عمران خان کے چودہ اگست کو لانگ مارچ ،اور علامہ ڈ اکٹر طاہرالقادری کے
انقلاب کے اعلانات نے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔تحفظِ پاکستان
آرڈینینس اسی خوف کا اظہارتھا۔ حکومت اپنے مخالفین کو ڈراناچاہتی ہے اور
انھیں متنبہ کرنا چاہتی ہے کہ اگر انھوں نے کوئی ایسی حرکت کی جس سے ان کے
اقتدار پر زد پڑتی ہو تو پھر تحفظِ پاکستان آرڈینینس کو مت بھولیں۔ان کے
ساتھ سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا جس کی سزا موت بھی ہو سکتی ہے۔سانحہ ماڈل
ٹاؤن کے تناظر میں اس بات میں کسی شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چائیے
کہ حکومت مخالفین کے ساتھ نپٹنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔اگر حکومت
چودہ لاشیں گرا سکتی ہے تو اس کے لئے مزید افراد کو موت کے منہ میں دھکیلنا
کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ اس طرح کے حربے ہم نے ماضی میں بھی دیکھے ہیں
لیکن جب قوم تہیہ کر لیتی تو ایسے سارے بے رحم ہتھکنڈے اوچھے ہتھکنڈے بن
جاتے ہیں۔فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے کالے قوانین کیا ان کی اقتدار سے
رسوائی کو روک سکے۔؟ شہنشاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کے عوام دشمن ہتھکنڈھے
کیا اس قانون سے کم ہلاکت آمیز تھے؟بالکل وہ سخت ہلاکت آمیز تھے لیکن پھر
بھی عوام نے ان قوانین سے خوفزدہ ہونا ترک کر دیا تھا اور ہزاروں لوگوں نے
انقلابِ ایران کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ ان کے لہو کی سرخی
ہی ایران کے انقلاب کی پیشانی کا جھو مر بنی تھی۔انقلاب کوئی معمولی شہ
نہیں ہوتا ۔کتنی جوانیاں اپنا خراج دیتی ہیں تو پھر کہیں جا کر سحر نمو دار
ہوتی ہے۔ایرانی قوم اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ انھیں آئت اﷲ امام خمینی
جیسی انقلاب آفریں شخصیت کی قیادت نصیب ہو گئی تھی جس نے انقلاب کے سارے
مروجہ اصول ہی بدل ڈ الے تھے۔ایسی عظیم شخصیتیں چشمِ فلک بہت کم دیکھتا
ہے۔قانون کی حکمرانی،کرپشن کا خاتمہ،وراثتی سیاست پر ضربِ قاری، ہوسِ دولت
سے اجتناب ،درویشانہ اندازِ حکمرانی،سادگی کا ایسا نمونہ کہ جس کی پیروی
شائداب ممکن نہیں رہی ۔کون ہے جو ایران جیسی سلطنت کا بے تاج بادشااہ بن کر
اپنے اسی دو کمرے کے گھر میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کرے جہان وہ جبرِ
شہنشاہ کے زمانے میں رہا کرتا تھا ۔قم کا وہی گھر جسے آنے والے زمانوں میں
ایک منفرد مقام سے ہمکنار ہو کر ایک روشن مثال بننا تھا وہی گھر امام خمینی
کی رہائش گاہ بنا اور زمانے پر اس سچ کو مزید آشکار کرگیا کہ حکمرا نی بڑے
بڑے گھروں میں رہنے سے نہیں بلکہ حکمرانی عظمتِ کردار سے پھوٹتی ہے۔دلوں کو
فتح کرنا سب سے مشکل کام ہوتا ہے اورایسا قربانی،ایثار،سچائی اور جرات و
بسا لت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔اﷲ کی خوشنودی کی خاطرجب ہر چیز غیر اہم ہو
جائے تو سمجھ لو انقلاب کو کوئی روک نہیں سکتا ۔دنیا کی محبت کو دل سے
نکالنا شانِ فقر کی علامت ہو تا ہے اور امام خمینی اس وصف سے متصف
تھے۔علامہ اقبال نے اس سارے منظر کو اپنے ایک شعر میں جس خوبصورتی سے
قلمبند کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔سنئے اور سر دھنئے ۔،۔
یہ سحر جو کبھی فردا ہے، کبھی ہے امروز۔۔۔۔۔ نہیں معلوم ،ہوتی ہے کہاں سے
پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے، شبستانِ وجود۔۔۔ہوتی ہے بندہِ مومن کی، آذاں سے
پیدا
ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے اپنے انقلاب کو رو بعمل لانے کے لئے ۲۳ جون کو
پاکستان آنے کا اعلان کیا تو حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی اور پھر اس نے
جس طرح سے اس سارے معاملے کونپٹا یا اس نے پاکستان کو دنیا کی نظر میں بے
وقعت کر دیا۔ طیارے کو اسلام آباد ائر پورٹ پر کئی گھنٹوں تک اترنے کی
اجازت نہ دینا اور اس کا خ لاہور کی جانب موڑ دینا کیا حکومت کی کمزوری پر
دلالت کرتا ہے؟اسلام آباد ائر پوٹ پر اترنا کوئی پہلی دفعہ تو نہیں تھا۔خود
میاں محمد نوز شریف بھی جنر ل پرویز مشرف کے دورِحکومت میں اسلام آباد ائر
پورٹ پر اترے تھے اور انھیں جہاز سے اترنے کی اجا زت نہیں دی گئی تھی۔ مسلم
لیگ (ن) کے کارکن اسلام آباد ائر پورٹ پر اپنے قائد کے استقبال کیلئے دور
دراز علاقوں سے تشریف لائے تھے لہذا قائدین کا ائر پورٹوں پر ا ستقبال اور
جلوس معمول کی کاروائی ہوتے ہیں۔اسلام آباد ائر پورٹ پر ایک ہیجان برپا تھا
لیکن جنرل پرویز مشرف نے میاں محمد نوز شریف کو طیارے سے باہر نکلنے کی
اجازت مرحمت نہیں فرمائی تھی کیونکہ ایک سمجھوتے کے تحت میاں برادران دس
سالہ معاہدے کے تحت وطن واپسی کے اہل نہیں تھے ۔اس وقت تو میاں محمد نواز
شریف کی آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے لیکن معاہدے کی
موجودگی ان کا راہ کی زنجیر بنی ہوئی تھی۔یہ معاہدہ کوئی معمولی معاہدہ
نہیں تھا ایک اسلامی ملک سعودی عرب اس کا ضا من تھا اور ضا من کی عزت تو
بہر حا ل مقدم ہوتی ہے کیونکہ وہ مشکل وقت میں مدد کرتا ہے ۔ اس زمانے میں
عمر قید سعودی عرب کی مداخلت سے ہی جلا وطنی میں تبدیل ہوئی تھی وگرنہ کیا
خبر وہ عمر قید سزائے موت میں بدل جاتی اور آج کے حکمرانوں کا کہیں نام و
نشان بھی نہ ہوتا۔یہ سعودی عرب تھا جس نے جنرل پرویز مشرف کو ایسا کرنے سے
روکا تھا لہذا اسلام آباد ائر پورٹ سے میاں محمد نواز شریف سعودی ائر لائن
سے سیدھے سعودی عرب پہنچا دئے گئے تھے ۔میاں محمد نواز شریف کو اس بات کا
قلق تھا کہ انھیں وطن واپسی کی اجازت نہیں دی گئی ۔اب جبکہ میاں برادرا ن
کی حکومت ہے ڈ اکٹر علامہ طا ہر القادری کے طیارے کے ساتھ بھی ویسا ہی رویہ
رکھا گیا ہے جیسا رویہ جنرل پرویز مشرف نے میاں محمد نواز شریف کے ساتھ روا
رکھا تھا۔ اب کی بار صرف اتنا ہوا ہے کہ سعودی عرب کی بجائے اس طیارے کو
لاہو کی جانب بھیج دیا گیا ہے۔سیاسی جماعتوں کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے
پروگرام اور منشور کی روشنی میں عوام کو متحرک کریں اور انھیں اپنے نقطہ
نظر سے آگاہ کریں اور اس کیلئے عوامی اجتما ع ہی اس کی بہترین شکل ہوتے ہیں۔
جہاں تک پاکستان عوامی تحریک کا معاملہ ہے تو اس نے ہمیشہ ہی پر امن سیاست
کی ہے ،اسلام آباد میں جنوری ۱۳ ۲۰ کا لانگ مارچ لوگ اب بھی نہیں بھولے جس
میں لاکھوں لوگوں کی شرکت کے بعد ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا تھا،سخت سردی اور
یخ بستہ موسم بھی عوامی تحریک کے کارکنوں کو کسی طرح کے تشدد پر نہیں ابھار
سکا تھا۔عوامی تحریک کے کارکنوں کا نظم و ضبط مثالی تھا جس نے سب کو شسدر
کر کے رکھ دیا تھا۔ان سے اسطرح کے ر ویوں کی لوگوں کو توقع نہیں تھی۔عوام
کی عمومی رائے یہ تھی کہ یہ اجتماع بھی بھگدڑ اور ہربونگ کا شکار ہو
جائیگااور امن وامان کے سنگین مسائل پیدا ہو جائیں گئے لیکن ایسا کچھ بھی
نہ ہوا جس سے عوامی تحریک کو پاکستا نی عوام کی اخلاقی حمائت حا صل ہو گئی
۔عوامی تحریک نے اس لانگ مارچ سے ایک نئی تاریخ رقم کی اور وہ تاریخ تھی پر
امن احتجاج کی۔ہمارے ہاں تو سیاسی جماعتوں میں ڈ سپلن کا فقدان ہوتا ہے جس
کی وجہ سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جا تا ہے لیکن عوامی تحریک نے پر
امن احتجاج سے ایک نیا کلچر متعارف کروایا۔اب ستم ظریفی کی انتہا تو دیکھئے
کہ اسی جماعت کے قائد کو حکومت نے اسلام آباد ائر پورٹ پر اترنے کی اجازت
دینے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے پولیس اور مظاہرین میں آنسو گیس اور
پتھراؤ کا تبادلہ ہوا۔یہ سب محض اس وجہ سے ہوا کہ حکومت نے عوامی تحریک کے
کارکنوں کو اپنے قائد کے استقبال سے محروم رکھا۔اگر حکومت ایسا نہ کرتی تو
پھر یہ بد مزگی بھی دیکھنے میں نہ آتی۔اب ڈاکٹر علامہ طاہر القادری مختلف
سیاسی جماعتوں سے رابطے کر رہے ہیں تا کہ انقلاب کیلئے فائنل کال دی جائے
اور موجودہ کرپٹ نظام کی جگہ ایک ایسا نظام متعارف کروایا جائے جس میں عوام
کی شرکرکت کو یقینی بنایا جائے۔کرپشن کا خاتمہ، احتساب، شفافیت اور انصا ف
کی ضمانت اس انقلاب کے وہ بنیادی اجزاء ہیں جس پر اس انقلاب کی بنیادیں ر
کھی گئی ہیں۔کیا عوا م کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے؟کیاعوام موجودہ
نظام سے جان چھڑا نا چاہتے ہیں؟کیا عوام اس انقلاب پر لبیک کہیں گئے یا
ابھی اس انقلاب کے رونما ہونے کا وقت ہنوز بہت دور ہے؟ اس بات کا فیصلہ بہت
جلد ہو جائیگا ۔،۔،۔، |