اگر پاکستان نہ بنتا؟ حصہ سوئم

پروفیسر بینی پرشاد نے لکھا تھا کہ مسلمان ابھی تک اپنی انفرادی ہستی قائم رکھے ہوئے ہیں‘ان سے پہلے یہاں آنے والے گروہ اور قومیں ہندو معاشرے میں مدغم ہو گئے۔ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ مسلمانوں پر عیاں ہے کہ وہ بھارت کو ترکی‘ایران اور مصر کی طرح اسلامی رنگ نہیں دے سکے جس کی سب سے بڑی وجہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر تھا جس نے ہندو مت کو ہندوستان سے مٹنے سے بچایا وگرنہ اس وقت اورنگزیب کی حکومت ہوتی تو آج ہندوستان کا نقشہ بالکل مختلف ہوتا۔سرل مودک نے کہا کہ مسلمان بھی دیگر غیر ہندو اقوام کی طرح ہندوؤں کی محبت کے باعث ہندوؤں میں ضم ہو جائیں گے‘یعنی نابود ہو جائیں گے۔ڈاکٹر رادھا کشنن نے کہا(وہ ڈاکٹر رادھا کشنن جو بھارت کے فیلسوف صدر تھے) کہ ہندو دھرم نے بدھ مت کو بھائیوں کی طرح بغل گیر ہو کر ختم کر دیا‘سوامی دھرم تیرتھ جی مہاراج نے ارشاد کیا:ڈاکٹر رادھا کشنن کچھ بھی ارشاد فرمائیں‘حقیقت یہ ہے کہ برہمنی ہندوؤں نے بدھوں کو قتل کیا‘ان کے گھر گرائے‘ان کے جانور ہلاک کئے‘ان کی فصلوں کو آگ لگا دی‘ان کی اکثریت کو علاقہ بدر کر دیا۔شیام پرشاد مکر جی نے قراردادِ پاکستان کے پیش اور پاس ہونے سے تقریباً ایک برس بعد دیاکھیان دیا کہ’’تقسیم کے آوازے ادھر ادھر سے سن رہا ہوں‘اگر پاکستان بن گیا تو ہم اسے باقی نہیں رہنے دیں گے۔‘‘

سوامی دیانند جی نے فرمایا کہ بھارت وید دھرم کا وطن ہے اور بھارت کو واپس ویدوں کی طرف جانا ہے اور یہاں بسنے والوں کو ویدی دھرم کے رنگ میں خود کو رنگنا ہو گا۔آر ایس ایس کے بل راج مدھوک نے اظہارِ افسوس کیا کہ ہندو قوم نے ایک ہزار سال پہلے محمد(ﷺ) کا بت بنا کر مسجد مندر منڈی بازار وغیرہ میں کیوں نہ سجا دیا۔مسلمان اپنے پیغمبر کو پوجنے آتے تو ان کے دلوں سے ہمارے بتوں کی نفرت بھی نکل جاتی اور رفتہ رفتہ وہ ہمیں میں گم ہو جاتے جس طرح بدھ مت والے ہو گئے۔ہم نے بدھ مت جی کو اوتار مان لیا اور ان کا بت اپنے بتوں میں شامل کر لیا ۔ہمارے سینکروں ہزاروں بتوں میں ایک بت کا اضافہ ہو گیا مگر بدھ کہیں کے نہ رہے(حالانکہ بدھوں کو جبراً قہراً ختم کیا گیا تھا جیسا سابقہ سطور میں سوامی دھرم تیرتھ جی کی زبانی بیان ہوا)۔گاندھی جی فرمایا کہ مجھے اردو زبان کے حروف قرآن کے حروف سے مشترک نظر آتے ہیں‘لہندا ہندوستانی زبان اختیار کی جائے اور وہ بھی دیوناگری اکھروں میں۔پنڈت جواہر لال نہرو بڑے روشن خیال انٹیلکچو ئل (Intellectual)ہونے کے مدعی تھے۔ انہوں نے فرمایاکہ’’ہندوستان میں ایک ہی قوم ہے اور وہ ہے ہندوستانی ‘دو قومی نظریہ مٹھی بھر افراد کا پیدا کردہ شاخسانہ ہے ‘ میں نے غور سے دیکھا ہے ‘میں نے خوردبین لگا کر غور سے دیکھا ہے مگر دوسری قوم مجھے تو نظر نہیں آئی۔‘‘

دو قومی مسئلہ کہاں ہے یعنی مسلمانوں کے جداگانہ و جود سے یکسر انکار!۱۹۳۷ء میں جب کانگریسی وزارتوں کا قیام عمل میں آیا تو چھ صوبوں میں ودیا مندر اسکیم نافذ کر دی گئی۔وہ تعلیمی منصوبہ تھا کہ غیر بھارتی عناصر کو بھارتی زندگی میں سے نکال باہر کیا جائے‘بھارتی ہیرو اور وہ بھی ہندو سامنے لائے جائیں۔ہندی زبان نافذ کی جائے‘گیت بندے ماترم مدرسوں میں گایا جائے‘اس بندے ماترم کو قائد اعظمؒ نے مشرکانہ گیت قرار دیا تھا۔بندے ماترم جس ناول آنند مٹھ سے لیا گیا تھا اس کی ساری کہانی مسلم دشمنی کے زہر سے لبریز ہے۔مسلمان عوام اور مسلم لیگی قائدین ہندوؤں کے اس صریح مسلم کش روئیے پر چیخ اٹھے‘ہاں گاندھی جی کی مورتی بھی مدرسوں میں سجا دی گئی تھی جس کے روبروہاتھ جوڑ کر کھڑے ہونااور پرنام عرض کرنا شامل درس و تربیت قرار دیا گیا‘مسلمان بچیوں اور بچوں کو بھی اس کارِ شرک پر مجبور کیا جانے لگا‘چنانچہ مسلمانوں کو باقاعدہ کمیشن بٹھانے پڑے اور ان کمیشنوں نے تحقیقی رپورٹس شائع کیں‘شریف رپورٹ اور اے کے فضل الحق رپورٹ کا تعلق اسی روداد ِ ستم و جور سے تھا‘لیکن مسلمانوں کے صاحب بہادر‘کیمونسٹ وغیرہ طبقے تو ایک رہے‘عملدارانِ دین متین نے مسلمان عوام اور ان کے ہر دلعزیز قائدین کی ایک نہ سنی۔علماء کے نمائندے مسلسل کہتے رہے کہ بندے ماترم قومی گیت ہے ہم گاتے رہیں گے‘حضرت ابوالکلام آزاد جیسے بزرگوں نے اوپر بیان کردہ تحقیقاتی رپورٹ کی تردید کی اور جب مسلمانوں نے کانگرسی وزارتوں کے خاتمے پر دسمبر ۱۹۳۹ء میں یومِ نجات منایا تو ہندوجاتی کو دکھ ہونا ہی تھا۔علماء حضرات نے بھی مسلم عوام اور مسلم لیگ کے اس عمل کو متحدہ قومیت کی روح پر فتوح کے خلاف عناد و فساد قرار دیا۔یاد رہے کہ یومِ نجات میں اچھوتوں نے بھی مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا جیسا کہ ڈاکٹر لنکا سندرام نے اپنی کتاب(A Secular State for India) میں ذکر کیا ہے۔

قارئین! بھارتی ہندوجاتی اور اس کی قیادت پاکستان اور اہلِ اسلام کا وجود اس برعظیم سے مٹانے کے درپے تھی اور ۶۷ سال گزرنے کے بعد اب بھی درپے ہے۔ کیا اس حالت میں وہاں مسلمانوں کیلئے کوئی بہتری عمل میں آسکتی تھی؟کیا وہ مسلمان جو وہاں ہیں ان کی صورتِ حال خود ٹھوس شہادت نہیں اس امر کی ‘کہ ان کو مٹانے کی اب بھی کوششیں جاری و ساری ہیں۔ہمارے قوم پرست ملا یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ ہندو قوم مسلمانوں کو نہیں مٹا سکتی ‘بارہ سو سال ہو گئے ہیں اکھٹے رہتے ہوئے۔خدا جانے ہمارے قوم پرست ملا کیدانش کیوں غائب رہتی ہے؟ہم ہندو کے ساتھ اکٹھے کب رہے ہیں؟ہم حاکم تھے اور ہندو محکوم تھے۔صدیوں یہ حال رہا‘ایسی صورت میں وہ مسلمانوں کو کس طرح نقب لگاتے‘الٹا ان کو نقب لگتی رہی‘مسلمان اور ہندودونوں انگریزکے غلام ہو گئے‘ایسے عالم میں ہندو بھی بے بس اور مسلمان بھی محکوم۔

ویسے ہندو مسلمان ایک ہی بر عظیم میں آباد ہونے کے باوجود اکٹھے کبھی نہیں رہے۔حق یہ کہ امتحان اور آزمائش کا وقت اب آیا ہے‘جب بھارت میں ہندو حاکم کی طرح مسلط ہو گیا ہے۔بھارتی مسلمانوں کو نقب لگ رہی ہے‘کشمیریوں پر بے پناہ مظالم توڑے جار ہے ہیں‘ایک لاکھ سے زیادہ ان کے معصوم بچے‘بے گناہ عورتیں ‘جوان اوربوڑھے شہید کئے جاچکے ہیں۔ ان کاقصور صرف یہی ہے کہ ساری دنیا کے سامنے اقوام متحدہ کے روبرو بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے ان کشمیریوں کے ساتھ جو حق خود د ارادیت کا وعدہ کیا تھا ‘وہ اس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔بھارت میں اسکولوں اور مدرسوں میں وہ نصاب پڑھایا جا رہا ہے کہ مسلمان بچہ اپنی قوم کے ماضی سے یا بے خبر رہے یا ان سے نفرت کرے اور ہندو اکابر کا معتقد ہو تا چلا جائے۔چند روز ہوئے ٹی وی لگایا تو ہندوستان کے ایک چینل پر ایک لڑکا بات کررہا تھا ‘میرے پتاکا نام گپتا جی ہے اور میری ماتا کا نام نسیمہ بیگم ہے‘میں ہندو ہوں اور میری بہن مسلمان ہے ‘ہم چاروں بڑے امن اور چین سے اپنے گھر میں رہ رہے ہیں۔

قرآنِ کریم میں قومِ یہود سے اﷲ نے ایک سے زیادہ بار کہا ہے کہ وہ دن یاد کرو جب تم فرعون کی رسواکن غلامی میں مبتلا تھے۔فرعون تمہارے مردوں کو قتل کرا دیتا تھا اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتا تھا ۔ظاہر ہے کہ اگر مرد واقعی قتل ہو جاتے تو اولاد کیسے پیدا ہوتی‘عورتیں کیسے وجود میں آتیں۔یہاں مار دینا مجازاً کہا ہے ‘مراد ہے کہ یہودی مردوں کو پامال اور مسکین و عاجز بناکر رکھا جاتا تھا اور یہودی عورتوں کو اچھی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی تاکہ وہ قومِ فرعون کی عیاشی کا سامان بنیں۔یہی حال اب ہندوستان میں ہو رہا ہے۔مسلمان بچیوں کو تعلیمی وظائف سے‘مسلم نوازی کے طور پر تعلیم و تربیت دی جاتی ہے‘جب وہ گریجو ایٹ یا پوسٹ گریجوایٹ ہو جاتی ہیں‘طبی تعلیم یا کوئی اور ایسی فنی تعلیم مکمل کر لیتی ہیں تو شادی کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔جس ماحول میں تعلیم عمل میں آتی ہے وہ سیکولر ہے اور گھر اور رشتہ داروں میں موافق بر نہیں ملتا۔چچیرا بھائی رکشہ چلا رہا ہے‘ماموں کا بیٹا سائیکل کو پنکچر لگا رہا ہے‘خالہ زاد مستری ہے‘اور دور کابھی کوئی پڑھا لکھا رشتہ میسر نہیں‘لہندا بڑے آرام سے مسلمان بچی غیر مسلموں میں بیاہ دی جاتی ہے اور مشہور کر دیا جاتا ہے کہ داماد نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ہمارے ناشکرگزار مسلمان ‘وہ جن کی اکثریت علماء اور صاحب بہادر وں پر مشتمل ہے اب اس گروہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کو خدا نے قائد اعظمؒ کی جوتیوں کے طفیل کروڑ پتی بنا دیا ہے اور منصب عزت سے نوازا ہے۔کیا یہ لوگ اﷲ تعالی کے یہودیوں سے اس خطاب کا معنی بالکل نہیں سمجھتے؟

کچھ عرصہ ہوا رام پور یوپی (بھارت) سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے جو پاکستان کے ایک اہم ادارے میں انگریزی ادبیات کے استاد تھے اور آجکل انگریزی اخبارات میں لکھتے لکھاتے ہیں‘مجھ سے رازدارانہ سوز و ساز کے ساتھ کہا’’ملک صاحب!ذرا ہم ٹھنڈے دل سے سوچیں تو سہی ۱۹۳۵ء کے ایکٹ نے صوبائی اختیارات کتنے وسیع کر دیئے تھے کہ گویا پورا پنجاب اور بنگال باقی دو تین چھوٹے یونٹوں سمیت اپنا تھا۔آزادی کے بعد صوبائی حقوق میں اور بھی اضافہ ہو جاتا تو پھر ہم نے علیحدگی کا دردِ سر کیوں مول لیا؟ایسی ہی فلاسفی کو لسانی جماعت کا بھتہ خور بھی دہراتا رہتا ہے۔انگریزی کے پروفیسروں میں اور بھی کئی ایسے متعقل اور صاحب بہادر ہیں۔میں نے عرض کیا ’’حضور!قوت مرکز کے پاس ہوتی ہے‘قومی پالیسی مرکز نافذ کرتا ہے‘مرکز جب چاہے ‘جس صوبے کا چاہے گلا دبوچ لے‘اس کے علاوہ آپ یہ دیکھیں کہ اصل متحدہ پنجاب کے نصف سے کچھ کم پنجاب بھارت کو ملاتھا۔سکھوں کے باعث بھارت نے اس پنجاب کے تین ٹکڑے کر دیئے۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ لالہ آپ کے پاس پنجاب اور بنگال اس صورت میں رہنے دیتا کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت رہتی؟وہ بنگال کا بھی تیا پانچا کر دیتا اور پنجاب کا بھی۔بنگال کے کچھ حصے اور بہار کے کچھ حصے ملا کر نیا نقشہ بنا دیتا اسی طرح پنجاب کے ساتھ یوپی کا کچھ حصہ ملا کر اور کچھ حصہ انبالہ ڈویژن کے ساتھ ملحق کرکے تین صوبے بنا دیتا اور جب مسلمانوں کی اکثریت کے صوبوں کا تیاپانچا کیا جاتا تو اسے انتظامی ضرورت قرار دیا جاتا۔کیا وہ لوگ جو امت کے مفاد کو سمجھتے نہیں یا مکر کا شکار ہو جاتے ہیں یا پیٹ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں‘ہندو حکومت کی اس مسلم کش حکمتِ عملی کی تائید نہ کرتے؟بے شک مسلمان عوام چیختے رہتے۔پروفیسر صاحب یہ سن کر خاموش ہو گئے۔

میں نے عرض کیا‘آخر پاکستان میں رہتے ہوئے آپ پاکستان کی بہتری کے بارے میں کوئی تجویز پیش کرنے یا سوچنے کی بجائے الٹا پاکستان کو ختم کر دینے کے ضمن میں کیوں ذہن کو تیار کرتے رہتے ہیں؟ اور قراردادِ لاہور کو منسوخ کرنے کے درپے کیوں رہتے ہیں؟ میں نے وضاحتاً کہا کہ مسلم لیگ نے ۱۹۲۱ء میں اور پھر چودہ نکات میں شامل چھٹے نکتے کی رو سے انگریزحکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں کی حد بندی کو ہرگز یوں نہ چھیڑا جائے کہ وہاں کے مسلمانوں کی اکثریتی حیثیت متاثر ہو‘لیکن متحدہ ہندوستان میں چھٹا نکتہ کیوں ملحوظ رہتا!میں نے مزید عرض کیا کہ اگر آپ جیسا متعقل مجھ جیسے متعصب پاکستانی مسلمان سے بھی یہ رازونیاز کرنے کی جرآت کر سکتا ہے تو نجانے دیگر کس کس سے آپ نے یہ قول لقمانی عرض نہیں فرمایا ہو گا۔’’فی قلوبھم مرض فزادھم اﷲ مرضا‘‘۔قائدِ اعظمؒ کو فاجر قائد کہنے والے سوچیں تو ذرا کہ امتِ مسلمہ کے باب میں اتنا بیدار ذہن خدائے رحمان و رحیم فاجروں کا عطا کرتا ہے؟
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390520 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.