لوگوں کو یہ کہنے کا موقع
نہ دینا کہ ہم آزادی کے لائق نہیں تھے۔
ایڈیٹر ، نوائے وقت اسلام آباد۔ کو لکھے گئے پرانے خط سے یوم آزادی پر یاد
دہانی
چند روز پہلے میں نے نوائے وقت کے اسرار ہے میں ایک سکھ کے بارے میں پڑھا
تھا جس نے قائد اعظم اور ماسٹر تارا سنگھ کے بارے میں ہمارے بابے اور اپنے
بابے کے بارے میں لکھا تھا ۔ اس سلسلے میں میرے پاس جو اطلاع ہے وہ قوم کی
امانت ہے اور میں چاہوں گا کہ اس واقعہ سے سب کو آگاہ کروں۔کیونکہ اس سکھ
نے جو کہا تھا اس کا ثبوت میرے پاس بھی ہے کہ وہ سچ کہہ رہا تھا۔
میں 1982اور 1986کے درمیان نئی دہلی انڈیا میں پاکستانی سفارت خانہ میں
فرائض انجام دیتا رہا تھا ۔ اس دوران ہر قسم کے لوگوں سے ملاقات کا موقع
ملتا رہتا تھا۔ اس عرصہ میں ایک سکھ ، جناب سردار جگندر سنگھ، سے ملاقات
ہوئی جو دوستی میں بدل گئی۔عمر میں چونکہ بہت بڑے تھے اس لئے میں انہیں
انکل کہا کرتا تھا۔ اور وہ بھی مجھے محبت سے بیٹا ہی کہتے تھے۔ پڑھنے لکھنے
والے آدمی تھے یعنی Intellectual ۔وسیع تجربہ بھی تھا۔ درمنددل بھی رکھتے
تھے۔ پاکستانیوں سے خصوصاً محبت تھی۔ پنجابی زبان اور کلچر ہمارے پسندیدہ
موضوعات ہوتے تھے۔
1983 میں ایک کتاب چھپی تھی۔ Are Sikhs a Nation ۔وہ میں نے خریدی اور پڑھی
۔ اس میں چند جگہ پر قائد اعظم کے بارے میں اچھے الفاظ میں ذکر نہ تھا۔
اگرچہ اس کتاب میں تمام argumentsمیں قائد اعظم ہی کے نقاط بلکہ بعض جگہ
زبان یا الفاظ تک بھی کاپی کر کے بھی لکھے گئے تھے جو کہ وہ مسلمانوں کو
بطور قوم ثابت کرنے کیلئے استعمال کرتے تھے۔
اس کتاب میں قائد اعظم اور ماسٹر تارا سنگھ کی ملاقات کا ذکر بھی تھا ۔ جس
میں قائد اعظم نے ماسٹر تارا سنگھ کو پاکستان کے ساتھ مل جانے کی دعوت دی
تھی اور ساتھ ہی یقین دہانی کی کرائی تھی کہ جو شرائط بھی سکھوں کو مطمئن
کر سکتی ہیں وہ ماننے کیلئے تیار ہیں۔ بلکہ انہوں نے Offerکی کہ وہ سادہ
کاغذ پر دستخط کر دیں گے باقی وہ خود پر کر لیں۔ ماسٹر تارا سنگھ نے یہ کہہ
کر ماننے سے انکار کر دیا کہ آپ بوڑھے ہیں۔ آپ کے مرنے کے بعد ان شرائط پر
عمل نہیں ہو گا۔ جس پر قائد اعظم نے کہا کہ نہیں ۔ میری بات کو Honourکیا
جائے گا۔ اس پر ماسٹر تارا سنگھ نے دل میں سوچا کہ واقعی مسٹر جناح پاگل
ہیں جو یہ سوچتے ہیں۔
میں نے سردار جگندر سنگھ سے شکایتاً کہا کہ یہ مسٹر جناح کے ساتھ زیادتی
ہے۔ سردار صاحب کہنے لگے۔ کہ بیٹے میں نے کتاب پڑھی ہے ۔ لیکن تمہیں ہم سے
گلہ نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ ہم نے ہندوؤں کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ اس لئے تم
لوگوں کے بارے میں یا تمہارے ساتھ کچھ نہ کچھ تو لکھناہی ہو گا۔ لیکن جو
بات اب میں تمہیں بتانے لگا ہوں مصنف وہ بات لکھ نہیں سکتا تھا۔ یہ ہماری
مجبوری ہے۔
پھر سردار صاحب نے آہ بھری اور کہا ."کاش ہمارا بابا تمہارے بابے کی طرح
عقل مند ہوتا۔ واہ واہ تمہارے بابے کا کیا کہنا۔ رب نے اسے بہت ہی بصیرت
والا اور مستقبل میں دیکھ سکنے والاپیدا کیا تھا۔ وہ واقعی بزرگ تھا۔ ساتھ
ہی جمہوریت پسند بھی۔ تمہارے بابے نے جو کہاتھا وہ اب ہر سکھ کو پتہ ہے۔
اور یہ بات Quotationکے طور پر سینہ بہ سینہ سکھوں میں پھیل رہی ہے۔ تم خود
کسی سکھ سے پوچھ کر ٹیسٹ کر لو۔ مسٹر جناح نے ماسٹر تارا سنگھ کو اس کے
انکار پر یہ کہا تھا۔
" Master Tara Singh! you are free to choose. But mark my words. you have
seen Hindu as a slave. you have not seen him ruler yet."
اس پر سردار جگندر سنگھ نے پھر آہ بھر کر کہا ۔ " کاش۔ رب ہمیں بھی تمہارے
بابے جیسا ایک بابا دے دیتا۔ تو آج یہ رونا نہ پڑا ہوتا۔ مسٹر جناح نے کیا
ہی پتے کی بات کی تھی۔ سکھوں کو ہندوؤں کا پتہ ہی نہ تھا کہ ہندوبطور
بادشاہ کیسے ہوں گے۔ سکھوں نے تو صرف مسلمانوں یا انگریزوں کی بادشاہت
دیکھی تھی۔"
پھر سردار صاحب کہنے لگے۔ "پتر ۔ ہمیں تو اب پتہ چلا ہے کہ مسلمان ہمارے
کتنے خیر خواہ تھے۔ اس وجہ سے ہم نے اب تاریخ کو نئے انداز سے دیکھنا شروع
کیا ہے۔ سکھوں سے لڑائیاں مسلمانوں نے نہیں بلکہ دہلی کے بادشاہوں نے کی
تھیں۔ چاہے وہ مسلمان بادشاہ، ہو چاہے انگریز یا ہندو۔ مگر ہندوؤں نے تو
ہمیں اپنا بنا کر ، اپنا کہہ کر، استعمال کر کے دھوکہ دیا ہے۔ کسی بھی جگہ
انہوں نے بہادروں والوں کے اصول نہیں دکھائے۔ بنئے والے اصول ہی دکھائے
ہیں۔ "
ان کے جذباتی ہو جانے پر میں نے ان کو consoleکیا۔ تسلی دی اور کہا کہ شکر
ہے اب تو آپ کو صحیح بات سمجھ میں آئی اور مسلمانوں کے خلاف جو مذہبی غصہ
تھا یا شکایات، وہ دور ہو گئیں۔ اس پر کہنے لگے۔ " پتر ہم تو تم لوگوں کے
قریب ہیں۔ ہم ایک ہی خدا کو مانتے ہیں ۔ ہمارا گردوارہ، تمہاری مسجد کے
ڈیزائین پر ہے۔ ہم لوگ رب کو ہی مانتے ہیں ہم تو دھوکے میں ہی مارے گئے ۔
اور اپنے آپ کو تباہ کر لیا۔ "
یہ میں نے ضروری سمجھا ہے کہ قائد اعظم کے الفاظ جوں کے توں جو میں نے
سردار جگندر سنگھ سے سنے تھے، بیان کر دوں۔ ان الفاظ میں قائد اعظم کی
سٹائل واضح ہے۔ Wisdom، الفاظ کا صحیح چناؤ، سب نظر آتے ہیں ۔ اور ان کے
پیچھے صدیوں پر محیط تجربہ جو ایک ہی فقرہ میں بیان کر دیا گیا ہے۔ یہ
فراست یقینا مومن کی فراست تھی جو کہ آنے والے وقتوں کو اپنے رب کی دین سے
دیکھ سکتا تھا۔ یہ بصیرت یقینا صرف سچ بولنے والوں اور منافقت سے دور رہنے
والوں کو ہی اﷲ تعالیٰ کی ذات عنایت فرماتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ قائد اعظم کو اپنے انعامات سے نوازے ۔ آمین۔ کہ ہم اپنے بابے اور
اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے اس ہندو بادشاہ کی غلامی سے سے بچ گئے ہیں۔ ورنہ ہمار
ا بھی سکھوں یا ہندوستانی مسلمانوں جیسا حشر ہوتا ۔ لیکن ہم پر اپنے رب اور
اس بابے کی شکر گزاری بھی لازم ہے۔ کہ ہم پاکستان کو اتنا مضبوط بنا دیں کہ
ہماری نسلیں ہندوؤں کی غلامی سے محفوظ ہو جائیں۔ اگر ہم نے اپنی بے عقلی ،
بد اعمالیوں سے توبہ نہ کی تو اسی بابے کی وارننگ کا بھی خیال رہنا چاہیئے۔
جو انہوں نے اس امانت کو سنبھالتے وقت دی تھی۔
let it not be said that we did not prove equal to the task. "
ــ"
پاکستان کی حفاظت کا فرض ہم سب پر یکساں ہے، چاہے حکمران ہوں ، سیاست دان ،
اہل علم، اہل حرفہ، تجارت پیشہ ، صنعت کار ، یا کسان ، یا طالب علم۔ مرد یا
عورت ۔ صرف فوجی جوان کا نہیں۔۔اﷲ تعالیٰ ہمیں صحیح سوچ اور عمل عطا فرمادے
آمین۔
راولپنڈی۔ والسلام
مئی، 1994 امتیاز علی
ٹورنٹو۔ کینیڈا۔ 10 اگست 2014۔
ونسٹن چرچل کے مندرجہ ذیل ریمارکس اس دلیل کا حصہ ہیں
کہ ہندوستاں ابھی آزادی دینے کے قابل نہیں ہوا کیونکہ اس کے لیڈروں کا کوئی
سٹینڈرڈ ہی نہیں ہے۔
Winston Churchill Remarks,
House of Commons Debate on independence of India
"Power will go to the hands of rascals and rogues, Free Booters.!!!
All Leaders will be of low caliber and men of straw!!!
They will have sweet tongues and silly hearts!!!
They will fight amongst themselves for power and India/Pakistan will be
lost in political squabbles!!!
A day would come when air and water will be scarce and taxed!!!
Nawai Waqt,21 Feb,2011
کیا مسٹر چرچل کی ہمارے لیڈروں بارے رائے صحیح نہیں تھی۔
اور کیا قائد اعظم کا ہمیں وارننگ دینابھی مناسب اور درست نہیں تھا۔ |