مطالبات نہیں شارٹیاٹ

آج کے کالم کا آغاز صرف تین سوالات سے؟ یہ سوالات اگر عمران خان دل و دماغ سے سوچیں تو ان کی نہ صرف آنکھیں کھل جائیں بلکہ شرم سے ڈوب مرنے کی تیاری بھی کریں۔

٭ جب الیکشن ہوئے تو الیکشن کمیشن کس حکومت نے بنایا،الیکشن کمیشن با اختیار اور غیر جانبدار تھا یا نہیں؟
٭ ن لیگ کسی دوسری حکومت کی چھتری میں بے ایمانی کیسے کر سکتی ہے؟
٭ تحریک انصاف نے سرحد میں لیڈلی کیا وہاں بے ایمانی ہوئی؟

اس دور کا تذکرہ آج سے کئی سال پہلے کیا اور اب پھر کر رہا ہوں،جب ضیا ء الحق نے الیکشنوں کے بعد جونیجو کو وزیر اعظم بنایا تو اس وقت میاں نواز شریف کو اس کے اپنے ٹیلنٹڈ ہونے کی وجہ سے وزیراعلیٰ پنجاب بنایاگیا۔اگر کوئی پاکستانی سیاست کے پرانے ادوارکو جانتا ہے تو اسے بخوبی علم ہو گا کہ نواز شریف اس دور کے پاکستانی تاریخ میں کامیاب ترین وزیرا علیٰ تھے۔وزیراعلیٰ بننے سے پہلے ہی میاں شریف اور شریف فیملی اتفاق فاؤنڈری کے مالکان میں سے تھے۔آج اگر کوئی میاں نواز شریف یا اس کے بیٹے سمیت ان کے خاندان کو مالی لحاظ سے کرپٹ ثابت کرے تواحقر کے خیال میں وہ خود سب سے بڑا کرپٹ فرد ہو گا۔عمران خان یا قادری اگر اپنے ماضی کی طرف جھانکیں تو شاید ان کی آنکھیں کھل جائیں کہ وہ کل خود کیا تھے اور آج دونوں کتنی جائداد اور کتنے کتنے کروڑ اثاثوں کے مالکان ہیں۔اس کالم کا مقصد یہ ہے کہ ملک و قوم کو حقائق بتائے جائیں اور سب کوبتا یاجائے کہ دوسروں پر الزامات لگانا جتنا آسان ہوتا ہے،اپنے اوپر لگے الزامات کو ہٹانادنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔

دہری نشنلٹی کے مالک طاہر القادری صاحب نے 1981میں اپنے پہلے مدرسے کی بنیاد رکھی۔اس کے بعد1989نے طاہر القادری نے اپنی سیاسی جماعت پاکستانی عوامی تحریک کے نام سے شروع کی۔مذہبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ طاہرالقادری نے سیاسی سرگرمیوں کو درست طریقے سے کیش کراتے ہوئے اپنے مدارس کی تعداد بڑھانا شروع کر دی۔اپنے خطیب اور داعی اسلام ہونے کو کیش کرانے والے طاہرا لقادری نے اپنے مدارس کی تعداد میں دن دگنی رات چگنی ترقی کی۔پاکستان کے علاوہ طاہر القادری نے کینیڈا میں بھی اپنے ڈیرے جمائے، پاکستان اور کینڈا سے ہیوی فنڈنگ لینے والے طاہر القادری نے ملک کے اس نازک موڑ پر بھی ملک و قوم کو اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے اب مزید بحران کا شکار کر دیا ہے،دیکھا جائے قادری صاحب خودلامحدود دولت کے مالک ہیں۔سانحہ ماڈل ٹاؤ ن اور اس کے بعد 10اگست کو یوم اگست کے نام پر حکومت ختم کرنے کی تحریک نے کئی پولیس اہلکاران اور سول سوسائٹی کی جان لی۔ایماندار ی سے دیکھا جائے تو اس بات کا ڈائریکٹ مقدمہ ڈاکٹرطاہرالقادری کیخلاف ہی بنتا ہے۔

عمران خان کو اﷲ تعالیٰ نے کرکٹ کی دنیا میں ایک اہم نام اور مرتبہ دیا۔ٹھیک کہتے ہیں کہ جب کسی کو عزت ملتی ہے تو اسے سنبھالنا مشکل ہی نہیں ناممکن کام ہے۔انہوں نے اپنی زندگی کا ہرفیصلہ اپنے مفاد کے لئے کیاآپ دیکھ لیں کرکٹ میں ورلڈ کپ میں کپتان ،شادی کروڑ پتی عورت سے اور سیاسی کامیابی کے لئے کئی بڑے لوگوں کی سپورٹ وغیرہ وغیرہ۔ عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کی فنڈنگ مہم میں اس وقت میاں نواز شریف اور قوم سے کثیر فنڈ لیا۔سب نے اس کے نیک کام میں دل بھر کر حصہ لیا۔اس کے بعد خان صاحب نے سیاست کو فل ٹائم جاب بناتے ہوئے اچھا بزنس سمجھا اور اس لائن میں محنت شروع کر دی۔نئے پاکستان اور نئی سیاست کے نام پر خان صاحب کو کئی اہم ترین افراد نے سپورٹ دی اور اب ماشاء اﷲ خان صاحب ووٹ ہونے کے ایک سال بعد ن لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ کر راتوں رات وزیرا عظم بننے کا خواب لئے پھر رہے ہیں۔

بھائی جان !قادری ہو یا عمران خان اور ان کے حواری سب چاہتے ہیں کہ انہیں قومی خزانہ اوربادشاہت جلد از جلد مل جائے۔ان دونوں پارٹیوں اور ان کے ساتھ ملے ہوئے سیاسی افراد کون لیگ کے ترقیاتی کام بہت تکلیف دے رہے ہیں۔میٹرو بس سروس ہو موٹر وے کی تشکیل ہو یا نئے بجلی کے منصوبے سب ہی ان سب بے ایمانوں کو الیکشن میں ناکام کرنے کے لئے کافی ہیں،اگر مکمل ہو گئے تو شاید عوام پھر ن لیگ کو جتوالے یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے ’’مولانادجال‘‘ انقلاب کے نام پر سول افراد کو مروا رہا ہے اور یہی وہ بات ہے جس وجہ سے جذباتی خان آزادی مارچ پر حکومت گرانے کی غلیظ کوشش میں ہے۔

یہ دونوں پارٹیاں پریشر گروپس کی بنائی ہوئی ہے،ان دونوں پارٹیوں کے عزائم پر امن نہیں بلکہ ان کے عزائم حکومت اور ملک و قوم کے سامنے تماشہ کرنے کے ہیں۔عمران خان اگر کہیں کہ میں پولیس والوں کو پھانسی چڑھادوں گا،یا قادری کہیں کہ ’’میں حکومت ختم کروں اور لوگ جتھا بن کر پولیس کے گھروں میں گھس جائے‘‘۔خود ہی سوچیں کہ عمران خان اور قادری آئین توڑنے کی نہ صرف خود کوشش کر رہے ہیں بلکہ عوام کو بھی حکومت کا آئین نہ ماننے پر اکسا رہے ہیں۔

قائد اعظم نے یہ ملک اس لئے نہیں بنایا تھا کہ یہاں قادری اور عمران خان یا ان کے حواری گند ڈالیں بلکہ اس لئے بنایا گیا تھا کہ یہ ملک ترقی کرے۔ان سب میں برداشت کی عادت ہونی چاہیئے کہ یہ لوگ اس حکومت کو پانچ سال برداشت کریں،آئینی رستہ اختیار کریں اور الیکشن کے ذریعے حکومت میں آئیں۔ایک منتخب شدہ غریب ملک کے غریب عوام کے کثیرپیسے سے آئی ہوئی حکومت کو ایک دو دن میں فارغ کرنے والے غیر آئینی لوگ کسی غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔عوامی خدمت گار بہت ہوتے ہیں لیکن لیڈر کوئی کوئی ہوتا ہے،ان سب کو اس بات کی خبر ہی نہیں کہ نو از شریف لیڈر ہے۔قادری اور عمران خان تو فقط مہرے ہیں اور مہرے کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن لیڈر ہمیشہ تاریخ میں لیڈر ہی رہتا ہے۔ن لیگ کی حکومت ختم ہو یا نہ ہو لیکن نواز شریف تاریخ کا ہیرو ہے۔

عمران خان اور قادری جن لوگوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں انہی لوگوں نے عوام دھڑن تختہ کیا ہے، خدا کے لئے عوام بھی عقل سلیم سے کام لیں سلیم بھائی سے کام نہ لیں۔اس ملک کو چلنے دو ترقی آنے دو ملک کو افغانستان،عراق اور فلسطین نہ بناؤ،حکومت کو چلنے دو یار،قادری اور عمران برساتی مینڈک ہیں لیڈر نہیں،ان کے مطالبات نہیں بلکہ یہ شارٹ کٹ رستہ چاہتے ہیں،شارٹ کٹ لینے والے ہمیشہ دو نمبر ہوتے ہیں،جعلی ہوتے ہیں اور عوام کے وفادار نہیں ہوتے بلکہ ان کے منہ پر ماسک اور ہاتھ میں چھرے ہوتے ہیں۔
Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 66277 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.