذہانت ، موسیقی ، ادب ، حکمت ، سیاست دان ایسا کون سا شعبہ ہے جس میں پٹھانوں نے عالمی سطح کے مشاہیر پیدانہیں کئے۔اس حقیقت کو عالمی طاقتیں بھی سمجھتی ہیں اس لئے سازشیں کرکے دنیا بھر میں پختونوں کی نسل کشی کی جاتی رہی ہے۔لیکن بقول شاعر ۔۔
نہ زندگی کی ہے پروا ،نہ موت کا ڈر ہے
حَیات موت ہمارے لئے برابر ہے

پختون کو اس کی خداد داد صلاحیتوں کی بناء پر فوائد اور انسانی فلاح و بہبود کیلئے پیار سے تو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن زبردستی اس سے کلمہ بھی کوئی نہیں پڑھوا سکتا۔پختون بھائی چارے ، اخوت اور محبت سے اپنا حق تک دے سکتا ہے۔پختون قوم کسی قومیت کی دشمن نہیں ہے بلکہ ایسے بین الاقوامی سازش کا نشانہ بنا کر دنیا بھر میں تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔آئسولیٹ کا یہ عمل کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ صدیوں کی روایات اور تاریخ رکھنے والی دنیا بھر کے چپے چپے میں رہنے والی قوم اُس سرزمیں کو اپنی ماں مان لیتی ہے جو ایسے رزق فراہم کرتی ہو۔ پھر وہ پختون کسی بھی ملک کا شہری ہو اس کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے تن من دھن کی بازی لگانے میں توقف نہیں کریگا ۔

چاہیے(خدانخوستہ) افغانستان ، پاکستان پر حملہ کرے تو پاکستانی پختون صف اول کا سپاہی بن کر اپنی مملکت پاکستان کی حفاظت کریگا۔کیونکہ دنیا کا آدھا خطہ آریانا کے نام سے پختونوں کی سرزمیں ہی تھی اور میں استادمحترم حاوی اعظم سے مکمل متفق ہوں کہ افغانستان دل ہے تو پاکستان روح ، لیکن عزت ننگ ناموس پاکستان سے وابستہ ہے۔مقصد افغانستان سے دشمنی نہیں البتہ افغانستان کو پاکستان پر فوقیت دینے کا مطلب اپنے وطن کا وفادار نہ ہونا یا غدار ہونا ہے۔اس لئے افغانستان کی جانب سے ایسی کوئی سوچ بھی اپنے گمان میں نہیں لانا چاہیے کہ وہ پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کرے۔ کیونکہ پاکستانی پختون ایک ذمے دار قوم ہے۔

پختون قوم احسان فراموش قوم نہیں ہے کہ جس مملکت میں عزت و حرمت کے ساتھ رہ رہی ہو ، اس کے خلاف غداری کرے ۔ شمالی مغربی سرحدوں کی نگہبانی پاکستانی پختون قیام پاکستان کے وقت سے کر رہے ہیں ۔اور اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک ان کی جان میں سانس ہے ۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ پختون قوم میں احساس محرومی پیدا کرنے والے عناصر کا پنپنے نہ دیا جا ئے اور ایسے غدار وطن کو ان پر مسلط نہ ہونے دیا جائے جن سے وقتی مفاد کے خاطر ، کروڑوں پختونوں کی آزاری کا سبب بن جائے۔
 
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 745620 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.