بھاری مینڈیٹ

جھوٹ ، بڑھکیں ، ڈائیلاگ ، ذاتی مفادات ، چشم پوشی ، الزام تراشی ، بے حسی پاکستانی سیاست کا معیار بن چکا ہے اور جو یہ سب نہیں کرسکتا وہ اچھا سیاست دان نہیں یا اسے سیاست نہیں آتی ہے ۔

چودھری نثار کو شاید یہ ادراک نہیں تھا کہ ان کی جماعت کے مخالفین سیاست دان نہیں ہیں اور نہ ہی انھیں سیاست آتی ہے تب ہی تو وہ جوش خطابت میں کہہ گئے کہ 4نہیں 40حلقے کھلوائیں گے ۔چودھری صاحب جوش خطابت میں تو یہ کہہ گئے مگر اس پر عمل نہ کروا سکے جس کا شاخسانہ 14اگست کے آزادی مارچ کی صورت میں حکومت کو بھگتنا پڑھ رہا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں الیکشن 2013کی اندرونی کہانی نہ پتا ہو۔

اندرونی پوشیدہ کہانی سے یاد آیا کہ مسلم لیگ ن کے جیتے ہوئے ایک اور ممبر اسمبلی کی پولنگ کے نتائج کو الیکشن ٹربیونل نے دھاندلی ثابت ہونے پرکالعدم قرار دیا ہے ۔ لاہور میں الیکشن ٹربیونل کے جج کاظم ملک نے فریقین کے تمام دلائل سننے کے بعد ایک کمیشن تشکیل دیا جس نے پی پی 97گوجرانوالہ کے تمام ریکارڈز کا معائنہ کرکے رپورٹ پیش کی جس میں 33پولنگ سٹیشنز کے نتائج کالعدم قرار دے کر 60روز میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم بھی دیا ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ ناکام ہونے والے کسی بھی میدان میں ناکام ہوں وہ دھاندلی کا واویلا ہی پیٹتے ہیں ۔عمران خان بھی الیکشن میں ناکام ہونے کے بعد مسلسل دھاندلی کا واویلا پیٹ رہے ہیں ۔جب یہی منطق عمران خان کو سمجھائی گئی کہ ناکام ہونے والے دھاندلی کا ہی واویلا پیٹتے ہیں تو خان صاحب نے دھاندلی کے ثبوت میڈیا کو پیش کرنا شروع کردئیے یہ ثبوت اتنے زیادہ ہیں کہ لگتا ہے کہ اگلے الیکشن تک خان صاحب کے ثبوت ختم نہیں ہونے والے۔اسی سلسلے میں 5اگست کو بھی پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین نے کچھ ثبوت میڈیا کے گوش گزار کیے جنھیں میڈیا نے اپنے ذرائع کی وساطت سے عوام تک پہنچا کر شاید ریٹنگ میں اضافہ تو کر لیا مگر خان صاحب یا ان کی پارٹی کو کچھ وصول نہیں ہوا۔وائس چیئرمین نے میڈیا کو ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 13حلقوں میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ان حلقوں میں این اے 256,258,218,128,122,110,68,57,53کا خاص طور پر تذکرہ کیا گیا ۔ دھاندلی کے ذرائع بتاتے ہوئے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایک شناختی کارڈ پر 11,11ووٹ ڈالے گئے ایک حلقہ میں 88ووٹوں کا ریکارڈ ہی نہیں ، کہیں رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے ،ایک حلقے میں پریزائڈنگ آفیسر ایک پٹواری تھا وٖغیرہ وغیرہ۔

خیر با ت چودھری نثار کی چل رہی تھی جو غالباً ملک کے وزیر داخلہ ہیں، کہ حالات آج کل نواز شریف سے ان کے چہیتوں کی وجہ سے اتنے تو خراب نہیں جتنے عمران خان کے ہیں مگر کم بھی نہیں ۔وزیر اعظم صاحب نے بھی نو لفٹ کا بورڈ چودھری صاحب کے لیے آویزاں کیا ہوا ہے اور عموماً ملکی و غیر ملکی وفود یا دوروں پر اہم ملاقاتوں میں وزیر داخلہ صاحب کے بنا ہی دکھائی دیتے ہیں حالاں کہ میاں صاحب کو مخدوم جاوید ہاشمی صاحب سے کی جانے والی بے رخی سے کچھ نہ کچھ تو لازمی ہی سیکھنا چاہیے تھا اور اس نقصان کا ادراک کرنا چاہیے جو ہاشمی صاحب کے جانے سے میاں صاحب کو ہوا ۔وہ الگ بات ہے کہ میاں صاحب نے ہاشمی صاحب کے بنا ہی بھاری مینڈیٹ لے لیا ہے مگر ایک تجربہ کار کا کسی جماعت سے الگ ہونا بہت بڑا نقصان ہوتا ہے ۔مگر لگتا ہے کہ میاں صاحب بھاری مینڈیٹ اور قریبی چاہنے والوں کی وجہ سے گھمنڈ کا شکار ہیں ۔ایسے ہی قریبی چاہنے والوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کا جو حال الیکشن 2013میں ہوا تھا وہی سبق لینے کے لیے میاں صاحب کے لیے کافی ہے ۔

میڈیا میں چودھری نثار کی پی ٹی آئی میں شمولیت بارے قیاس آرائیاں عروج پر ہیں ۔ گذشتہ ہفتہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں میاں صاحب اور خواجہ آصف نے جس بے رخی کا مظاہر ہ چودھری نثار سے کیا اس سے قیاس آرائیوں کواور دم ملا ہے ۔ خیر میاں صاحب سے چودھری نثار کی بے رخی الیکشن 2013کے فوراً بعد ہی کھل کر سامنے آگئی تھی اب دیکھیں چودھری صاحب اس بے رخی کا جواب بنی گالہ جا کر دیتے ہیں یا کسی جلسہ میں ۔ ویسے چودھری صاحب بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ عمران خان سے مسلسل رابطہ میں ہیں ۔اس رابطہ میں کیا باتیں ہوتی ہیں ؟یہ سوال چودھری صاحب بتانا نہیں چاہتے ۔ہوسکتا ہے عمران خان کے آزادی مارچ سے متعلق باتیں ہوتی ہوں مگر چودھری صاحب بتانا کیوں نہیں چاہتے اور نہ ہی یہ بات چھپانے والی ہے مگر چودھری صاحب کا بتانے سے انکار کرنا ۔۔۔کچھ اور ہی لگتا ہے ۔

لگتا ہے میاں صاحب کا بھاری مینڈیٹ کا زعم انھیں لے ڈوبے گا کیوں کہ یہ مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد میا ں صاحب الیکشن میں عوام سے کیے جانے والے وعدوں سے تو پھر گئے ہیں جس سے عوام کا اعتبار میاں صاحب سے وقت کے ساتھ ساتھ اٹھ رہا ہے جب کہ بے صبری اور جادو کی چھڑی پر یقین رکھنے والی عوام تو حکومت کے پہلے 6ماہ میں ہی میاں صاحب سے نا امید ہوچکی تھی ۔ ویسے میاں صاحب کو بھی چاہیے کہ ہر جگہ بھاری مینڈیٹ ، بھاری مینڈیٹ کی رٹ نہیں لگانی چاہیے کیوں کہ بھاری مینڈیٹ دینے والے کچھ لینے کی امید لگائے سوا سال گزار چکے ہیں اور یہ بھاری مینڈیٹ کی رٹ میاں صاحب کے لیے خود ہی نقصان دہ سلوگن بنتا جا رہا ہے ۔

ادھر جمشید دستی سمیت کچھ سابقہ مسلم لیگی(ن) ایم پی ایز عمران خان سے بنی گالہ میں ملے اور پی ٹی آئی میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر کی جس پر عمران خان نے مشاورت کے بعد ہاں کر دی ۔ گو کہ جمشید دستی کو ویسا پروٹوکول نہ دیا گیا جیسا دیگر ایم این ایز کا پی ٹی آئی میں شامل ہونے پر دیا گیامگر یہ حقیقت ہے کہ جمشید دستی کے پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے جہاں آزادی مارچ کو ایکسٹرا سپورٹ ملے گی وہاں پی ٹی آئی کی ایک نشست قومی اسمبلی میں بھی بڑھ گئی ہے ۔ویسے جمشید دستی روایتی سیاست دانوں کی طرح ارب ، کھرب پتی نہیں مگر کئی ارب، کھرب پتی بل کہ زیادہ تر ارب ، کھرب پتی سیاست دانوں سے زیادہ مقبول ہیں عوام میں ان کی مقبولیت اس وجہ سے ہے کہ یہ اپنے علاقہ میں لوگوں کے مسائل پر ’’دستی ‘‘ ردعمل کرتے ہیں اور ان کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں زیادہ تر مسائل تو یہ حل کروالیتے ہیں مگر کچھ مسائل حل کرنے میں یہ ناکام اس لیے ہوجاتے ہیں کہ یہ پارلیمنٹ میں ارب ، کھرب پتی سیاست دانوں میں لاکھوں پتی سیاست دان ہیں اس وجہ سے عوام کے مسائل حل کرنے میں انھیں ویسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جیسے کے پی کے میں پی ٹی آئی کو ، کیوں کہ اصل مسائل حل کرنے والے صرف بھاری مینڈیٹ کی رٹ لگائے ہوئے ایک اندوہناک زعم میں گھرے ہوئے ہیں ۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86115 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.