انقلاب و لانگ مارچ : عوامی مشکلات کا ذمہ دار کون؟
(Muhammad Siddique, Layyah)
سورج کی گرمی کے ساتھ ساتھ
سیاست کی گرمی نے بھی عوام کو بے حال کردیا ہے۔انقلاب مارچ ہویا آزادی مارچ
اس میں عوام کوشامل کرنے اورروکنے کیلئے کیا کچھ نہیں ہوا۔تاہم اس سارے عمل
میں عوام کے مسائل کہیں نظر نہیں آتے۔اس وقت کی سیاسی صورتحال سے ایسامحسوس
ہوتاہے کہ اس وقت ملک میں انقلاب اورآزادی مارچوں کے علاوہ کوئی مسئلہ ہی
نہیں ہے۔عوام کے جان ومال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔دہشت
گردی کے اس ماحول اور آپریشن ضرب عضب کے ممکنہ ردعمل کے تناظرمیں حکومت کی
اس ذمہ داری میں اوربھی اضافہ ہوجاتاہے۔اس لیے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے
ممکنہ طور پر بچنے اور امن و امان قائم کرنے کیلیے اقدامات کرتی رہتی ہے۔جب
بھی کوئی مذہبی یا سیاسی جلسہ ہوجلوس ہو ، کانفرنس ہو،سیمینار ہویا دھرنے
اورلانگ مارچ ہوں حکومت ملک میں امن کے قیام کو ممکن بنانے کیلیے اقدامات
کرتی ہے۔بعض اوقات سڑکوں کو بند بھی کرناپڑتاہے۔امن کے دشمن کسی بھی روپ
میں آسکتے ہیں۔ اس لیے حفاظتی انتظامات میں عوام کومشکلات کا بھی سامنا
کرنا پڑتاہے۔اس وقت حکومت پر تنقیدہورہی ہے کہ اس نے پورا ملک بندکردیا
ہے۔عوام کو یہ مشکلات ہیں وہ مشکلات ہیں۔ان سخت حفاظتی انتظامات میں بھی اﷲ
نہ کرے کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوجائے۔تو پھر بھی سب حکومت پر تنقید کی بارش
کردیں گے۔کہ اس کے انتظامات ناقص تھے۔یہ تھا وہ تھا۔جہاں تک انقلاب و لانگ
مارچ کے سلسلہ میں کیے گئے حفاظتی انتظامات کا تعلق ہے۔یہ سچ ہے کہ احتجاج
اپوزیشن اور عوام کا حق ہے تاہم عوام کی حفاظت کرنا تو حکومت ہی کی ذمہ
داری ہے۔اگرچہ ماضی میں لانگ مارچ پرامن بھی رہے ہیں تاہم کسی بھی انہونی
کو رد نہیں کیا جاسکتا۔اور جب عوام کوصبروتحمل اور بردباری کا درس دینے کی
بجائے اشتعال دلایاجائے تواس طرح کے انتظامات کی اہمیت اور بھی بڑھ جایا
کرتی ہے۔
ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ مارچوں والے کیاچاہتے ہیں۔اور حکومت کیا
چاہتی ہے۔ہم تو یہ تلاش کررہے ہیں کہ دونوں میں سے عوام کا خیرخواہ کون
ہے۔آیئے اخبارات و حالات کے آئینہ میں دیکھتے ہیں کہ حکومت اور سیاستدانوں
کے درمیان مقابلے کی اس فضا میں عوام پر کیا گزری۔ڈیرہ غازی خان سے خبرہے
کہ ڈیرہ غازی خان سمیت اردگرد کے علاقوں میں پٹرول کی سپلائی بند،ایجنسیوں
پر پٹرول دو سو سے دوسوپچاس روپے فی لٹر میں کھلے عام فروخت۔پرائیوٹ و نجی
ٹراسپورٹ پٹرول کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند،ٹرانسپورٹ نہ ہونے سے کھانے
پینے کی سپلائی معطل،سبزیاں اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں
کئی گنا اضافہ،مریضوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جانے کے لیے پریشانی
کاسامنا۔شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر بڑے بڑے کنٹینر لگا کر بندکردینے
سے بھی مسافر پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔جام پور سے خبر ہے کہ پٹرول کی قیمت
تین سو روپے فی لٹر ہوگئی۔داجل سے خبر ہے کہ اکثر پٹرول پمپوں پر پٹرول
نایاب ہوگیا۔ڈیزل نہ ملنے کی وجہ سے سینکڑوں ٹیوب ویل بند پڑے ہیں۔جس سے
کپاس کی فصل تباہ وبرباد ہورہی ہے۔کوٹلہ دیوان بستی چھینہ، فاضل پور، چوک
اعظم،حاصل پور، جن پور، ننکانہ صاحب، مانانوالہ، جاربرٹن، فیروزوٹواں، موڑ
کھنڈا،ہیڈ بلوکی، بچیکی ، شرقپور، شاہ کوٹ اورشیخو پورہ سے بھی اس طرح کی
خبریں ہیں۔لاہور سے خبر ہے کہ وزیر قانون رانا مشہود کے اعلان کے
باوجودلاہور میں پٹرول پمپ تیسرے روز بھی نہ کھل سکے۔جبکہ اسلام آباد
راوالپنڈی میں بعض پٹرول پمپ کھلے رہے۔جہاں گاڑیوں موٹر سائیکلوں کی لمبی
قطاریں لگ گئیں۔کھلے ہوئے پٹرول پمپوں کی انتظامیہ کا کہنا تھاکہ پٹرول کی
سپلائی معمول کے مطابق آرہی ہے جب کہ سیل ڈبل ہوگئی ہے۔جس کو ایک لٹرکی
ضرورت ہے وہ دس لٹر لے رہا ہے۔شہریوں کا الزام ہے کہ بعض پٹرول پمپس کی
انتظامیہ قناتیں لگاکر مہنگے داموں پٹرول فروخت کررہی ہے۔صادق آباد سے
خبرہے کہ پٹرول کی قلت کے باعث پٹرول پمپ مالکان نے موٹر سائیکلوں میں دو
لٹر سے زائد پٹرول ڈالنے سے انکار کردیا۔لاہور سے خبر ہے کہ جی ٹی روڈ
امامیہ کالونی کے قریب رکاوٹوں کے باعث متبادل راستوں سے جانا پڑا۔ان میں
سے ایک ایمبولنس میں کامونکی کے رہائشی کودل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہسپتال
میں لے جایا جارہا تھا۔راستے رکاوٹیں اور سڑکوں کی بندش اس کی زندگی کی سب
سے بڑی رکاوٹ بن گئی۔کوشش کے باوجود تاخیر کے باعث ساٹھ سالہ مریض راستے
میں ہی دم توڑ گیا۔لاہورمیں اپنی دلہنوں کو لینے کیلیے آنے والے دولہامحمد
شہزاد، عابد علی اور توصیف کوراوی اور سکیاں پل سے لاہور میں داخلے کی
اجازت نہ ملی۔اور وہ اپنی دلہنوں کے بغیر ہی مایوس ہو کر واپس لوٹ گئے۔جب
کہ لاہور سے شیخوپورہ جانے والا دولہا کنٹینر سے نیچے سے گزرکر اجازت ملنے
پر موٹر سائیکل پر اپنی دلہن کو لینے چلا گیا۔جبکہ باراتی مایوس ہوکر اپنے
گھروں کولوٹ گئے۔ملتان سے خبر ہے کہ ٹرانسپورٹروں نے نقصان سے بچنے کے لیے
نصف ٹرانسپورٹ انڈر گراؤنڈ کردی۔جس سے جنرل بس سٹینڈ سمیت دیگرٹرانسپورٹ
اڈے ویران ہوگئے۔
ماڈل ٹاؤن میں ادارہ منہاج القرآن کے اردگرد رکاوٹیں اور کنٹینر کھڑے کرنے
کے خلاف دائر درخواست سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے منہاج القرآن کے
حامی وکلاء سے کہا کہ طاہرالقادری جانی نقصان نہ ہونے کی گارنٹی دیں عدالت
کنٹینر ہٹانے کا حکم دے دے گی۔عدالت عالیہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ
سیکیورٹی دینا پولیس کی ذمہ داری ہے۔عوام کو تنگ نہ کیا جائے۔ملکی صورت حال
خراب ہوئی تو کون ذمہ دار ہوگا۔جسٹس خالد محمد خان نے اپنے ریمارکس میں کہا
کہ منہاج القرآن کے گرد کنٹینر لگاتے یا طاہر القادری کو نظربند کرتے۔مگر
پورا لاہور سیل کردیا گیایہ کیسا قانون ہے جس میں عوام اپنے گھروں میں نہیں
جاسکتے۔مذہبی جماعت کے سربراہ جوکچھ کررہے ہیں کیا قانو ن انہیں اس طرح
کرنے کی اجازت دیتاہے۔آزادی مارچ کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران
عدالت عالیہ نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ تحریک انصاف والے ایک طرف حکومت میں
انجوائے کررہے ہیں دوسری طرف وہ آزادی مارچ کرناچاہتے ہیں اگر ایسا کرنا
چاہتے ہیں تو پہلے اسمبلیوں سے استعفے دیں۔عمران خان الیکشن کو فراڈقرار
دیتے ہیں تو پھرحلف کیوں اٹھایا۔جبکہ اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے کہاکہ تحریک
انصاف والے وقت اور جگہ بتادیں وزیراعظم پہنچ جائیں گے۔
آئیے اب یہ آگاہی حاصل کرتے ہیں کہ حکومتی اور دیگر سیاسی شخصیات ا س سلسلہ
میں کیا کہتی ہیں۔ لاہور میں مسلم لیگ ن کے عہدیداروں اوراراکین اسمبلی کے
وفد سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا کہ یوم آزادی
پر احتجاج کسی طورپر بھی دانش مندانہ نہیں،عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے
ہرقانونی اقدام کریں گے۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور مسلم لیگ ن کے مرکزی
راہنما احسن اقبال نے کہ رکاوٹوں پر قوم سے معذرت ذمہ دار احتجاج کرنے والے
ہیں۔ملک میں امن قائم کرنے کے لیے حفاظتی انتظامات کرنے پرمجبور ہیں۔وفاقی
وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ سیاسی راستے کبھی بند نہیں
ہوتے۔چار افراد کی خواہش کو اٹھارہ کروڑ عوام پرترجیح نہیں دی جاسکتی۔قومی
اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ ملک میں افراتفری نہیں
چاہتے۔موٹر سائیکل پکڑنے سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی۔شیخ رشیدنے کہا
کہ موٹر سائیکل پکڑنے کاسلسلہ جاری رہاتو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔قمر
زمان کائرہ کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت کے بلا جواز ردعمل نے عوامی مشکالت
بڑھا دی ہیں۔وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے اپنے خطاب میں عام انتخابات میں
دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمشن قائم کرنے کا اعلان کرتے
ہوئے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان تین ججوں پر مشتمل تحقیقاتی کمشن قائم
کریں جو تحقیقات کے بعد حتمی رائے دے۔انہوں نے اس کمشن کے بعد احتجاج کو
بلا جواز قرار دے دیا۔جبکہ اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ پہلے نواز
شریف استعفیٰ دیں پھر عدالتی کمشن بیٹھے۔ان کے ہوتے ہوئے آزادانہ تحقیقات
نہیں ہوسکتیں۔اب کوئی بھی اس سلسلہ میں عوام کودرپیش مشکلات کی ذمہ داری
قبول کرنے کو تیار نہیں تمام فریقین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پرڈالتے ہوئے
دکھائی دیتے ہیں۔سوال یہ بھی ہے کیا ان مشکلات کا ازالہ بھی کیا جائے گا۔
اس کا کوئی امکان نہیں۔تمام فریقین کو عوام سے نہیں عوام پرحکومت کرنے سے
غرض ہے۔یہ لانگ اور انقلاب مارچ لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، استحصال،
دہشت گردی اور دیگر عوامی مسائل پر ہوتا تو عوام کے لیے کہا جاسکتاتھا۔اور
حکومت بھی عوام کو بجلی،گیس اور پٹرول کی ہی قیمتوں میں نمایاں ریلیف دے
دیتی تو اس وک بھی اتنے پاپڑ نہ بیلنے پڑتے۔
|
|