مقصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ
(محبوب عالم --۔۔ قصور, kasur)
محبوب عالم --۔۔ قصور
پروفیسر مقصود حسنی ملکی اور بین الااقوامی سطح پر اپنی الگ سے شناخت رکھتے
ہیں۔ تخلیقی میدان میں ان کی شخصیت کثیرالجہتی ہے۔ یہ ہی صورت تحقیق و
تنقید کے میدان کی ہے۔ نثر ہی نہیں‘ شاعری کے میدان میں بھی نمایاں حیثیت
رکھتے ہیں۔ انہوں نے طالب علمی کے ابتدائی دنوں میں ہی شعر کہنا شروع کر
دیے۔ ان کی ١٩٦٥ کی شاعری دستیاب ہوئی ہے۔ اس وقت وہ جماعت ہشتم کے طالب
علم تھے۔ بطور نمونہ ابتدائی دور کے چند شعر ملاحظہ کریں:
پھوٹا ناسور بن کرزخم جگر
سزا ملی مجھے گناہ کئے بغیر
٢٥ مئی ١٩٦٥
آس کے دیپ جلانے نکلو
جاگ کر اب جگانے نکلو
٢٩ اپریل ١٩٦٦
زخم کھا کر جو زخم کھانے کی رکھے ہوش
انداز اس کے تڑپنے پھڑکنے کا ذرا دیکھ
٣ فروری ١٩٦٧
ہر صدف کی قسمت میں گوہر کہاں
ہزار پرند میں‘ اک شہباز ہوتا ہے
٢٧ جون ١٩٦٨
عریاں پڑی ہے لاش حیا بے گور وکفن
لوگ لیتے ہیں گل‘ گلستاں رہے نہ رہے
٢٥ اکتوبر ١٩٦٩
مولاں کو ہو گی جنت سے محبت زاہد
بار ہا گزریں گے دشت پرخار سے ہم
٥ مارچ ١٩٧٠
١٩٧٠ میں لکھی گئی یہ نظم بھی بطور نمونہ ملاحظہ ہو:
مجھے اب
میں اپنی تلاش میں تھا
گلاب سے انگارے نکلے
خوشبو سے شرارے اٹھے
میرا چہرا‘
کوئی لے گیا
چوڑیاں مجھے دے گیا
چوڑیوں کی کھنک میں
مجھے اب
بےچہرہ جیون
جینا ہے
اس نمونہء کلام سے ان کے فکری اور تخلیقی سفر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ان کے ہاں مجازی عشق و محبت شجر منوعہ سے لگتے ہیں۔ پروفیسر مقصود حسنی کے
والد سید غلام حضور پنجابی صوفی شاعر تھے۔ ان کے دادا سید علی احمد پنجابی
اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔ یہ سلسلہ اس سے پیچھے تک جاتا ہے۔ پروفیسر
موصوف کے پاس اپنے دادا کا کلام مخطوطوں کی شکل میں موجود ہے۔ گویا یہ شوق
انہیں وراثت میں ملا ہے۔ وہ اردو کے علاوہ انگریزی پنجابی اور پوٹھوہاری
میں بھی کہتے رہے ہیں۔
ان کے کلام میں ردعملی کی سی صورت ہر سطح پر غالب رہتی ہے۔ چلتے چلتے
ناصحانہ اور صوفیانہ ٹچ ضرور دے جاتے ہیں۔ ان کے کلام میں سیکڑوں مغربی
مشرقی اسلامی اور ہندی تلمیحات پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہر تلمیح کا بڑا برمحل
استعمال ہوا ہے۔ یہ تلمیحات بین الااقومی تناطر میں استعمال ہوئی ہیں۔
پروفیسر علی حسن چوہان ان کی مغربی تلمیحات پر بھرپور تحقیقی مقالہ بھی
تحریر کر چکے ہیں۔
١٩٩٣ میں ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے بہ عنوان۔۔۔۔۔۔ مقصود حسنی کی شاعری‘ تنقیدی
مطالعہ۔۔۔۔۔۔ شائع کی۔ مقصود حسنی کی شاعری پر مشتمل تین کتب منصہءشہود پر
آ چکی ہیں۔
سپنے اگلے پہر کے نثری ہائیکو
اوٹ سے نثری نظمیں یہ مجموعہ دو بار شائع ہوا۔
سورج کو روک لو نثری غزلیں
کاجل ابھی پھیلا نہیں اشاعت کے مراحل میں ہے۔
اس کے علاوہ بھی ان کا کلام رسائل میں شائع ہوتا رہا ہے۔ ان کا بہت سارا
کلام انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائیٹس پر پڑھنے کو ملتا ہے۔ آمنہ رانی ان کی
نظموں کو ڈازائین کر رہی ہیں۔ جو ان کی شاعری کی پذیرائی میں خوب صورت
اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
مقصود حسنی کی شاعری کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوئے۔
پروفیسر امجد علی شاکر نے۔۔۔۔۔۔ اوٹ سے۔۔۔۔۔۔۔ کی نظموں کو پنجابی روپ دیا۔
بلدیو مرزا نے ان کے ہائیکو کا انگریزی میں ترجمہ کیا‘ جو سکائی لارک میں
شائع ہوا۔
نصرالله صابر مرحوم نے ان کے ہائیکو کا پنجابی میں ترجمہ کیا۔
مہر کاچیلوی مرحوم نے ان کے ہائیکو کا سندھی میں ترجمہ کیا۔
ڈاکٹر اسلم ثاقب مالیر کوٹلہ‘ بھارت نے ان کے ہائیکو کا گرمکھی میں ترجمہ
کیا۔
عالمی رنگ ادب کراچی نے پورا مجموعہ ۔۔۔۔۔۔۔ سپنے اگلے پہر کے۔۔۔۔۔۔۔ کو
شاعر علی شاعر کے مضمون کے ساتھ شائع کیا۔
پروفیسر نیامت علی نے ان کی انگریزی شاعری پر ایم فل سطح کا مقالہ تحریر
کیا۔
اردو ادب کے جن ناقدین نے ان کی شاعری کو خراج تحسین پیش کیا‘ اس کی میسر
تفصیل کچھ یوں ہے
ڈااکٹر آغا سہیل
آآفتاب احمد مشق ایم فل اردو
ڈاکٹر ابو سعید نور الدین
احمد ریاض نسیم
ڈاکٹر اسلم ثاقب
اسلم طاہر
ڈاکٹر احمد رفیع ندیم
احمد ندیم قاسمی
ڈاکٹر اختر شمار
ڈاکٹر اسعد گیلانی
اسماعیل اعجاز
اشرف پال
اطہر ناسک
اکبر کاظمی
پروفیسر اکرام ہوشیار پوری
ایاز قیصر
ڈاکٹر بیدل حیدری
پروفیسر تاج پیامی
تنویر عباسی
جمشید مسرور
ڈاکٹر ہومیو ریاض انجم
خواجہ غضنفر ندیم
ڈاکٹر فرمان فتح پوری
ڈاکٹر صابر آفاقی
ڈاکٹر صادق جنجوعہ
صفدر حسین برق
ضیغم رضوی
طفیل ابن گل
ڈاکٹر ظہور احمد چودھری
عباس تابش
ڈاکٹر عبدالله قاضی
علی اکبر گیلانی
پروفیسر علی حسن چوہان
ڈاکٹر عطاالرحمن
فیصل فارانی
کفیل احمد
ڈاکٹر گوہر نوشاہی
ڈاکٹر مبارک احمد
محبوب عالم
مشیر کاظمی
ڈاکٹر محمد امین
پرفیسر محمد رضا مدنی
مہر افروز کاٹھیاواڑی
مہر کاچیلوی
ڈاکٹر منیرالدین احمد
پروفیسر نیامت علی
ندیم شعیب
ڈاکٹر وزیر آغا
ڈاکٹر وفا راشدی
ڈاکٹر وقار احمد رضوی
وی بی جی
یوسف عالمگیرین
پروفیسر یونس حسن
ان ناقدین نے متوازن انداز میں حسنی کی شاعری پر اظہار خیال کیا ہے۔ ان
حضرات گرامی کےعلاوہ محمد اسلم طاہر نے مقصود حسنی کی شخضیت ادبی خدمات کے
عنوان سے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم فل کا مقلہ تحریر کیا جس
میں ان کی شاعری کے متعلق باب موجود ہے۔ راقم کے ایم فل کے مقالہ۔۔۔۔۔۔
قصور کی علمی و ادبی روایت۔۔۔۔۔۔ میں حسنی کی شاعری پر رائے موجود ہے۔ ۔
ان کی شاعری پر چند اہل قلم کی آراء ملاحظہ ہوں:
جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب
آپ کا یہ کلام پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ جینویں کسی نے آکر دستک دینڑ
کے بجائے کُسھن ماریا ،وجا جا کے ٹھا کرکے بڑا ای سواد آیا ، کیا ای بات ہے
ہماری طرف سے ایس سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض یاب فرمانڑ کے واسطے
چوہلیاں پرھ پرھ داد پیش ہےگی
تواڈا چاہنے والا 1
اسماعیل اعجاز
ڈاکٹر بیدل حیدری کا کہنا ہے:
مقصود حسنی کی نثری غزلیں موضوع کے اعتبار سے کتنی اچھوتی ہیں‘ لہجے کی کاٹ
اور طنز کی گہرائی کا کیا معیار ہے‘ قاری کیا محسوس کرتا ہے‘ استعارے اور
علامتیں کتنے خوب صورت انداز میں آئی ہیں۔ مستقبل میں اتنی فرصت کسے ہو گی
کہ فرسودہ طویل غزلوں اور نظموں کو پڑھے۔ اگلی صدی تو مقصود حسنی جیسے
مختصر اور پراثر شعر گو کی صدی ہے۔
........................
ڈاکٹر عطاءالرحمن بھی اسی مجموعے پر یوں رقم طراز ہیں:
ان کی سبھی نظمیں خوب صورت ہیں جن کے بھنور میں کھو کر انسان اپنے اردگرد
کے ماحول سے بےخبر ہو جاتا ہے لیکن قتل‘ ہم کب آزاد ہیں‘ آسمان نکھر گیا
ہے‘ میں نے دیکھا۔۔۔۔ خوب ترین نظمیں ہیں جن میں انسانی درندگی‘فرعونیت‘
ظلم و جبر‘ استبدادیت‘ بےبسی و بچارگی‘ آہیں اور سسکیاں غرض اک آتش فشاں
پنہاں ہے جو اگر پھٹتا ہے تو اس کا لاوا راہ میں مزاحم ہر شے کو جلا کر
خاکستر کر ڈالتا ہے۔
.............................
ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔۔۔۔اوٹ سے۔۔۔۔ پراپنی رائے کچھ یوں دیتے ہیں:
یوں تو اس مجموعے کی ساری نظمیں خوب نہیں‘ خوب تر ہیں لیکن ۔۔۔۔ وہ لفظ
کہاں اور کدھر ہے‘ سورج دوزخی ہو گیا تھا‘ فیکٹری کا دھواں‘ ہم کب آزاد
ہیں‘ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ کاش یہ نظمیں باشعور قارئین تک پہنچیں اور ان
میں دہکتے ہوئے خواب شرمندہءتعبیر ہوں۔
.............................
واہ... ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ہمارے معاشرے کے اس نوحے کو بہت عمدگی سے بیان
کیا ہے
باپ کی بے حسی اور
جنسی تسکین کا بین
بہت کم الفاظ میں آپ نے اشارہ دیا ہے کہ قصور صرف معاشرے یا اربابِ اختیار
کا نہیں ہے بلکہ اس جرم میں وہ لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جو اپنے وسائل کو
دیکھے بنأ ہی اپنی نفسانی خواہشات کا گھوڑا سرپٹ سرپٹ دوڑائے چلے جاتے ہیں
اور ساتھ میں اپنی (مذہبی) جاہلیت کی وجہ سے بچوں کی ایک قطار کھڑی کر دیتے
ہیں- 2
فیصل فارانی
.................................
جناب مقصود حسنی صاحب سلام مسنون
واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ آپ نے چہرہ کو گرد سے صاف کرنے کو کہا
ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے کی
نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ ہمارا
اصلی اور بے مثالی چہرہ سامنے ائے۔ 3
طالب دعا
کفیل احمد
......................................
مُحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! اسلام علیکم
آپ کی نظموں پر آج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے اِنھیں بُہت ہی فِکر انگیز
اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں بُہت پسند آئی ہے۔ اگرچہ ہم آپ کے
عِلم کے مُقابلے میں شائید اِسے اُن معنوں تک سمجھ نہ پائے ہوں۔ جہاں تک ہم
سمجھے ہیں آپ اِس میں اِنسان سے مُخاطِب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اِنسان
صرف قُدرت کی عطا کی ہوئی چیزوں سے کُچھ حاصل کرتا ہے۔ اگر اِس سے سب کُچھ
چھین لیا جائے تو اِنسان کے اپنے پاس کُچھ بھی نہیں، فقط مٹی کا ڈھیر ہے۔
اِنسان کو قُدرت کی تراشی چیزیں بُہت کُچھ دیتی ہیں، لیکن اِنسان اِن
مخلوقات کو کُچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ جبرائیل والی بات ہم سمجھ نہیں سکے
ہیں اور اپنی کم عِلمی پر نادم ہیں۔
اگر ہم سمجھنے میں کُلی یا جُزوی طور پر غلط ہوں تو مہربانی فرما کر اِس
ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے گا۔ ہمارا عِلم و ادراک فقط اِتنا ہی ہے، جِس
پر ہم مجبور ہیں اور شرمسار بھی۔ 4
طالبِ دُعا
وی بی جی
درج بالا آرء کے تناظر میں برملا کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر مقصود حسنی کی
شاعری ناصرف اپنا الگ سے مقام رکھتی ہے بلکہ اپنے عہد کے سماجی‘ معاشی اور
سیاسی حالات کی منہ بولتی گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔ صوفی مزاج ہونے کے سبب
ایک مثالی معاشرت کی ہر موڑ پر خواہش نمایاں نظر آتی ہے۔ |
|