میں نے بچپن میں ایک کہانی سنی تھی . دو بھائی تھے ان کو
وراثت میں تین چیزیں ملیں تھیں ایک گائے جو دودھ دیتی تھی دوسرا کمبل ، اور
تسرا کھجور کا درخت جس پر پھل لگا تھا ، اب تین چیزوں کی تقسیم کا مرحلہ
تھا جسے بڑے بھائی نے چالاکی کے ساتھ حل کیا ، تین چیزیں ھیں اور حصے دو
ھونے ھیں لہذا برابر ھی تینوں تقسیم ھونگی لیکن جس طرح سے تقسیم ھوئیں اس
کا حال سنیئے – گائے جو دودھ دیتی ھے اس کا اگلا منہ والا حصہ چھوٹا بھائی
لے گا اور پیچھے والا حصہ جہاں سے دودھ دوہیا جاتا ھے وہ بڑا بھائی لے گا –
کمبل کی تقسیم اس طرح کی گئی کہ رات کو بڑا بھائی کا ھوگا اور دن نکلتے ھی
چھوٹا بھائی لے لے گا – درخت بھی اسی طرح اور والا آدھا حصہ جس پر پھل لگتے
ھیں وہ بڑا بھائی لے گا اور نیچے کا پورا آدھا حصہ چھوٹا بھائی لے گا ،
بظاہر یہ برابر کے حصے تھے اور چھوٹے بھائی نے قبول بھی کر لیا کیونکہ وہ
اتنا شعور نھیں رکھتا تھا یا یوں کہیں کہ بھولا تھا – پھر باری آئی اپنے
اپنے حصے کو استعمال کرنے کی دن بھر چھوٹے بھائی نے گائے کی خدمت کی اس کو
چارہ پانی فراہم کیا جب دودھ دوہنے کے لئے بڑا بھائی بیٹھا تو دودھ صرف
اکیلے خود ھی پی لیا چھوٹے بھائی نے جواب طلب کیا تو بڑے بھائی نے کہا کہ
میں نے تو پہلے ھی کہا تھا اگلا حصہ تمہارا ھے تم بھی مان گئے تھے لہزا اب
دودھ پر صرٍ ف میرا حق ھے کیونکہ یہ پچھلے حصے سے دوہا گیا ھے ، اسی طرح
پھر کھجور کے پھل کی باری آئی درخت کو پانی تو چھوٹا بھائی دیتا رہا اور
پھل صرف بڑے بھائی کے حصے میں آیا کیونکہ تقسیم ھی ایسے کی گیئ تھی ، پھر
کمبل کا حال سنیئے رات کو بڑے بھائی کی باری تھی رات بھر وہ آرام سے لے کر
سویا چھوٹا بھائی سردی میں ٹھٹھرتا رہا دن ھوتے ھی چھوٹے بھائی کو دے دیا
جبکہ دن کو اسے کام کے لئے جانا تھا کمبل کی ضرورت نھیں تھی اور سردی بھی
نا ھونے کے برابر تھی -
اگلے دن چھوٹے بھائی کو عقل آگئی یا کسی نے دلوائی اس نے بڑے بھائی کو سبق
سکھانے کی ٹھانی ۔ جب وہ دودھ دوھنے بیٹھا تو اس نے گائے کو منہ کی طرف ایک
لاٹھی سے مارنا شروع کر دیا – گائے نے چھلانگے لگانی شروع کر دی جس کی وجہ
سے وہ دودھ نا دھو سکتا تھا بڑے بھائی نے منع کیا تو اس نے کہا یہ میرا حصہ
ھے میری مرضی چاھے جس طرح کروں تم بس اپنے حصے کے بارے میں سوچو – کمبل کا
حال بھی ایسا ھی کیا دن ھوتے ھی کمبل کو پانی بھی بھگو کر رکھ دیا رات کو
بڑے بھائی نے اوڑھنے کے لئے آٹھایا تو بھگا ھوا تھا جب بھائی سے پوچھا تو
اس نے جواب دیا دن کو یہ کمبل میرا ھوتا ھے میری مرضی میں جسے کروں ، اور
کھجور کے پھل بھی جب توڑنے کے لئے بڑا بھائی درخت پر چڑھنے لگا تو چھوٹے
بھائی زور زور سے تنے کو ہلانا شروع کر دیا پوچھنے پر وھی جواب دیا نچلا
حصہ میرا ھے میری مرضی میں جیسے کروں –
اب بڑے بھائی کو نصیحت آئی اس نے توبہ کی اور چھوٹے بھائی سے معافی مانگی
اور اب برابری کی بنیاد پر چیزیں استعمال ھونے لگیں دودھ بھی برابر حصے میں
تقسیم ھوتا اور گائے کے لئے گھاس بھی دونوں بھائی مل کر کاٹتے اور کمبل بھی
رات کو اکٹھے مل کر لیتے دونوں بھائی ایک ساتھ سوتے ، درخت کے پھل بھی مل
کر کھاتے اور پانی بھی مل کر دیتے ۔
اس کہانی کو سنانے کا مقصد یہ ھے کی کہانی کا پہلا حصہ ھماری حالت سے ملتا
ھے یعنی پاکستانی عوام کی حالت ھمیں اس طرح سے بیوقوف بنایا جاتا ھے یا ھم
خود جان بوجھ کر بنتے ھیں ھماری محنت کی کمائی یہ حکمران اپنا حق سمجھ کر
استعمال کرتے ھیں ھمارے دیئے گئے ٹیکسوں سے اپنی جائداد بناتے ھیں غیر ملکی
قرضے لیتے ھیں جو ھمارا ایک ایک فرد مہنگائی کی صورت میں ادا کرتا ھے
حکمران طبقہ امیر سے امیر تر ھوتا جاتا ھے اور ھم غریب سے غریب تر ھوتے
جاتے ھیں ھمیں ملک کی غربت کا رونا رو کر چپ کرا دیا جاتا ھے – ملکی وسائل
کی کمی کی گردان الاپی جاتی ھے جو ھم مان لیتے ھیں جب کہ کسی حکومتی اہلکار
کو سادگی کی طرف مائل نھیں دیکھا گیا ، سب عیش سے مزے کر رھے ھیں نا لوڈ
شیڈنگ کی تکلیف نا مہنگائی کا رونا نا ٹیکس دینے کا کوئی جھنجھٹ کیونکہ
حکومت میں آنے کے بعد کوئی ٹیکس دیتا ھی نھیں ھم لوگ بسوں ویگنوں کے
کرایئوں کو روتے ھیں زیادہ ھیں ایم این اے ، ایم پی اے بڑی بڑی سکاری
گاڑیوں میں گھومتے ھیں ، غیر ضروری محکموں اور وذیروں کی لائینیں لگا کر
عوام کے پیسوں سے ان کو مراعات دی جاتی ھیں غیر ملکی مفت سفر کی سہولیات
مہنگے سے منہگا علاج سکاری خرچ پر ھوتا ھے اس کے علاوہ تفریح کا سامان غرض
غیر ضروری کام بغیر مقصد کے کئے جاتے ھیں ۔
عوام کو صرف خسارہ ھی خسارہ یا پھر ؤرلڈ بنک کے قرض یا آئی ایم ایف کی قرض
کی یاد دلا دلا کر مایوسی و اضطراب میں مبتلا کیا جاتا ھے اور ھم آسانی سے
مان لیتے ھیں چپ سادھ لیتے ھیں یہ سوال نھیں کرتے کہ ان سب حالات میں تم
میں کیا بدلاؤ آیا کیا مراعات ملک کو واپس کی ھیں یا اپنی دولت جو اسی ملک
سے ھی لوٹ مار کر کے بنائی تھی وہ غیر ملک میں کیوں رکھی ھے اب جب تم ملک
سے لوٹ کر امیر ترین ھو ھی گئے ھو تو پھر کچھ تو احسان مانو اس ملک کا اس
عوام ، ادھر کے پیسے ادھر ھی خرچ کرو جو اس ملک اور اس عوام کی بھلائی پر
خرچ کرو ، مگر حکومت کے لوگ ھم عوام کی طرح بھولے نھیں ھیں کی مانگے بغیر
ھمیں ھمارا حق دیں عوام کو تو اپنی طاقت کا اپنے حق کا ادراک نا ھو – اور
کوئی اور آکر تھالی میں رکھ کر ھمیں ھمارا حق دے جائے یہ نامکن بات ھے ۔ |