اسرائیل سے یہودیوں کا کثرت انخلاء
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
تاریخ کا پہیہ جب الٹا چلانے کی کوشش کی جائے تواس کے بڑے بھیانک نتائج
برآمد ہوتے ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ قدرت اپنے انتظام سے اس دنیاکوچلاتی ہے۔اس
انتظام میں قدرت والے نے انسان کی حدود کار کو متعین کر چھوڑا ہے ،لیکن جب
حضرت انسان اپنی مصنوعی کاوشوں سے مخلوق کی بجائے خالق کا کرداراداکرنے کے
لیے فرعون بن بیٹھتاہے اورقدرت کے انتظامات میں دخیل ہوتاہے توبرآمدہونے
والے نتائج کو سمیٹنااس کے بس میں نہیں رہتا اور ایک طبقے کے غلط فیصلوں کے
باعث آنے والی نسلیں ایک عرصے تک مصائب و آلام اوربدامنی و بے چینی کا شکار
رہتی ہیں۔اسرائیل کی ریاست کا تجربہ اسی قبیل سے تعلق رکھتاہے۔جس قوم کو اس
کی بداعمالیوں اور ناشکریوں کی پاداش میں منصب امامت سے برخواست
کردیاگیاتھا،دنیاکے چند’’انسانیت کے ٹھیکیدار سیکولر‘‘شریروں نے اسے پھر
قیادت کی باگ دوڑ تھمادی،جس کے نتائج آج پوری دنیاکولے ڈوبے ہیں۔فلسطین
والے تو محض اپنی جانوں اور عمارتوں وغیرہ کاہی جرمانہ اداکررہے ہیں اگرچہ
و ہ بھی بہت بھاری قیمت ہے لیکن پوری دنیاپریہودیوں کے سرمایادارانہ نظام
نے سوداور کساد بازاری ومہنگائی کی جو لعنت مسلط کررکھی ہے اوراس کے نتیجے
میں عریانی،فحاشی،ننگ وبے حیائی اور خودغرضی و سفاکی اور بین الاقوامی
کھنچاؤکی جو عالمی لہرنے تباہی مچا رکھی ہے وہ اس کے سوا ہے۔
اسرائیل نے غزہ سمیت پورے فلسطین میں قتل وغارت گری اورتباہی و بربادی کی
جواندھی مچارکھی ہے اس کے نتیجے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فلسطینی اپنا
وطن چھوڑ کر ہجرت کر جاتے لیکن اس کے برعکس تاریخ کے پہیے کی الٹی حرکت سے
نتائج بھی الٹے مرتب ہو رہے ہیں اور اسرائیل کی ریاست سے یہودیوں کا بہت
زیادہ کثرت سے انخلاء جاری ہے۔یہودیوں کے ہاں اسرائیل کوچھوڑنے کے لیے ’’یریداہ(yeridah)‘‘کی
اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اسرائیل کی شہریت
اختیارکرنے کے لیے ’’عالیاہ(Aliyah)‘‘کی اصطلاح رائج ہے۔یہ دونوں عبرانی
زبان کے الفاظ ہیں اور توریت اور طالمود،یہودیوں کی فقہ،کی کتب میں بکثرت
استعمال ہوئے ہیں۔یہودی کتب میں فلسطین کو بلند مقام کہاگیاہے چنانچہ ’’عالیاہ‘‘کا
مطلب بلندی کی طرف چڑھناہے اور ’’یریداہ‘‘کا مطلب بلندی سے اترناہے۔صہیونیت
میں ’’یریداہ‘‘کی مذمت کی جاتی ہے اوراس کو مذہبی لحاظ سے ایک مکروہ فعل
گردانا جاتاہے۔اسرائیل نے اس مقصد کے لیے باقائدہ قانون سازی کررکھی ہے
اور’’ہالاخاہ‘‘نامی قانون شہریوں کے اسرائیل سے نکلنے میں مذاحم ہے۔اس سب
کے باوجود مصنوعی طور پر آباد کیے گئے یہودی غیرملکیوں کواسرائیل سے نکلنے
سے کوئی نہ روک سکا،اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعداددن بدن بڑھتی ہی چلی
جارہی ہے۔صہیونی قیادت جوسہانے خواب اور سبزباغ دکھاکر یہودیوں کو پوری
دنیاسے سمیٹ کر اسرائیل میں کھینچ لائی تھی،اسرائیلی افواج کے ظلم و ستم
اوروحشت و درندگی نے ان سہانے خوابوں کوشرمندہ تعبیر نہیں ہونے
دیااورہزاروں سال زندہ رہنے کے حریص،سونے ،چاندی اور دھن دولت کے پجاری آئے
دن کی گھن گھرج سے تنگ آکر اب یہ مقدس سرزمین اسرائیل چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
انسانیت دشمن سیکولرازم کی سازشوں کے نتیجے میں1948ء میں قائم ہونے والی
اسرائیلی ریاست 1951ء تک کے مختصر ترین عرصے میں کم و بیش سات لاکھ
غیرملکیوں کواپنی شہریت دے چکی تھی۔اسرائیل کے حالات دیکھ کر 10%لوگ
توفوراََہی واپس چلے گئے اور1953ء سے عالمی مہم جوئی کے باوجود غیرملکی
یہودیوں کی آمد کلیۃ بند ہو گئی۔گویاچند سالوں میں ہی اس ذہین و فتنین و
فتنہ پرورقوم نے اپنی مذہبی ریاست کا مخدوش مستقبل بنظرغائر بھانپ
لیا۔ابتداََتو لو گ تعلیم،روزگار،علاج اور سیروسیاحت کے بہانے نکل جاتے
اوراسرائیل کی شہریت ترک کر کے تو دوسرے ملکوں کی قومیت اپنا لیتے لیکن
1970ء کی دہائی میں یہ تعداد بہت زیادہ ہو گئی اور یہودی اپنی ہی حکومت و
ریاست پر بے پناہ تنقید کرتے اورملک چھوڑ کر فرار ہوجاتے۔1980ء تک یہ
تعداداتنی زیادہ ہو گئی کہ اسرائیلی نائب وزیراعظم سمہاایرک( Simha Erlich)
اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ شموئل لاحس(Shmuel Lahis)نے مل کر
تحقیقات کا آغاز کیاجس کے نتیجے میں ’’لاحس رپورٹ‘‘کے مطابق صرف امریکہ میں
ہجرت کر جانے والے اسرائیلی یہودیوں کی تعدادتین سے پانچ لاکھ کے درمیان
تھی اور وہ زیادہ تر نیویارک اور لاس اینجلس میں مقیم تھے۔1982ء کی اسرائیل
لبنان جنگ اور1983کے اسرائلی بنک اور اسرائیلی اسٹاک ایکسچینج کے بدترین
بحران نے یہودیوں کے انخلاء میں مہمیزکاکام کیااور درپردہ اسرائیلی حکومت
اور اسرائیلی سیاستدان اس پر کئی بار سرجوڑکر بیٹھے اور پورازورلگایا کہ
دنیاکو اس بات کا اندازہ نہ ہواوراگر یہ حالات اسرائیل سے نکل بھی پائیں تو
صحیح تعداد پتہ نہ چل پائے۔اس ر ازکا بھانڈہ اس وقت پھوٹا جب اسرائیلی ماہر
آبادیات(demographer)’’پائینی ہرمن‘‘نے ایک انٹرویومیں انکشاف کیاکہ
اسرائیل سے یہودیوں کے انخلاء کی جوتعدادحکومت بتارہی ہے حقیقت اس سے کہیں
زیادہ ہے۔2003ء میں اسرائیلی وزارت نوآبادیات نے ساڑھے سات لاکھ اسرائیلوں
کی تعداد بتائی جو ملک چھوڑ کرامریکہ اور کینیڈامیں آباد ہوچکے تھے،یہ
تعداد اسرائیل کی کل آبادی کا12.5%بنتی ہے۔پانچ سال کے مختصرعرصہ بعد2008ء
میں اسی وزارت نے مزیدسات لاکھ اسرائیلوں کے انخلاء کی تصدیق کی جن میں سے
ساڑھے چارلاکھ برطانیہ میں اور باقی ماندہ یورپ کے دیگر ملکوں میں جابسے
ہیں۔2012ء میں عالمی ادارہ ( Pew Research Center )نے مذہبی مہاجرین کے ذیل
میں بتایا کہ اس وقت تین لاکھ تیس ہزار سے زائداسرائیل میں پیداہونے والے
یہودی شہری اپنے ملک سے باہر آباد ہیں۔لاس اینجلس کے یہودی سفارت کار’’ڈینے
گیبٹ(Danny Gadot)نے بتایاہے کہ اس وقت چھ سے ساڑھے سات لاکھ کی تعدادمیں
اسرائیلی یہودی یہاں پر مقیم ہیں۔یہ اعدادوشمارتو حکومت یاسرکاری اداروں کے
فراہم کردہ ہیں،اصل تعداد اس سے کتنی زیادہ ہوگی اس کا اندازہ بآسانی کیا
جاسکتاہے۔
اسرائیل کے ادارہ شماریات( Israel Central Bureau of Statistics )کے
مطابق1990ء اور 2005ء کے درمیان اسرائیل سے ترک وطن کرنے والے شہریوں کی
اوسط تعداد چودہ ہزار سالانہ ہے۔یہ سرکاری اعداوشمار ہیں اور حقیقت اس سے
کہیں زیادہ ہے۔2009کے اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق اسرائیل میں شہریت حاصل
کرنے والوں کی تعد ادبہت کم ہے اوراس کے مقابلے میں وہاں سے نقل مکانی کرنے
والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ
اسرائیل سے نقل مکانی کرنے والوں کی صحیح تعدادکا تعین بے حد مشکل امر
ہے،متعدد اسرائیلی دوسرے ملکوں کی شہریت حاصل کر کے توواپس آجاتے ہیں
اورپھر آتے جاتے رہتے ہیں اور اسرائیلی پولیس کے لیے ان کا ریکارڈ
رکھناناممکن ہو جاتاہے۔ایک رپورٹ کے مطابق دنیاکی کل پندہ فیصد یہودی آبادی
اسرائیل میں مقیم ہے،اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اسرائیل کی ریاست
85%یہودیوں کی عملی حمایت سے محروم ہے،جبکہ تصویر کا دوسرارخ یہ ہے کہ
اسرائیلی ریاست کے دروازے بلاامتیازرنگ وزبان وثقافت کل دنیا کے کل یہودیوں
کے لیے غیرمشروط طورپرکھلے ہیں۔اسرائیل کے ٹی وی چینل ٹونے اپنی نشریات کے
دوران دکھایا کہ ان کے نمائندے نے ایک کینیڈین یہودی سے پوچھاکہ تم اسرائیل
کیوں چھوڑ آئے ہوتواس نے کہاکہ یہاں کینیڈاکی زندگی بہت پرسکون ہے۔ایک
اسرائیلی اخبارکے مطابق سابق روسی ریاستوں کے بے شمار یہودی اپنے سابقہ
ملکوں میں واپس سدھار چکے ہیں۔
ہولوکاسٹ کے بعدقریب تھاکہ یہودیوں کی نسل ہی کرہ ارض سے نابود ہوجاتی لیکن
چونکہ ناشکری،بدعہدی اور ناحق قتل انبیاء علیھم السلام کی عبرت کا یہ نشان
تاقیامت باقی رہنا ہے اس لیے مشیت ایزدی نے ایڈولف ہٹلرکے دل میں یہ بات
ڈال دی کہ اس نے چند یہودیوں کو زندہ رہنے دیااور ان کی نسل باقی رکھنے کے
لیے ایک عارضی ریاست بھی قدرت خداوندی نے دے دی ۔ بیساکھیوں کے سہارے یہ
ریاست اب بڑی سرعت سے اپنے انجام بدتک پہنچنے والی ہے اور غزہ کی حالیہ کی
بربادی کے بعد تو نقیب قدرت نے اس ریاست کے عدم کا بگل گویا بجادیاہے۔جس
رفتار سے یہودی اسرائیل کی ریاست سے نقل مکانی کررہے ہیں قریب ہے کہ غزہ کے
مسلمان پیدل چل کرہی اس ریاست کی غصب کردہ زمین پر قبضہ کر لیں۔اس حقیقت کو
محض خوش فہمی نہ سمجھاجائے کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ جنوبی اسرائیل ریاست کے
وہ حصے جو غزہ کے جوار میں واقع ہیں سات سے چالیس کلومیٹر تک یہودیوی
آبادیوں سے خالی ہو چکے ہیں اور وہاں سے بھاگ جانے یہودیوں کی تعداد کا
اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ تقریباََدولاکھ یہودی بچے آج کل
تعلیم سے محروم گھروں میں بیٹھے ہیں اورغزہ کے نہتے مسلمانوں کے خوف نے
انہیں اپنے ہی ملک میں بے گھرکررکھاہے۔اسرائیل کی یہ بہت بڑی آبادی
اسرائیلی جارح افواج کی حالیہ مہم جوئی کے بعد غزہ کے مسلمانوں کے جواب کی
منتظر رہے گی ،امن کی ضمانت کے بعد یہ لوگ اسرائیل کے جنوب میں اپنے مکانات
میں منتقل ہوپائیں گے۔اﷲتعالی نے جس قوم پر ذلت و مسکنت مسلط کررکھی ہے
،عرب کے شیوخ اور مسلمان ممالک کے جرنیل انہیں کتنی ہی عزت و احترام سے
نواز لیں،امت مسلمہ پھر بھی تائدایزدی سے اس قوم پرخدائی فیصلہ مسلط کر کے
ہی رہے گی،انشاء اﷲ تعالی۔ |
|