ہم آ رہے ہیں
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے
کپتان صاحب کوملک وقوم نہیں’’کُرسی‘‘ سے محبت ہے اوراِس محبت کی جنگ میں وہ
اپناپُرانا’’بال ٹمپرنگ‘‘والا حربہ بھی استعمال کرنے سے نہیں چونکتے کیونکہ
’’جنگ اورمحبت میں سب جائزہے‘‘لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ بالکل غلط اورالزام
تراشی ہے کیونکہ خاں صاحب تو لَگ بھگ چودہ ماہ سے اپنی سونامی کوسمجھابجھا
کرٹھنڈاکرتے رہے لیکن’’تنگ آمدبجنگ آمد‘‘کے مصداق ’’سونامی‘‘ اب بپھرچکی ہے
اور خاں صاحب کی بھی سُنی ان سنی کردیتی ہے۔سونامی کہتی ہے کہ خاں صاحب نے
اپنے بیٹوں سے وعدہ کیاتھا کہ اُن سے اگلی ملاقات بطوروالدنہیں وزیرِاعظم
ہوگی۔اُسے یہ بھی علم ہے کہ خاں صاحب ضدکے پکے اورتھوڑے’’ہَٹ دھرم‘‘واقع
ہوئے ہیں اِس لیے اب وہ اتنی دیرتک اپنے بیٹوں سے نہیں ملیں گے جب تک
وزیرِاعظم نہیں بن جاتے۔اُدھرمیاں برادران کی جاری پالیسیوں اورمنصوبوں
کودیکھ کرتویوں محسوس ہوتاہے کہ کپتان صاحب کا اِس جنم میں تووزیرِاعظم
بننے کادوردورتک کوئی امکان نہیں۔گویاخاں صاحب کوبیک وقت دودُکھ جھیلنا
ہونگے۔ایک’’کرسی‘‘سے دوری کا دُکھ اوردوسرابیٹوں سے جدائی کا۔یہ صورتِ حال
سونامی کوہرگزقبول نہیں اسی لیے یہ طے ہے کہ اب معرکہ ہوگا،آخری
معرکہ۔حکمرانوں کے لیے بُری اورہمارے لیے اچھی خبریہ ہے کہ اب شیخ الاسلام
اورکپتان صاحب ایک ہی بولی بول رہے ہیں اوردونوں کانقطۂ ارتکازحکومت
کاخاتمہ ہے لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ خاں صاحب حکومت کے خاتمے کے بعدالیکشن
چاہتے ہیں جبکہ مولانا قادری صاحب انقلاب اورکڑا احتساب۔سوچ کا یہ معمولی
فرق بھی عنقریب دورہوجائے گا۔ہم نے ایک لیگئے کوجب بڑے فخرسے یہ خبرسنائی
تواُس نے مسکراتے ہوئے کہا’’چلویہ بھی اچھاہی ہوا۔اب ایک ہی ہلّے میں دونوں
کاصفایاہوجائے گا‘‘۔ہم نے کہا’’ایسی ہی خوش فہمیوں کی بدولت آپ کوپہلے بھی
جَلاوطن ہوناپڑا‘‘۔
مولانا صاحب نے توقوم کوخوشخبری سنادی ہے کہ میاں برادران نے اپناسامان
باندھ لیا ہے اوروہ پاکستان سے کھسک لینے کوتیاربیٹھے ہیں۔اب کی باراُن کی
منزل امریکہ ہے کیونکہ سعودی حکومت نے میاں برادران کوپناہ دینے سے صاف
انکارکردیا ہے۔جبکہ دوسری طرف میاں شہبازشریف کہتے ہیں کہ قُرآنِ پاک کی
جھوٹی قسمیں اُٹھاکرقوم کوگمراہ کرنے والاعالمِ دین ہوہی نہیں سکتا۔
مولاناطاہراشرفی نے شیخ الاسلام کی گرفتاری کامطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ
اگرجامعہ حفصہ کی طالبات ڈنڈے اُٹھائیں تواُنہیں فاسفورس بموں سے اُڑادیا
جاتا ہے لیکن منہاج القرآن کے سامنے ڈاکٹرطاہرالقادری کی ’’مریدنیاں‘‘ڈنڈے
اٹھائے بیٹھ رہیں تواُنہیں کچھ نہیں کہا جاتا۔اشرفی صاحب کوپتہ ہوناچاہیے
کہ یہ’’آستانۂ قادریہ‘‘ہے جہاں جمال نہیں جلال ہی جلال ہے۔حکومت نے
کنٹینرلگاکرمنہاج القرآن کی طرف جانے والے راستے توبندکردیئے لیکن وہ نہیں
جانتی تھی کہ مُرشدکے ایک اشارے پرسارے کنٹینربھاپ بن کراُڑ جائیں
گے۔اُنہوں نے اپنی ڈنڈابردارفورس کوحکم دیاجس نے پہلے پولیس کی دوڑیں
لگوائیں اورپھرپلک جھپکتے میں منہاج القرآن کی طرف جانے والے راستوں کی
ساری رکاوٹیں دورکردیں۔رہاشیخ الاسلام کی گرفتاری کا معاملہ توسوال یہ ہے
کہ بِلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟۔یہاں توصورتِ حال یہ ہے کہ بِلّی
ہی’’شیر‘‘پرحاوی نظرآتی ہے اوراب تومنہاج القرآن کی ’’خونخوار‘‘بلیوں نے یہ
بھی کہہ دیاہے کہ وہ شیخ الاسلام کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قُربان
کردیں گی۔اُنہوں نے اپنے آپ کومختلف گروہوں میں منقسم کرکے شیخ الاسلام کی
حفاظت بھی شروع کردی ہے ۔ویسے اِن حکومتی’’بھولے بادشاہوں‘‘کواتناتوعلم
ہوناچاہیے تھاکہ ہم نے انقلاب کانعرہ’’ایویں ای‘‘تونہیں لگادیاتھا۔ہم نے
اپنے گھوڑے تیاررکھے اور مُرشدکے حکم پرسروں پہ کفن بھی باندھ لیے
لیکن’’بادشاہ‘‘استراحت فرماتے رہے۔مُرشدکے حکم پرسبھی ایک ہاتھ میں کیل لگے
ڈنڈے،دوسرے میں ڈھال،مُنہ پرگیس ماسک اورسروں پرہیلمٹ ڈالے جب باہرنکلے
توپولیس کی دوڑیں لگوادیں اورحکومت جوتین دِن سے کنٹینرلگالگاکر’’ہَپھ‘‘چکی
تھی اُس کی اِس کوشش کوتہس نہس کرتے ہوئے سارے کنٹینرلمحوں میں الٹاکے رکھ
دیئے۔یہی نہیں بلکہ شیخ الاسلام کے دیوانوں،پروانوں اورمستانوں نے پورے ملک
میں وہ’’دھمال‘‘ڈالی اورپولیس کاایسا حشرکیاکہ’’کوئی یہاں گرا،کوئی وہاں
گرا‘‘۔گوجرانوالہ کے علاقہ سادھوکی میں51پولیس اہلکار زخمی ہوئے اورکچھ
اغوا۔خوشاب کا تھانہ ریکارڈسمیت جلادیا،حوالات توڑکرتین خطرناک ڈاکوؤں
کورہاکروایااورڈی ایس پی سمیت چارپولیس اہلکاروں کواغوکرلیاتاکہ’’بوقتِ
ضرورت‘‘کام آئیں۔یہی نہیں بلکہ اب تومیاں شہبازشریف کی ناک کے عین نیچے
اوراُن کے گھرسے چندقدم دورمنہاج القرآن کے سامنے سے بھی چھ پولیس اہلکاروں
کویَرغمال بنا لیا گیاہے ۔اب تو’’بادشاہوں‘‘کوپتہ چل گیاہوگاکہ شیخ الاسلام
کی ڈنڈابردارفورس اُن کے احکامات کو’’صحیفۂ آسمانی‘‘سمجھتی ہے ۔میں نے ایک
نوازلیگیئے سے کہاکہ حکومت ایک چھوٹے سے علاقے(ماڈل ٹاؤن)میں تواپنی رِٹ
قائم کرنہیں سکی،پورے ملک میں کیاخاک کرے گی۔اُس نے تَپ کرجواب دیاکہ حکومت
اِن’’دہشت گردوں‘‘کوچیونٹی کی طرح مَسل سکتی ہے لیکن طاہر القادری کی کوشش
ہے کہ اُسے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح مزیدلاشیں مِل جائیں جوہم ہونے نہیں دیں
گے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت طاقت کابھرپوراستعمال نہیں کررہی۔میں نے کہاکہ
اگرحکومت یہ سمجھتی ہے کہ مُرشدکے پروانے صرف ڈنڈابردارفورس تک محدودہیں
تووہ یہ خوش فہمی دِل سے نکال دیں۔یہ توہماراصرف ہراول دستہ تھا،ہمارے پاس
ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے والوں کی کمی ہے نہ جدیدترین اسلحے کی۔ذراوقت کوآگے
کھسکنے دیں،پھرایسادمادم مست قلندرہوگاکہ ہمارے بیرونی دوست خوش ہوجائیں گے
اوریہ جوعزیزبھائی اورمعروف کالم نگاررؤف طاہرنے اپنے کالم میں لکھاہے
کہ’’ایک دوست کی تجویزہے ۔قائدِ انقلاب کی اشتعال انگیزتقاریرکی وڈیواسلام
آبادمیں کینیڈین سفارت خانے کوبھجواکرپوچھاجائے کہ فتنہ وفسادپرابھارنے
والی،اِس کے شہری کی اِن سرگرمیوں پرکیاکارروائی کی جائے‘‘۔بھائی رؤف
طاہرکے دوست بھی حکمرانوں کی طرح’’بھولے بادشاہ‘‘ہی ہیں کیونکہ وہ نہیں
جانتے کہ منہاج القرآن کامیڈیاسیل پہلے ہی نہ صرف کینیڈابلکہ اپنے
دیگربیرونی دوستوں کوایک ایک لمحے سے باخبررکھ رہاہے بلکہ اُن سے ہدایات
بھی لے رہاہے ۔کینیڈین حکومت کی تواپنے ’’شہری‘‘کے کارناموں پرباچھیں کھلی
جارہی ہیں،پنجاب حکومت لاکھ کینیڈین سفارت خانے کوخط لکھے،وہ
اپنے’’کارآمد‘‘شہری کی شہریت منسوخ نہیں کرنے والی۔ |
|