جنگ آزای میں حصہ لینے والے چند ممتاز علماء کا تذکرہ
(Ata Ur Rehman Noori, India)
﴾ علامہ فضل حق خیر آبادی
:
علامہ فضل حق خیر آبادی جنگ آزادی کے سب سے عظیم ہیرو ہیں ، انقلابی
سرگرمیوں کی پاداش میں آپ باغی قرار دئیے گئے ۔ 1859ء میں لکھنو میں مقدمہ
چلا، آپ کی شہرت و مقبولیت کے پیش نظر امید یہی تھی کہ بری کردئیے جائیں گے
، مگر آپ نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر بھرے مجمع میں 1857ء کی جنگ میں
شرکت کا اعتراف کیا ، جس کی وجہ سے آپ کی رہائی منسوخ ہوگئی اور آپ کو کالا
پانی روانہ کردیا گیا ۔ جس دن آپ کے معتقدین رہائی کا پروانہ لے کر کالا
پانی پہنچے اس دن آپ اس دُنیا کو الوداع کہہ چکے تھے۔
﴾ مولانا سید کفایت علی کافی ؔ :
انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ مرتب کرنے والوں میں آپ کا نام سر فہرست ہے
، کئی مورچوں پر آپ نے انگریزوں کو شکست دی ۔ مراد آباد پر جب انگریزوں کا
قبضہ ہوا تو اس وقت آپ گرفتار کرلئے گئے ، جسم نازنین پر گرم گرم استری
پھیری گئی ،زخموں پر نمک چھڑکا گیا ،اسلام سے برگشتہ کرنے کیلئے انگریزوں
نے ہر حربہ استعمال کیا مگر ناکام رہے۔ آخر کار مراد آباد کے ایک چوک میں
بر سر عام آپ کو تختہ پر لٹکا دیا گیا ، جب آپ پھانسی کا پھندہ اپنی گردن
میں ڈالنے جارہے تھے اس وقت آپ کے ہونٹوں پر تبسم رقصاں تھا اور زیر لب
بارگاہِ رسالت پناہ صلی اﷲ علیہ وسلم میں نعت پاک کا یہ نذرانہ پیش فرما
رہے تھے
کوئی گْل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
بس رسولِ پاک کا دینِ حسن رہ جائے گا
ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا
بلبلیں اْڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
اطلس و کم خواب کی پوشاک پہ نازاں نہ ہو
اس تنِ بے جان پہ خاکی کفن رہ جائے گا
نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا
جو پڑھے کا صاحبِ لَولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ و لیکن حشر تک
نامِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا
مولانا مفتی رضا علی خاں بریلوی :
آپ نے جنگ آزادی میں قولاً فعلاً عملاً ہر طرح سے حصہ لیا اور شجاعت و
بہادری کے انمٹ نقوش چھوڑے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ جنگ آزادی کے عظیم
رہنما تھے ۔ عمر بھر انگریزوں کے خلاف نبرد آزما رہے ، آپ ایک بہترین جنگجو
اور سپاہی تھے ۔ لارڈ ہسٹنگ آپ کے نام سے سخت ناراض تھا اور جنرل بڈسن جیسے
برطانوی جنرل نے تو آپ کے سر پر پانچ سو روپئے کا انعام رکھ دیا تھا یہ اور
بات ہے کہ وہ لوگ اپنے ناپاک منصوبہ میں عمر بھر ناکام رہے۔
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
شہید ملت مولانا احمد اﷲ شاہ مدراسی:
شہید ملت مولانا احمد اﷲ شاہ مدراسی ملک و ملت کے اس سپوت کا نام ہے جنہوں
نے ملک کے مختلف مقامات پر علم جہاد بلند کیا اور مجاہدین کی سربراہی فرما
کر انہیں جذبہ آزادی کا خوگر بنایا ، ٹونک، گوالیار ، آگرہ ، دہلی اور
کانپور و فیض آباد کی سرزمین پر آپ نے انگریزوں سے مقابلہ کیا ، انگریز آپ
کے نام ہی سے خائف تھے ۔آپ دریائے شور کے ساحلی علاقہ چنیاپٹن میں پیدا
ہوئے ، آپ کے والد نواب سید محمد علی ، سلطان ٹیپورحمۃ اﷲ علیہ کے مقربین
میں سے تھے ، مولانا احمد اﷲ شاہ صاحب نے اپنی پوری زندگی انگریزوں کی
مخالفت کیلئے وقف کردیا تھا ، اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۳؍
ذی قعدہ 1275ھ کو لڑتے لڑتے میدان کارزار ہی میں شہید ہوئے ۔
مفتی صدر الدین خاں آزردہ :
تحریک آزادی ہند خشت اول کی حیثیت جس عظیم المرتبت شخصیت کو حاصل ہے ، اسی
کا نام مفتی صدر الدین خاں آزردہ ہے ، انہوں نے ہی فتویٰ جہاد مرتب کیا اور
لوگوں کو اس طرف مائل فرمایا ۔ اس وقت آپ دہلی میں صدر الصدور کے عظیم منصب
پر فائز تھے۔ علم و فضل کے بحر بیکراں اور تقویٰ و طہارت کے جبل استقامت
تھے ۔ انگریزوں کیلئے ہمیشہ شمشیر آبدار بن کر چمکتے رہے ، آپ نے اس وقت تک
سکون کی سانس نہ لی ، جب تک کہ راہی ملک بقاء نہ ہوگئے ۔ مفتی عنایت احمد
کاکوری ، مولانا عبدالجلیل شہید علی گڑھی ، مولانا فیض احمد عثمانی ، منشی
رسول بخش کاکوری ، مولانا وہاج الدین اور سید اسماعیل حسین منز شکوہ آبادی
، جیسی سینکڑوں ایسی نابغہ روز گار شخصیت ہیں جن کی عظیم الشان قربانیاں
تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔(ماخوذ:خطبات اسلام) |
|