شریفو! کچھ ہوش کرو!

قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہم انسان اس دنیا میں صرف امتحان دینے آئے ہیں۔ دنیا میں جو کچھ ہمیں ملتا ہے یہ ہمارا نہیں ۔ یہ سب کچھ ایک محدود وقت تک استعمال کا سامان ہے۔ مال کی تقسیم بھی اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے۔ واضح فرمایا کہ بادشاہی میری ہے میں کسی کو اپنے ملک کا کوئی حصہ عنائت کروں تو میری مرضی، لے لوں تو میری مرضی اور کسی کو مال زیادہ دوں یا کم دوں تو میری مرضی ۔ کیونکہ ہر صورت میں بندے کا امتحان ہے۔ اگر کسی کو ملک کی بادشاہی مل گئی تو خزانوں کا مالک بن گیا۔ کسی کو زمینیں مل گئیں تو ان کا مالک بن گیا۔ یہاں تک سیدالعالمین مقصود کائنات ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اسکی رعایا کے بارے پوچھا جائے گا۔ اگر انھی حکمت بھرے الفاظ پر غور کریں تو ہم انسانوں کی اصلاح کے لیئے یہی کافی ہیں۔ ہر آدمی کے ماتحت کوئی نہ کوئی فرد ہوتا ہے۔ گھر کا سربراہ ہو ،باپ ہو، بچوں کی ماں ہو، استاد ہو، دفتر کا بڑا افسر ہو، عدلیہ کا فرد ہو، انتظامیہ کا فرد ہو، صدر ہو، وزیر اعظم ہو، وزراء ہوں ، بادشاہ ہو غرضیکہ کہ جس کو اﷲ تعالیٰ نے متاع دنیا یا ملک زیادہ دیا اس کا پرچہ حساب بھی طویل ہے۔ بروز قیامت اسے لاتعداد شقوں کا جواب دینا ہوگا۔ جو اپنے گھر اور چند افراد تک محدود ہے اس کا حساب مختصر ہوگا۔ مگر فلسفہ تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو اپنے رب سے ملنا ہے اور روز قیامت پر انکا ایمان ہے تو وہ اﷲ تعالیٰ کے حضور حساب سے خائف ہیں ۔ ایسے لوگ دنیا کے مال اور اقتدار کو اﷲ رسول ﷺ اور حضرات خلفاء راشدین رضی اﷲ عنھم کی رہنمائی میں استعمال کرتے ہیں۔ مصر کے فرعون ملک اور مال کے نشے میں اپنے آپ کو معبود بنا بیٹھے۔لیکن دنیا جانتی ہے کہ وہ لوگ کہاں ہیں؟ رب تو موجود ہے مگر اﷲ کے دیئے ہوئے ملک اور دولت کے نشے میں اپنے انجام سے بے خبر لوگ اب کہاں ہیں؟ یہی بات آج کے دولتمندوں اور صاحبان اقتدار کو سمجھانا چاہتا ہوں۔ مکروفریب ، طاقت کے زور پر اور ظلم وستم ، قتل و غارتگری سے عوام کو خائف کرکے کچھ عرصہ تک تو اقتدار قائم رہ سکتا ہے لیکن انجام نہائت عبرت ناک ہوتا ہے۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس وقت جو پاکستان کے اندربڑے حکمران یا نو دولتیئے جو تماشے لگائے بیٹھے ہیں انہیں سمجھاؤں کہ باز آجاؤ ۔ یہ سب کچھ اﷲ کا مال ہے اور تم لوگ سخت آزمائش سے دوچار ہو۔ سنبھل جاؤ ، اﷲ و رسول سے ڈرواور ڈرو اس وقت سے جب تم اﷲ کی گرفت سے نہ بچ سکو گے۔ آج تمہیں کوئی نصیحت کرتا ہے تو تمہارا فائدہ ہے کہ تم قیامت کو اﷲ کے عذاب سے بچ جاؤ۔ اب میں ذرا اس حقیقت کی طرف آتا ہوں جو نو دولتیوں کو تلخ محسوس ہوگی۔ حاجی محمد شریف صاحب مرحوم و مغفورہجرت کرکے آئے اپنا آبائی پیشہ آہن گری ہی وسیلہ رزق تھا۔ وہ ایسا ہی تھا جیسا آجکل بھی کئی جگہوں پر آہن گر(لوہار) دکان چلارہے ہیں۔ مشک نما دھونکنی سے کوئلوں کی آنچ تیز کرتے ہیں اور اس سے لوہے کو سرخ کرکے ہتھوڑے سے کوٹ کوٹ کر کھرپےء، درانتیاں، پھاوڑے یا لوہے کی دیگر چیزیں بناتے ہیں۔ حاجی صاحب نے اس کام کو آگے بڑھایاکیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ ہم نے لوہے اتارا اس میں بڑی سختی ہے لیکن لوگوں کے لیئے بڑے فائدے ہیں۔ محمد نواز اور محمد شہباز ودیگر فرزندان نے ابا حضور کی تقلید کی۔انگریزی میں دکان کا نام فاؤنڈری رکھدیامگر اسکی اصل تو وہی ہے۔حاجی صاحب اپنے گھر کا دروازہ نہ بھولے تھے وہ بزرگوں کا احترام کرتے تھے اور اولاد کوبھی یہی درس دیتے تھے بقول شہباز کے کہ میں اپنے والد کے حکم پر حضرت علامہ طاہرالقادر ی مد ظلہ العالی کے جوتوں کے تسمے کھولتا انکی قدم بوسی کرتا تھا۔ جبھی حضرت جوان تھے۔ اب جب وہ اپنی زندگی کی کئی بہاریں اﷲ کے دین کی خدمت میں گذار چکے ۔ اب دور پیری آگیا۔ وہ اچھی باتوں کی تلقین کرتے ہیں ۔وہ شریفوں کا بھلا چاہتے ہیں کہ انکی آخرت دولت اور اقتدار خراب نہ کردے ۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو حضرت علامہ کا تعلق شریف فیمیلی کے ساتھ بہت گہرا ہے یہی وجہ ہے انہیں ان سے انتہائی درجہ ہمدردی ہے ۔بڑے بزرگوں کا لب و لہجہ سخت ہی ہوتا ہے۔ اگر تحمل کا مظاہر کریں تو دنیا و آْخرت میں بھلا شریفوں کا ہوگا۔ لیکن وہ اپنے بزرگ اور مقدس مذہبی سربراہ کے جانی دشمن بن گئے ہیں ِ، انکی شان میں نازیبا الفاظ کا استعمال، انکے مریدوں کو قتل کرنا، مقدمے بنا، انکی گرفتاری کے احکامات دیناکہاں کی سعادتمندی ہے۔ کاش کہ میرے یہ الفاظ ان تک پہنچ جائیں کہ وہ انہیں پڑھ کر ماضی میں جھانکیں اور اپنے کیئے پر شرمسار ہوں۔ شریفوں کو اپنی اور اپنے مرشد کی عوامی مقبولیت کا بھی اندازہ ہوجانا چاہیئے۔ تم طاقت اور اقتدار کے بل بوتے پولیس سے کام لیتے ہو مگر پولیس تمہاری جاں نثار نہیں جبکہ تمہارے مرشد کو وہ مقام حاصل ہے کہ عوام جن میں عورتوں اور معصوم بچوں کی بڑی تعداد شدید طوفا نِ بادوباراں میں بھی ثابت قدم رہی۔ پورے ملک سے انکے جاں نثار آگے بڑھ رہے ہیں ۔ انہیں جان و مال کی پرواہ نہیں۔ کیا شریف فیمیلی نے غور نہیں کیا کہ حضرت علامہ کے پاس کیا ہے کہ لوگ سب کچھ ان پر قربان کررہے ہیں؟ یہ وہی کچھ ہے جس کی بنا پر حاجی محمد شریف صاحب ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کا احترام کرتے تھے اور اپنے لڑکوں سے کراتے تھے ۔ یہ قرآن وسنت کا علم اور عمل ہے جس نے علامہ صاحب کو پوری دنیا میں عظیم مقام دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نظام حکومت درست کرو، ظلم و ناانصافی بند کرو، پاکستان کو پاک بناؤ، عوام کو انکے حقوق دو، لوٹ مار بند کرو، پاکستان کے آئین پر عمل درآمد کرو ۔ پاکستان کے ہر شہری کی یہی آوازہے۔لیکن مال کی ہوس نے ہمارے حکمرانوں کو اس قدر حواس باختہ کردیا ہے کہ وہ اقتدار کی خاطر ظلم کی آخری حد تک جارہے ہیں۔ہمارے سیاستدان جمہوریت کی رٹ لگاتے ہیں لیکن عوامی مطالبات پر اقتدار چھوڑنا انہیں اپنی موت کے مترادف لگتا ہے۔ جناب جنرل محمد ایوب خان ایک خاندانی اور باوقار اور غیرت مند شخص تھا ۔ جب اسے معلوم ہوا کہ لوگوں نے اسکے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کیئے ہیں تو اس نے فوری طورپر اقتدار سے کنارہ کشی کی اور باقیہ ایام حیات آزادی سے اسلام آباد کی مارگلہ اور ایمبسی روڈ پر چہل قدمی میں گذارے۔ لیکن انکے بعد کسی نے انکی تقلید نہیں کی۔ کیا فائدہ کہ عوام لعنت ملامت کرکے بے عزت کرکے اتاریں ۔ پولیس میں گلوبٹ جب عوام کا قتل عام کریں گے تو کیا عوام انکے آگے گردنیں رکھدیں۔ حکومت عوام کی خدمت اور انکے تحفظ کے لیئے ہوتی ہے۔ جب کئی لوگ سڑکیں کنٹیروں سے بند ہونے کی وجہ فوت ہوگئے۔ کاروبار زندگی معطل، مال کی ترسیل اور عوام کی آمدورفت بند، پٹرول پمپ بند، صوبے کے تمام پرنٹنگ پریس بند، کوئی بتائے کہ کیا ہوگیا ، کونسا طوفا آگیا، یہی کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے اپنے جمہوری حق کے تحت حکومت کے خلاف دھرنے اور مارچ کرتے ہیں ۔ تمام پرانے سمجھدار سیاستدان یہ کہ رہے ہیں کہ عوام کو حکومت کے خلاف احتجاج کا حق ہے۔ ان کا راستہ نہ روکیں۔ جب آپ بلاوجہ راستہ روکیں گے تو اشتعال بڑھے گا۔ آپ پولیس سے آنسو گیس پھینکنے ، لاٹھی چارج اور لوگوں پر سیدھی فائرنگ کرائیں گے یہ احتجاج جو پرامن ہیں پھر تشدد میں بدل جائیں گے۔ میں ملکی امن و سلامتی کے لیئے یہی گذارش کروں کہ میاں صاحب 13 ۱گست 1988 کے اسلام آباد ہوٹل جیسے واقعات نہ دہرائیں۔ اب تین دفعہ وزیراعظم بن چکے اور اندرون ملک و بیرون ملک اپنے سرمائے اور کاروبار پر اکتفا کریں۔ اپنے پیرومرشد اور اپنے پیربھائیوں پر جھوٹے پرچے درج کرانا بند کریں۔ ڈریں اﷲ سے کہ جوبڑے بڑے مغرور اور متکبر کو نشان عبرت بنا دیتا ہے۔
اﷲ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلائے۔ امین۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128145 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More