یوم آزادی کیلئے لکھی خصوصی
تحریر
یہ بات درست ہے کہ پاکستان کا قیام دو قومی نظریہ کے تحت آیا تھا۔تاہم قیام
ِپاکستان کے بعد سے یہ ابھی تک طے نہیں ہوسکا کہ پاکستان ، ایک اسلامی
مملکت بنے گی ، سیکولر یا پھر قائد اعظم کے افکار کے مطابق ایک ایسی فلاحی
مملکت جس میں تمام مذاہب کا برابر کا حصہ ہو۔ ا ہمیں آج تک یہی پڑھایا جاتا
رہا ہے کہ قیام پاکستان ، ہندومتعصب انتہا پسند ذہینت کے سبب ، ہندوستان کے
مسلمانوں کیلئے ضروری ہوگیا تھا۔ ایک معاشرے میں رہنے کے باوجود ، مسلمانوں
اور ہندؤوں کا رہن سہن ، زبان اور ثقافت بدل چکے تھے ، مسلم لیگ کا نعرہ
یہی تھا کہ" مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ"۔
دوقومی نظریہ پر ایک وضاحت کا ذکر قابل توجہ ہے کہ سینکڑوں سالوں سے ہندو
مسلم ، ہندوستان میں مل جل کر رہتے آرہے تھے اور مسلم حکمران اقلیت میں
ہونے کے باوجود اکثریتی ہندوؤں پر سینکڑوں سال تک حکمران رہے۔کسی بھی مذہب
کا فرد اپنے مذہب یا دین کو کسی عددی اکثریت کی وجہ سے چھوڑنے کو تیار نہیں
تھا اور بزور طاقت یا تلوار کے ذریعے اگر اسلام پھیلایا جاتا تو شاہد
ہندوستان میں ایک ہندو بھی سلامت نہیں رہتا،دو قومی نظریہ دراصل سر سید
احمد خان کی تعلیمی تحریک اور 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد وجود میں آیا اور
پھر اقبال نے ایک ایسی مملکت کا تصور دیا جس میں مسلمان اپنے روایات کے
مطابق آزادی سے عدم تشدد و ہنگامہ آرائی سے دور زندگی بسر کرسکیں اور دیگر
مذاہب کا احترام اسلام کی روح کے مطابق کریں۔
قائد اعظم نے ان کے تصورات کو عملی جامہ پہنایا اور تحریک پاکستان کی اس
بنیاد میں، دو قومی نظرئیے کے تحت ہندوستان کے بٹوارے کو قبول کیا۔دوقومی
نظرئیے کو عام مسلمانوں اور ہندؤوں میں اس طرح متعارف کرایا گیا کہ متحدہ
ہندوستان میں دوقومیں آباد ہیں ، ایک ہندو اور دوسری مسلمان، دونوں کی
تہذیب ، ثقافت،رہن سہن اور طرز معاشرت ایک دوسرے سے جداگانہ اور الگ ہیں۔اس
لئے مسلمان اپنی مقابلے میں ہندوؤں کی عددی اکثریت کے ماتحت زندگی نہیں
گذار سکتے۔جہاں ان کے معاشی ، اقتصادی ، تہذیبی ، ثقافتی اورخصوصاً مذہبی
حقوق و مفادات کو خطرہ لاحق ہونگے ، لہذا ان وجوہات کی بنا ء پر دو قومی
نظریہ پروان چڑھا اور اسی نظرئیے کے تحت دس کروڑ مسلمانوں کیلئے پاکستان کا
قیام امن میں لایا گیا۔
لیکن اس کے بعد اس نظرئیے کا کیا حشر کیا گیا کہ دو قومی نظرئیے کے تحت
بننے والے ملک میں مہاجرین کی آمد پر پابندی عائد کردی گئی اور 1951ء میں
پاکستان کی سرحدوں کو بھارت سے لٹے پھٹے اور قربانی دینے والوں مہاجرین
کیلئے آمد کے راستے بند کردئیے۔ کوئی بھی یہ کسی طور ثابت نہیں کرسکتا کہ
پاکستان صرف پنجاب ، سرحد ، بلوچستان ، بنگال اور سندھ کی عوام کیلئے بنایا
جارہا تھا ، کیونکہ برصغیر پاک و ہند میں صرف ایک ہی نعرہ تھا کہ پاکستان
کا مطلب کیا ، لا الہ الا اﷲ ، ۔
تحریک پاکستان میں سرکردہ اور قربانی دینے والے علاقے پاکستان کے مسلم
اکثریتی صوبے کے بجائے اقلیتی صوبے تھے ، تمام تر فسادات ، تکالیف اور جان
و مال کی قربانی ہندوؤں اور سکھوں کی جانب سے اُن مسلمانوں کیلئے تھی جنھوں
نے دو قومی نظرئیے کیلئے آواز بلند کی اور جب پاکستان کا قیام عمل میں آگیا
تو پھر دو قومی نظرئیے کے پرچارکوں نے ان ہی لوگوں کو اُن خونی ہندوبھیڑوں
کے آگے جھونک دیا ، جن کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح نے جد وجہد کی اور ان
کی ایک آواز پر لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان کیلئے قربانیاں دیں اور ہندو ؍سکھ
انتہا پسندوں کے ہاتھوں اپنے گھر بار کو چھوڑ کر اپنی عزت و آبرو کی قیامت
برداشت کرتے ہوئے اُس پاکستان کی جانب روانہ ہوئے جو دو قومی نظرئیے کے تحت
بنایا گیا تھا ، لیکن ان پر 1951ء میں پاکستان کے دروازے بند کردئیے گئے
اور بھارتی مسلمانوں کو آج تک کہا جاتا ہے کہ تم لوگوں نے تو اپنے لئے ملک
حاصل کرلیا تھا تو اب ہندوستان میں کیا کر رہے ہو ؟ اور پاکستان کے نام
نہاد قوم پرست کہتے ہیں کہ واپس بھارت چلے جاؤ ، ہمیں تمھارا وجود برداشت
نہیں۔،
میرے نزدیک دوقومی نظریہ اُسی روز دفن ہوگیا تھا جب 1951میں ہندوستان کے
مسلمانوں کیلئے آزاد پاکستان کے دروازے تعصب و لسانیت اور صوبائیت کے بنیاد
پر بند کردئیے گئے تھے۔اگر برصغیر کے مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنا ہی تھا
تو پھر دو قومی نظریہ کا نعرہ ان صوبوں کیلئے تو نہیں ہوسکتا جہاں پہلے ہی
مسلمانوں کی اکثریت تھی ، یہ یقینی ہے کہ دو قومی نظریہ ان مسلمانوں کیلئے
تھا جو ہندؤوں کے ظلم و ستم کا شکار بنتے اور انھیں مذہبی و معاشرتی آزادی
حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ، جیسے آج کے انڈین مسلمان ،
تیسرے درجے کے شہری بن چکے ہیں اور اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔تحریک
پاکستان کیلئے مشرقی پاکستان کے مسلمانوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں ،
لیکن ان کے ساتھ اقلیت مغربی پاکستان کا سلوک اس قدر افسوس ناک تھا کہ
اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود انھیں 1971 ٗء میں اقتدار دینے کے بجائے
توٹتے پاکستان ، مغربی پاکستان کی عوام کو سرکاری ریڈیو پرفتح کے گیت سناتے
رہے اور ہمارے فوجی جوان گرفتار ہوتے رہے ، کیا بنگالی مسلمان نہیں تھے ؟
کیا انھوں نے پاکستان کے قیام اور دو قومی نظرئیے کیلئے قربانیاں نہیں دیں
تھیں کہ انھیں با لاآخر خود کو ایک الگ قوم بنا کر پاکستانی سے بنگلہ دیشی
بننا منظور کرلیا۔تحریک پاکستان کے لئے بنگال واحد صوبہ تھا جس میں 90فیصد
مسلمانوں نے روز اول سے ہی پاکستان کے قیام کیلئے تحریک پاکستان میں بڑھ
چڑھ کر حصہ لیا۔ لیکن دو قومی نظرئیے کو پاکستان دشمن عناصر سے زیادہ
پاکستان کے نام نہاد ٹھیکداروں نے ہی نقصان پہنچایا۔
اسلام کا دو قومی نظریہ یہی ہے کہ ان کا اﷲ ایک ، رسول ایک ، قرآن ایک اور
یوم آخرت پر سزا و جزا ایک ،نماز ایک، روزہ ایک ، زکوۃ ایک، حج ایک ، شرم و
حیا اور روایات کے مطابق لباس کی مخصوس شرع ایک ، قرآن کریم کے ابدی اور لا
زوال قوانین ایک ، اﷲ کو ایک جان کر اس کیلئے سجدہ ریزی ایک ، تو پھر
بالحاظ قوم امت مسلمہ ، اپنے دائمی اصولوں کے تحت ایک تھی اس لئے اکابرین
پاکستان نے ہندوؤں کے تمدن اور رہن سہن عبادات رسوم وراج کے تعین کرکے یہ
فیصلہ کیا کہ مسلمان اپنی کمزور تعلیم اور معاشرے میں عددی قوت کی کمزوری
کی وجہ سے ہندوستان میں پِس سکتے ہیں اس لئے ان کیلئے دو قومی نظرئیے کے
تحت جداگانہ مسلم مملکت کا مطالبہ کردیا اور بڑی خوں ریزی اور جدوجہد کے
بعد ایک ایسا ٹکڑا حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جہاں دو قومی نظرئیے کے تحت
پاکستان کو ساری دنیا کیلئے مثالی بنا سکیں۔لیکن بد قسمتی سے پاکستانیت کے
بجائے لسانیت و صوبائیت حاوی ہوگئی ، قربانی دینے والے خود کو کوشش کے
باوجود پاکستانی ثابت نہ کرسکے، کہ ان کے رشتے دار بھارت میں ہیں اس لئے ان
پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔دو قومی نظرئیے کے تحت بننے والے ملک میں پھر
لسانیت کیوں ، صوبائیت کیوں ، قوم پرستی کیوں ہے ؟ بھارت کے مسلمان بے یارو
مددگار کیوں ہیں ، پاکستان کیلئے قربانی دینے والوں کو واپس بھارت یا سمندر
میں پھنکنے کی دہمکیاں کیوں دیں جاتیں تھیں ۔اب اگر یہ ردعمل میں لسانیت ،
تعصب اور فروعی سیاست کریں تو اس کا ذمے دار کون ہوگا۔
دو قومی نظرئیے کے تحت بننے والے ملک میں انڈیا سے ستائے جانے والے اور
بنگلہ دیش میں سقوط ڈھاکہ کے بعد محصورین پاکستانیوں کو واپس کیوں نہیں
لایا گیا۔ پاکستان کیلئے لڑنے والے کل ہیرو تھے تو یہ کون سا دو قومی نظریہ
ہے کہ آج اساس پاکستان کے سب سے بڑے حامی اور قربانی دینے والے مشرقی
پاکستان سے بنگلہ دیش میں ڈھل کر دو قومی نظرئیے کے بجائے قوم پرستی کے
ترانے گاتے ہیں ۔ہمیں یہ سب ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ سندھ، پنجاب ،
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کیا سب دو قومی نظرئیے کے تحت سیاست کرتے
ہیں یا پھر لسانیت ، صوبائیت یا قوم پرستی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ صوبائی خود
مختاری کا مطلب صوبوں کے درمیان مساوی وسائل کی تقسیم ہے تو پھر کوٹہ سسٹم
کیوں نافذ ہے ؟ ،خیبر پختونخوا سے کوئی وزیر اعظم کیوں نہیں بن سکتا ، سندھ
میں اردو بولنے ولا وزیر اعلی بننے کیلئے کس طرح خود کو دو قومی نظرئیے کے
کسوٹی پر پورا اتارے ؟۔93 ہزارفوجیوں نے جب ہتھیار ڈالے اور انڈیا کی قید
میں گئے اور پھر واپس لائے گئے تو انھیں تسلیم کرلیا گیا لیکن جن لوگوں نے
بغیر تنخواہ یا نوکری کے پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے سات لاکھ جانوں
کا نذارنہ پیش کیا اور ان کے باقی ماندہ خاندان ، عورتیں بچے بوڑھے کیمپوں
میں منتقل ہوئے تو ، انھیں کیوں کہا گیا کہ اب بنگلہ دیش تمھارا ملک ہے ،
تم پاکستان نہیں آسکتے۔ یہاں دو قومی نظریہ کہاں گیا ؟۔دو قومی نظریہ ایک
خوش نما خواب ضرور ہے لیکن عملی طور پر عبرت ناک تعبیر ہے ۔ہم آج بھی دو
قومی نظرئیے کے گیت گاتے ہیں ، لیکن اس کی اصل روح کو سمجھنے کے بجائے
پاکستانی کو محب وطن بنانے کے بجائے غدار کہلانے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
مجھے موجودہ پاکستان میں لسانیت ، صوبائیت ، فرقہ واریت اور قوم پرستی تو
نظر آتی ہے ، دو قومی نظریہ کہیں نظر نہیں آتا ۔کیا کوئی پاکستانی موجودہ
حالات میں دو نظرئیے کو تلاش کرکے بتا سکتا ہے کہ دو قومی نظریہ کہاں ، کس
صوبے ، شہر یا گاؤں میں ہے؟
|