جشن آزادی اور ہماری تقسیم درتقسیم کا عمل

صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام نے مئی 2013 ء کے عام انتخابات میں تبدیلی کے نعرہ سے آنیوالی پارٹی کے لوگوں کو اپنے ووٹوں سے اس مقام تک پہنچا دیا کہ تبدیلی آوے ہی آوے کرپشن بدانتظامی اورامن امان کی ابترصورتحال سے ستائے شہریوں نے یہ بہت بڑا اقدم اٹھایا یہی وجہ ہے کہ آج تبدیلی کا نعرہ لگانے والے صوبہ خیبر پختونخوا میں تبدیلی کا آغاز کر چکے ہیں لیکن ان کی تبدیلی کا عمل بہت زیادہ سست ہے انہوں نے صوبے کے لوگوں میں پاکستانیت کا جذبہ بیدار ہی نہیں کیا -زندہ قومیں اپنی آزادی کے دن پر اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتی ہیں اور دنیا کو دکھایا جاتا ہے کہ ہم ہر حال میں ایک ہیں ہمارے آپس کے تعلقات کیسے ہی برے کیوں نہ ہوں ہم کتنی ہی درجہ بندی اور طبقاتی تقسیم رکھتے ہوں لیکن ہم دنیا کے سامنے ایک ہیں اور ایک ہی رہیں گے - بیانات کی حد تک تو بہت کچھ ہوتاہے لیکن عملی طور پر ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آتا نہ ہی حکمران نہ ہی اپوزیشن اس معاملے میں کچھ کرتی ہے، رہی بات عوام کی تو ان کے بارے میں ہر کوئی دعوی کرتا ہے کہ ہمارے ساتھ ہیں لیکن حقیقت میں عوام کس کے ساتھ ہیں اس کا اندازہ آج تک کوئی نہیں لگاسکا-نہ ہی کسی نے ان سے پوچھنے کی ہمت و جرات کی ہے -

68 ویں جشن آزادی کی سب سے بڑی تقریب ملک سعد پولیس لائن پشاور میں منعقد ہوئی جس میں وزیراعلی خیبر پختونخوا مہمان خصوصی تھے صوبے کی سطح پر ہونیوالی اتنی بڑی تقریب ہر سال میونسپل کارپوریشن پشاور ہی منعقد کرتی ہے لیکن اس کے انتظامی معاملات ہر دفعہ بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں کسی زمانے میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تھی تو عوام و خواص کی کرسیوں پر ایک مخصوص پارٹی کے لوگ ہی براجمان نظر آتے تھے یا پھر منظور نظر افسران اور ان کے اہل خانہ و بچے ہی دیکھنے کوملتے یہی صورتحال نئے پاکستان کے دعویداروں کے دو ر میں بھی رہے یکجہتی کیلئے منعقد کی جانیوالی اس تقریب کیلئے باقاعدہ کارڈ جاری کئے جاتے ہیں لیکن یہ کارڈز کس کوجاری کئے جاتے ہیں اور کارڈ جاری ہونے کیلئے اہلیت کیا ہے اس کا اندازہ صحافی ہونے کے باوجود مجھے آج تک نہیں ہوسکا - لیکن ہاں ایک بات تو یقینی ہے کہ یہ کارڈ ان لوگوں کو جاری کئے جاتے ہیں جو جی حضوری اور یس سر کہنے کے عادی ہوں-

تقریب میں عام لوگ دیکھنے کو نہیں ملے شائد اس کی وجہ سیکورٹی کی صورتحال بھی ہو لیکن جو چیز جو سب سے زیادہ دل دکھانے والی تھی وہ یہ تھی کہ جہاں تقریب منعقد ہوئی تھی وہاں پر کرسیوں میں بیٹھے لوگوں سے اندازہ ہوا کہ آج بھی ہم تین طبقات میں تقسیم ہیں جن کی درجہ بندی مالی طاقت اور معاشرے میں پوزیشن /روزگار کی حیثیت سے ہوتی ہے اور اسی پوزیشن کے حامل لوگ ان نشستوں پر بیٹھے ہوئے ملے -جشن آزادی کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں وزیراعلی پرویز خٹک نے ملی نغمہ پیش کرنے والے بچوں کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا خوبصورت کپڑوں میں ملبوس سکول کے بچوں کو خصوصی طور پر ہر سال ملی نغموں اور ترانے کیلئے پولیس لائن میںمنعقدہ تقریب میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے روایت یہ رہی ہے کہ ہر سال پروگرام میں تقریب کے مہمان خصوصی ان بچوں سے گھل مل جاتے ہیں اور ان کیلئے انعام کا اعلان بھی کرتے ہیں تاہم امسال پرویز خٹک نے پروگرام کے بعد بھی ان بچوں سے کوئی بات نہیں کی نہ ہی ان کی حوصلہ افزائی کیلئے ان سے گھلے ملے پروگرام کے دوران پولیس بینڈ کے اہلکار بھی وزیراعلی پرویز خٹک کا انتظار کرتے رہے تاکہ ان سے ملاقات ہو لیکن وزیراعلی پرویز خٹک جو کہ پارٹی رہنمائوں اورحکومتی ارکان کے ساتھ آزادی مارچ میں شرکت کے حوالے سے محو گفتگو تھے نے مکمل طور پر سکول کے بچوں اور پولیس بینڈ کو نظر انداز کردیاجس سے وہ کافی مایوس دکھائی دئیے -

پروگرام میں وزیراعلی خیبر پختونخواپرویز خٹک نے نئے پاکستان اور لوگوں کو حقوق دینے کی با ت توکی جو خوش آئند بھی ہے لیکن یہ نیا پاکستان کہاں پر ہوگا اور کیسے ہوگا اس کی بات تو انہوں نے کی ہی نہیں صوبہ خیبر پختونخوا کے لوگوں نے جس جوش و و جذبے کیساتھ نئے پاکستان کے دعویداروں کو ووٹ دئیے تھے وہ جوش و جذبہ گذشتہ ایک سال میںسرد پڑگیاہے یہ ٹھیک ہے کہ نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں کی حکومت میں دھماکے تو کسی حد تک کم ہوئے ہیں لیکن یہ بھی انہی کا اعزاز ہے کہ انہی کے دور میں بھتہ خوری عروج پر پہنچ گئی ہے اور اب تو باقاعدہ پولیس افسران بھی ملوث پائے جارہے ہیں جن کو برطرف کیا جارہا ہے لیکن کیا ان لوگوں کیلئے برطرفی کی سزاکافی ہے-پورے پاکستان کو نیا پاکستان بنانے والے اگر معاملے میں سنجیدہ ہوں توکم ازکم طبقاتی نظام کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات تو خیبر پختونخواہ میں کریںتاکہ یہاں کے لوگوں کو یقین ہو جائے کہ نئے پاکستان پرکام شروع ہو چکا ہے اور ان میں پائی جانیوالی بے چینی ختم ہوسکے اور صورتحال بہتر ہو- ورنہ دسری صورت میں صورتحال میں عام انتخاب اور پھر حلقہ این اے ون پر ضمنی انتخابات کے نتائج سے اندازہ کرلیں کہ ان کیساتھ کیا ہوگا-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422048 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More