ptiپاکستان کی تیسری بڑی پارٹی
ہے جس کی kpkمیں حکومت بھی ہے۔گزشتہ الیکشن میں پنجاب میں دوسرے نمبرپر
انہی کے اُمیدوارتھے۔اس بنیاد پرکہاجاسکتاہے کہ اگر اس پارٹی کوہرسطح پر
اچھے رہنماء میسرآئے تو چارسال بعد یہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی بننے کی
اہلیت رکھتی ہے۔لیکن اس کیلئے انہیں اپنے کارکنوں کواخلاقی ‘معاشرتی
اورسیاسی تربیت کے کوہلومیں سے گزارناہوگاوگرنہ محض جذبات اورجلسے الیکشن
میں اچھے نتائج مہیانہیں کرسکتے۔kpkمیں ایک ماڈل بھی ہرحال میں پیش
کرناہوگا۔وگرنہ kpkکے عوام انہیںanpاورmmaکی طرح سیاسی منظرسے غائب کرنے کی
صلاحیت رکھتے ہیں۔تیسری بات یہ کہ انہیں سیاست کرناہوگی نہ کہ جنگ۔
عوامی حلقوں میں تاثراُبھررہاہے کہ خان صاحب بھی اب پکے سیاسی بنتے جارہے
ہیں۔اوراگرخان صاحب 14اگست کو پرانے سیاسی رہنماؤں کی مانند مطالبات پیش
کرتے ہیں تو ممکن ہے مہربھی ثبت ہوجائے۔انہیں چاہیئے کہ idpsاورلوڈشیڈنگ
کوبھی سرفہرست رکھیں‘کم وبیش دس لاکھ آئی ڈی پیز kpkکی حکومت کے بے
گھراوربے بس مہمان ہیں ۔ملکی حالات کے پیش نظرخان صاحب کو امن وامان کے
انتظامات بھی کرناہوں گے۔اپنی صفوں میں شرپسند عناصرکووہ کیسے کنٹرول
کرپائیں گے ؟اسکے لیئے ناچیز کی رائے میں انہیں چند اقدامات فوری کرنے
چاہیں ۔1:لانگ مارچ کے دوران بہترہے کہ ڈویژن لیول پرسیکورٹی کمیٹیاں بنائی
جائیں اوراس ڈویثرن سے متعلقہ افراداپنے ڈویزن کے حصارمیں ہی رہیں ‘اس سے
بدنظمی پھیلانے والوں کی نشاندہی میں مددمل سکتی ہے۔2:سیکورٹی کے افراداپنے
حلقے کے بااثراورجذبات سے مغلوب نہ ہونے والے انسان ہوں۔3:سیکورٹی کے علاوہ
کسی کے پاس ڈنڈا‘چاقویااسلحہ نہ ہواور سب سے بہتر ہے کہ سیکورٹی والے بھی
ہتھیار پاس نہ رکھیں کیونکہ انہوں نے محض نہتے لوگوں کوکنٹرول کرناہے
۔4:خان صاحب دھرنے کوطول نہ دیں کیونکہ اس سے ہزاروں مزدوربے
روزگاراوراسلام آباد کے 12لاکھ شہری مفلوج ہوکررہ جائیں گے۔5:خان صاحب کے
مطالبات آئینی توہوں گے ہی سہی لیکن مطالبات موقع اورحالات کی مناسبت سے
قابل عمل بھی ہونے چاہیں۔6:خان صاحب اپنے مطالبات میں غزہ کے معصوم لوگوں
کے حق میں تواناآوازبلندکرنے کیلئے حکومت پردباؤڈالیں ۔7:سندھ اوربلوچستان
میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کاریکارڈ پیش کرکے حکومت سے ان کے
تحفظ کی ضمانت لیں۔8:بائیومیٹرک الیکٹوریل سسٹم اورانتخابی اصلاحات کیلئے
فوری اورموء ثراقدامات کامطالبہ کریں۔9:آئی ڈی پیز کے مسائل اوربلوچستان
میں موجودانتشاراورانکے حقوق کیلئے آوازبلندکریں۔10:خان صاحب اپنے ساتھ
موجود لوگوں کوایسی باتیں کہنے سے روک دیں جن میں وہ بالواسطہ یابلاواسطہ
قومی اداروں کواپنی سیاست میں گھسیٹ کران کی ساکھ کومتاثرکررہے ہیں۔
بہترتویہی تھاکہ خان صاحب لانگ مارچ ہی موخرکردیتے لیکن اس ساری گیم میں
حکومتی لغزشیں بھی شامل ہیں‘ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی ۔بہرحال خان صاحب
کو اپنادامن بچاناہوگااورمذاکرات کرناہوں گے ۔سیاست میں بندگلی نہیں ہوتی
اگرکسی کے مشورے پرایساہواتوایک اوررانامختارکاجنم ہوسکتاہے اوریہ جمہوریت
کے نقصان میں شمارہوگا۔
کچھ دوست کہتے ہیں کہ پاکستان میں بائیومیڑک سسٹم کامیاب نہیں ہوسکتاتو ان
احباب سے گزارش ہے کہ انڈیامیں بائیومیڑک سسٹم لاگوہے اوروہاں بھی ان پڑھ
لوگ موجود ہیں جب وہاں کامیابی سے الیکشن ہوگئے توہمارے ہاں کیوں نہیں
ہوسکتے۔رہ گئی بات موجودہ نظام کی تومیری رائے میں پاکستان کیلئے صدارتی
جمہوری نظام بہترہے ۔کیونکہ موجودہ نظام میں تو پیسہ لگاکرہرایراغیراشامل
ہوکر وزارت سنبھال لیتاہے اورلاکھ لگاکرکروڑوں کماتاہے ۔اوردوسری بات یہ کہ
یہ ایم این اے حضرات شخصیات کے وفادارہوتے ہیں ملک کے نہیں ۔یہ ہمیشہ پارٹی
کے مالک ہی کووزیراعظم بناتے ہیں چاہے وہ جیسابھی ہو۔جب صدارتی نظام
ہوگاتوعوام اپنارہنماء ڈائریکٹ چنیں گے ۔اوروہ رہنماء وزارتیں پارلیمنٹ
کونہیں بانٹے گابلکہ متعلقہ شعبے کہ ماہر ٹیکنوکریٹس لائے جائیں گے‘کوئی
زیرتعلیم ووٹ کے ’و‘سے وزیرتعلیم نہیں بن سکے گا۔پارلیمنٹ صرف قانون سازی
کرے گی۔اسکے علاوہ قومی چینل پر وزیراعظم یاصدر کے امیدوارکے درمیان قومی
ایشوز پر مباحثہ بھی ہوناچاہیے تاکہ عوام انکے خیالات جانچ کرہی انھیں ووٹ
دیں۔
آخرمیں دعاہے کہ اﷲ تعالی ارض وطن کوانتشارسے بچائے اوراس ملک کے دشمنوں
اورسازشیوں کوبے نقاب کردے۔امین |