آزادی مارچ اور یاسر عباسی

آج کل ہمارا پیارا ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، 14 اگست کو کیا ہوگا، سب کے ذہنوں میں صرف یہ ایک سوال ہے، میں بھی ان خیالوں میں اسلام آباد میں گھم رہا تھا کہ اچانک میرے ایک دوست یاسر عباسی کی اواز میری کانوں میں گھونجی، میں کسی کام کے سلسلے میں مارکیٹ گیا تھا اور وہ بھی مارکیٹ میں موجود تھا، یاسر عباسی کا تعلق پاکستان مسلیم لیگ نون سے ہے اور وہ یوتھ ونگ اسلام آباد کا جنرل سیکرٹری بھی ہے، اس کے بعد ہم دونوں کولڈڈرنکس کے دکان پر گئے۔ باتوں باتوں میں نے اس سے کہاکہ عمران خان صاحب 14 اگست کو اسلام آباد آرہا ہے، میرے خیال میں آپ لوگوں کو بہت بڑانقصان ہونے والا ہے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت انے والا ہے اور عمران خان پاکستان کا اگلا وزیر اعظم ہوگا،میں نے یہ بات محض مزاق کے طور پر کی لیکن میرے بھائی کو شائد یہ بات اچھی نہ لگی ہو اس لئے انہوں نے مجھ سے کچھ کہا کہ چلو مان لیتے ہیں کہ لانگ مارچ ہوگیا، دس لاکھ بندے بھی آگئے، حکومت ٹوٹ گیااور انتخابات کا اعلان بھی ہوگیا، چلو مان لیتے ہیں کہ عمران خان پاکستان کا وزیر اعظم بن گیا، اگلے دن ہم لانگ مارچ کا اعلان کرینگے اور دس لاکھ کے بدلے میں بیس لاکھ بندے لائیں گے، پھر کیا ہوگا ؟ کسی نے عمران خان سے یہ پوچھا ہے؟؟

میں حیرت سے اُن کی طرف دیکھ رہا تھا اور پوچھنے لگا کہ بھائی! نواز شریف صاحب بھی پچھلے حکومتوں کے خلاف اس قسم کے دھرنوں کا اعلان کرتے اگر آج عمران خان کرتا ہے تو آپ لوگوں کو کیوں برا لگتا ہے؟ مجھے یقین تھا کہ اس سوال کا جواب یاسر کے پاس نہ ہوگا لیکن اس نے مجھے جواب دیتے ہوئے کہاکہ اُس وقت کی بات اور تھی، اُس دور کی حکومت اور آج کی حکومت میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ نواز شریف صاحب ملک کی خوشحالی اور ترقی کیلئے ایسا کرتا تھا جبکہ آج کل لوگ اپنی ذات اور پارٹی کیلئے کرتے ہیں۔

میرے ایک سوال کہ عمران خان کے بقول اس حکومت میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ الیکشن کے بعد مہنگائی کا آنا کوئی نئی بات نہیں ہے،اسے قابو میں لانے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے جو عمران خان صاحب نہیں چاہتے کہ پاکستان مسلم لیگ نون کوملے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر مسلم لیگ نون اپنا پانچ سالہ حکومت پوری کریں تو پھراس کو کون ووٹ دیگا،خان صاحب نے خیبر پختونخوا میں کونسی تبدیلی لائی ہے جو اب ملک میں تبدیلی لانے کی باتیں کر رہے ہیں،خان صاحب تبدیلی کیلئے پانچ سال مانگ رہے ہیں اور دوسروں کیساتھ ایک سال کا حساب کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان آج کل جس مشکل حالات سے گزر رہا ہے، یہ آج سے شروع نہیں ہوا بلکہ یہ تو پچھلے چودہ سال کے ثمرات ہیں جو مارشل لاء اور پچھلی حکومت کی پیداوار ہیں، میں صرف اس بات پر حیران ہوں کہ اس وقت عمران خان صاحب کہا ں تھا جب مارشل لاء نے ملک کو گھیرا ہوا تھا اور جنرل پرویز مشرف صاحب آئین کے ساتھ کھیل رہا تھا، اس وقت عمران خان صاحب کہاں تھا جب زرداری نے ملک میں کرپشن اور لوٹ مار کا جمعہ بازار لگایا تھا اور ملک چاروں طرف دھماکوں کے اواز میں دفن تھا۔

اس وقت یاسر کی جذبات آسمان سے باتیں کر رہا تھا کہ میں نے ان کی باتوں میں دخل دیکر پوچھا کہ اُس وقت عمران خان نہ تو حکومت میں تھا اور نہ اپوزیشن میں، اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ ملک کو ترقی دینے اور ملک کیلئے کام کرنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں ہونا ضروری نہیں ہوتا، خان صاحب پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے خلاف لانگ مارچ کرنا چاہتے ہیں،اگر خان صاحب ملک کی ترقی کیلئے سوچتا تو یہ لانگ مارچ مارشل لاء اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف ہوتا،مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، آج جب انہیں کرسی نظر انے لگی تو وہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر تبدیلی کی باتیں کررہے ہیں۔

اور بھی ایسی بہت سوالات تھے جو میں یاسر سے کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے کہی جانا تھا ۔میں ان کی باتوں سے اس لئے متاثر ہوا کہ اسکی باتوں سچائی اور آنکھوں میں ایک سچا پاکستانی کی محبت تھی۔اب 14 اگست کو ہمیں کیا کرنا ہے یہ ہم پر انحصار کرتے ہیں لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہمیں صرف اور صرف پاکستانی سوچ کر قدم اُٹھانا چاہئے کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں اور اگر پاکستان نہ رہا تو ہم بھی نہ رہینگے۔اﷲ تعالیٰ ہمارے پیارے ملک کی حفاظت کریں۔آمین