بہت سے دوستوں نے راقم کے کالموں
میں شیخو جی کے کردار کے بارے میں استفسار کیا ہے کہ کیا یہ فرضی کردار ہے
یا واقعی جیتا جاگتا انسان ہے۔ اس بارے میں ہم بتانا چاہتے ہیں کہ محترم
جناب شیخو جی کا اصل نام نذر شباب ہے اور وہ ہمارے جگری دوست ہیں۔ اپنی ذات
میں نہ صرف انجمن ہیں۔ سماجی، ادبی اور ثقافتی تنظیم ڈیرہ آرٹسٹ ویلفیئر
فورم کے چیئرمین ہیں۔ صوبہ سرحد کلاس فور ملازمین ایسوسی ایشن کے سنیئر
نائب صدر ہیں۔ اداکار، گلوکار، شاعر اور موسیقار ہونے کی صلاحیتوں کے حامل
ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی ماہر الیکٹریشن بھی ہیں جبکہ شعبہ صحافت سے کالم
نگار کی حیثیت سے وابستہ ہیں اور ان کا کالم ”شوخ شیخیاں “کے عنوان سے ضلع
ڈیرہ اسماعیل خان کے تمام روزناموں میں باقاعدہ شائع ہوتا ہے۔ انہی خوبیوں
کے باعث راقم نہ صرف ان سے بے حد متاثر ہے بلکہ انہیں اپنے بڑے بھائی کا
درجہ دیتا ہے۔ گزشتہ روز جب فون پر شیخو جی سے بات ہوئی تو ان سے بال بچوں،
ملازمت، ثقافتی سرگرمیوں، حالات حاضرہ پر تفصیلی گفتگو ہوئی اس دوران راقم
نے خصوصاً برادر ہمسایہ ملک افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ان سے دریافت
کیا ہے تو شیخو جی کچھ یوں گویا ہوئے کہ دیکھو امریکی صدر براک حسین اوباما
افغانستان اور پاکستان سے متعلق کس قسم کی پالیسی تشکیل دینے کے خواہاں ہیں
کیونکہ انہوں نے اپنے اعلیٰ سویلین و فوجی حکام کی جانب سے پیش کردہ 4آپشنز
کا جائزہ لینے کے لئے اپنی جنگی کابینہ کے آٹھویں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے
فوری طور پر افغانستان مزید فوج بھیجنے کی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا
ہے کہ جب تک افغان حکومت اپنی حکمت عملی اور اوقات کار کی یقین دہانی نہیں
کراتی مزید امریکیوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈالا جائے گا جبکہ اوباما
انتظامیہ کے ایک اور سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ صدر ان تمام آپشنز میں سے
کسی ایک کو بھی قبول کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ وہ یہ جائزہ لینے پر
زور دے رہے ہیں کہ کیسے اور کب امریکی فوج سکیورٹی ذمہ داریاں افغان حکومت
کے حوالے کرے گی۔ دوسری طرف ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدراوباما اب ایشیا
کے دورے کے بعد وطن واپسی پر افغانستان و پاکستان کی حکومتوں سے لائحہ عمل
کی یقین دہانیوں کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔ ادھر منیلا میں پریس
کانفرنس کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے افغان صدر کو مخاطب
کرتے ہوئے کہا کہ وہ کرپشن کے خاتمے کیلئے عملی مظاہرہ کریں کیونکہ کرپشن
افغان حکومت کی جڑوں میں سرائیت کرچکی ہے لیکن امریکہ احتساب اور شفافیت کے
اقدامات سمیت ایسی حکومت دیکھنا چاہتا ہے جو افغان عوام کو نتائج دے جس کے
وہ حقدار ہیں۔
شیخو جی تھوڑے سے توقف کے بعد بولے ہمارے ترجمان دفتر خارجہ عبدالباسط خان
نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغان پالیسی کے لئے اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے
دی ہے جو جلد امریکی حکام کو پیش کر دی جائیں گی۔ افغانستان میں اضافی فوج
بھیجنے پر پاکستان کو تحفظات ہیں کیونکہ اس سے پاکستان پرمنفی اثرات مرتب
ہوں گے۔ افغانستان میں سلامتی و استحکام پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت کا
حامل ہے ہماری خواہش ہے کہ وہاں جلد امن قائم ہو، ہم بھی انہی مقاصد کیلئے
کام کر رہے ہیں اور امریکہ سے اس حوالے سے بات چیت جاری ہے کہ افغانستان
کیلئے ایسی پالیسی مرتب کی جائے جو نتیجہ خیز ہو۔
ایک لمبا سانس لینے کے بعد بھر گویا ہوئے نیٹو نے آئندہ برس سے افغان فوج
اور پولیس کو بتدریج سکیورٹی ذمہ داریاں سونپنے کا اعلان کیا ہے۔ نیٹو
سیکرٹری جنرل اینڈرس فوگ راسموسن نے کہا کہ اتحادی افواج 2010ء سے ملک کے
جس حصے میں صورتحال کو بہتر محسوس کریں گی وہاں کا کنٹرول افغان فورسز کے
حوالے کرنا شروع کردیں گی۔ افغانستان میں ہماری موجودگی کا مقصد بدعنوان
افغان حکومت کو سکیورٹی فراہم کرنا نہیں بلکہ اس سرزمین کو دہشتگردوں سے
پاک کرنا ہے تاکہ وہ یہاں دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں۔ نیٹو ممالک جلد از جلد
افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن وسائل فراہم
کریں تاکہ وہ اپنے ملک کی سکیورٹی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہو سکیں۔
راقم یہ سارا تجزیہ انتہائی غور سے سننے میں مگن تھا کہ شیخو جی ایک مرتبہ
پھر خاموش ہو گئے، لیکن یہ وقفہ زیادہ لمبا تھا جس پر پہلے تو ہیلو ہیلو
شیخو جی شیخو جی پکار مگر جواب نہ ملنے موبائل کو کان سے ہٹا کر دیکھا کہ
کہیں لائن تو ڈراپ نہیں ہو گئی مگر لائن برقرار تھی ۔ایک دفعہ پھر شیخو جی
شیخو جی کی رٹ لگائی تو دوسری طرف سے گرج دار آواز میں شیخو جی بولے، ابے
او گھامڑ صحافی میں تمہاری ہی طرح کا گوشت پوست کا بنا انسان ہوں کیونکر
چیخ و پکار شروع کر رکھی ہے، بول بول کر گلہ خشک ہوگیا تھا اس لئے تھوڑی
دیر کو سستانے کے ساتھ ساتھ پانی پی کر اپنی انرجی بحال کررہا تھا۔ مجھے
معلوم ہے کہ تم نے گھنٹہ پیکج کرا رکھا ہے ۔اللہ بھلا کرے انگریز قوم کا جس
نے ہمارے آباﺅ اجداد کی محنتوں کو خاک ہونے سے نہ صرف بچا لیا بلکہ اس پر
مزید کام کر کے ہمیں آج وہ وہ سہولیات فراہم کیں کہ جن کا ہم تصور بھی نہیں
کر سکتے تھے۔ ان میں سے ایک سہولت موبائل فون بھی ہے جس کی بدولت ہم ایک
دوسرے سے سیکڑوں میل دور ہونے کے باوجود انتہائی قریب ہیں اور بات کر رہے
ہیں۔ کیا سمجھے گھامڑ صحافی ۔
تمہارا سوال کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہے؟ تو سنو !۔۔۔جس طرح ہر عروج کا
زوال ہے، جس طرح ہر شے نے اپنے اصل کی طرف لوٹ جانا ہے، جس طرح ہر رات کے
بعد سویرا ہے، جس طرح ہر حقدار کو اس کا حق دینے کا وعدہ رب ذوالجلال اٹل
ہے عین اسی طرح افغان عوام کی مشکلات جلد ختم ہونے والی ہیں۔ یعنی ایک دو
سال میں وہاں سے نیٹو فوج کا انخلاء ہونے جا رہا ہے۔ لیکن تم اپنی فکر کرو۔
اس بات سے ہمارے کان مزید کھڑے ہوگئے اور ان سے پوچھا، محترم شیخو جی ایک
طرف تو آپ نے خوش خبری سنائی ہے کہ افغان عوام کے دکھ دور ہونےوالے ہیں
لیکن وہیں دوسری طرف وطن عزیز اور اس کے باسیوں سے متعلق تمہاری طرف سے
انتباہ وہ کیوں؟ حالانکہ باقی تمام تجزیہ کار، مبصرین تو کہہ رہے ہیں کہ
پاکستان میں امن کا قیام افغانستان میں قیام امن اور اس کے استحکام سے
مشروط ہے جبکہ آپ تو کہہ بھی رہے ہیں کہ افغانستان میں نیٹو افواج اب آج کل
ہی کی بات ہے۔ پھر ہمیں اپنی فکر کرنے کی بات کچھ سمجھ نہیں آتی ۔
شیخوجی نے ایک مرتبہ پھر لمبی سانس لی اور کہا کہ خدا ہمیں عقل، فہم، فراست
اور سوجھ بوجھ دے۔ آمین
راقم نے ہاں میں جواب دیا اور کہا جو حکم سرکار بولیے۔
شیخو جی نے اب کی بار گفتگو کا آغاز ہمیں گھامڑ صحافی مخاطب کہہ کر کیا اور
بولے۔ کیا سیمور ہرش نامی اپنے پیٹی بند بھائی کو جانتے ہو؟
جی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ راقم نے جواب دیا۔
شیخو جی نے کہا تمہیں ایسے ہی گھامڑ صحافی نہیں کہتا۔ سیمور ہرش وہ معروف و
معتبر یہودی صحافی ہے جس نے تمہاری پیدائش کے سال یعنی 1968ء جب امریکہ ویت
نام میں اپنے ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کررہا تھا تو یہ سیمور ہرش ہی تھا
جس نے امریکی فوج کی سفاکی کو دنیا کے سامنے عیاں کیا اور پھر دیکھتے ہی
دیکھتے کایہ یک لخت پلٹ گئی اور امریکہ کو ناکام و نامراد ہوکر وہاں سے نہ
صر ف نکلنا پڑا بلکہ دنیا میں اپنی ساکھ بچانے کی خاطر اسے اپنے چند وفادار
فوجی جوانوں کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے کر سزائیں دینا پڑیں حالانکہ
ان فوجی اہلکاروں نے یہ بربریت خود سے نہیں کی تھی بلکہ وہ تو محض حکم کے
غلام ہی تھے۔
تھوڑے سے توقف کے بعد شیخو جی پھر گویا ہوئے یہ ہی نہیں بلکہ یہ وہ صحافی
بھی ہے جس نے پہلی مرتبہ اسرائیل کے جوہری طاقت ہونے کا انکشاف کیا اور اس
کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد تک سے آگاہ کیا۔ اسی سیمور ہرش نے ہی ایران کو
عدم استحکام کا شکار کرنے کی امریکی و اسرائیلی سازشوں سے پردہ اٹھانے سمیت
اس سوئی ہوئی دنیا کو بتایا کہ عراق پر امریکی حملہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ
تھا اور بغداد کے پاس مہلک ہتھیاروں کی موجودگی محض ایک جھوٹ اور اپنے
مفادات کے حصول کے لئے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنا تھا۔
شیخو جی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج وہی سیمور ہرش ہمارے ایٹمی
اثاثوں کے بارے میں ایسے ایسے انکشاف کر رہا ہے کہ جس نے کم از کم میری تو
نیندیں اڑا دی ہیں لیکن رب جانے اور کون کون میری طرح اس آگ میں جلے جا رہا
ہے کہ ارض پاک کے گرد روز بروز تنگ ہونے والا طاغوت کا گھیرا ہمارے ارباب
اختیار کو نظر کیوں نہیں آرہا اور اگر وہ اس سے بخوبی آگاہ ہیں تو کیا وہ
اس کا توڑ بھی کر رہے ہیں یا نہیں؟
راقم نے جھٹ سے کہا کیوں نہیں یقیناً ایسا کیا جا رہا ہوگا، اب یہ ضروری تو
نہیں کہ ہر بات عوام کو بتائی جائے کیونکہ کچھ کام صیغہ راز میں رکھے جانے
کے بھی ہوتے ہیں۔
شیخو جی۔ اللہ آپ کی زبان مبارک کرے، ورنہ زمینی حقائق تو اس کے برعکس ہی
ہیں ۔
وہ کیسے شیخو جی؟ ہم نے استفسار کیا ۔
اچھا سوال کیا شیخو جی فون کی دوسری طرف سے بولے اور ایک بار پھر لمبی سانس
لے کر گویا ہوئے۔ جناب وہ ایسے کہ اسی سیمور ہرش نے اپنے حالیہ کالم میں جو
کچھ بیان کیا ہے اگر تفصیلات بتانا شروع کر دوں تو آپ کے پیروں تلے سے زمین
ہی نکل جائے کہ ارض پاک کے خلاف طاغوت کیا کیا گل کھلا رہا ہے اور ہمارے
قائدین خواہ وہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں انہیں ایسی باتوں کی پرواہ ہی
نہیں، اگر ایسی کوئی خبر میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے آبھی جائے تو ان کی
زباں بندی کے لئے اپوزیشن حکومت کے خلاف محض سیاسی سکور کے لئے مذمتی بیان
داغ دیتی ہے اور اس کا ذمہ دار حکومت کو ہی ٹھہراتی ہے جبکہ جواب میں ارباب
اختیار کے ترجمان ایسی خبروں کو بے بنیاد اور منفی پروپیگنڈہ قرار دے کر
اپنی ذمہ داری سے خود کو بری الزمہ سمجھ لیتے ہیں۔ پھر اپنی پرانی ڈگر پر
چل پڑتے ہیں یعنی ایک دوسرے کے خلاف الزامات عائد کرنے میں جت جاتے ہیں۔
ورنہ جی ایچ کیو، آئی ایس آئی، ایف آئی اے کے دفاتر پر آئے روز حملے نہ ہو
رہے ہوتے۔ عوامی مقامات پر دہشتگردی کا تو کہا جا سکتا ہے کہ وہاں سکیورٹی
اس قدر سخت نہیں ہوتی جبکہ حساس مقامات پر تو اس کے برعکس ہوتا ہے لیکن اس
کے باوجود طاغوت اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نظر آتا ہے۔
راقم نے بات کاٹتے ہوئے کہا شیخو جی دہشت گردی کی وارداتیں تو طالبان اور
القاعدہ کر رہے ہیں۔ اس میں طاغوت کا ہاتھ کیونکر ہوسکتا ہے اور اس سے
ہمارے ایٹمی اثاثوں کو کیا خطرات لاحق ہیں؟
ہوناں نرے گھامڑ کے گھامڑ۔ شیخو جی نے راقم کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ بھئی
ہماری انہی کم عقلیوں، نالائقیوں، باہمی اختلافات سے ہی تو پاکستان کے دشمن
جن کو ہم سب بخوبی جانتے ہیں فائدہ اٹھا رہے ہیں، کیونکہ القاعدہ اور
طالبان ارض پاک کی حکومت اورعوام کو طاغوت کا مددگار تصور کر بیٹھے ہیں
انہی طاغوتی طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر اپنے ہی
گھر کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ طاغوت طالبان اور القاعدہ
کی طرف سے آئے روز کی جانے والی دہشگردی کی وارداتوں کو عالمی برادری کے
سامنے پیش کر کے آہستہ اہستہ ہمیں ناکام ریاست اور ایٹمی اثاثوں کی حفاظت
کرنے میں نااہل ثابت کر کے ان پر قبضہ کرنے کی اپنی منصوبہ بندی کی تکمیل
کی جانب بڑھتا چلا جا رہا ہے جبکہ عالمی برادری کو اب تک وہ اتنا باور کرا
چکا ہے کہ دیکھو ہمارا خدشہ درست ہے کہ نہیں کہ پاکستان ایٹمی صلاحیت رکھنے
کا اہل نہیں ورنہ یہ تباہ کن ہتھیار دہشتگردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں اور وہ
ان کا استعمال ہمارے خلاف کریں گے کیونکہ وہ ہمیں کافر، غیر مسلم سمجھتے
ہیں اور ہمارے خلاف جہاد میں جتے ہوئے ہیں۔
تھوڑے سے توقف کے بعد شیخو جی نے کہا کہ اس لئے اب طاغوت کا ہدف پاکستان
ہے، افغانستان نہیں کیونکہ وہاں وہ اپنے اہداف جنہیں وہ حاصل کرنا چاہتا
تھا اپنی پسند کے مطابق ہی پاچکا ہے۔ نائن الیون کے حملوں کی ذمہ داری
القاعدہ نے لے کر نہ صرف اسلام کو نقصان پہنچایا بلکہ اس نے پاکستان کے
خلاف طاغوت کو کھل کھیلنے کا موقع دیا۔ حالانکہ وہ اور اس کے حواری طالبان
سابق سوویت یونین کو امریکہ جس کو آج وہ اسلام اور امت مسلمہ کا دشمن نمبر
ون گردانتے ہیں کی مدد و تعاون ہی سے شکست دینے میں کامیاب ہوئے جبکہ اسی
زعم میں القاعدہ اور طالبان نے افغانستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی آڑا
میں وہاں ایسا جاہلانہ سسٹم پروان چڑھایا کہ دنیا چیخ اٹھی۔ حالانکہ جہاد
کی یہ تعریف میری ناقص عقل و دانش کے مطابق کسی طور درست نہیں کہ ایک
طاغوتی طاقت کے بل بوتے پر دوسری طاغوتی طاقت کے خلاف نبرد آزما ہوا جائے،
البتہ اسے جنگ یا لڑائی ضرور کہا جا سکتا ہے جس میں اس وقت کی ہماری حکومت
اور خفیہ ایجنسیاں بھی پیش پیش تھیں۔
یہاں ایک مرتبہ پھر راقم نے سوال اٹھایا کہ شیخو جی اس ساری کہانی کا ہمارے
مستقبل اور ایٹمی اثاثوں کو کیا خطرہ ہے؟
شیخو جی بولے نائن الیون کا واقعہ امریکی و یہودی لابیوں کی اپنی ہی سازش
تھی مگراس کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کر کے بظاہر خود کو اسلام اور امت
مسلمہ کی جہادی فورس سمجھا اور سادہ لوح مسلمانوں میں اس حوالے سے گمراہی
کی بنیاد ڈالنے سمیت امریکہ کو دنیا میں مظلوم بنا دیا جس کے بعد امریکہ
بہادر نے افغانستان میں اس وقت کے حکمران طالبان سے القاعدہ کی اعلیٰ قیادت
اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کردیا لیکن طالبان نے اسامہ بن لادن کو
پشتون روایات کی آڑ میں اپنا مہمان قرار دے کر امریکہ کے سپرد کرنے سے
انکار کر دیا جس سے امریکہ کا افغانستان میں دراندازی کا راستہ وا ہو گیا،
حالانکہ نائن الیون حملوں کی سازش کے پیچھے اصل ہدف پاکستان اور اس کے
ایٹمی اثاثے ہی تھے،جس کو ہم نے سمجھنے میں بڑی تاخیر کر دی اور آج وہی
امریکہ یہ کہہ رہا ہے کہ وہ القاعدہ کا ہر جگہ پیچھا کرے گا۔ افغانستان میں
القاعدہ ہمارے لئے خطرہ نہیں رہی لیکن پاکستان اس کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا
ہے اور ہمیں خطرہ ہے کہ یہ دہشتگرد تنظیم پاکستان کے ایٹمی اثاثو ں پر قبضہ
کر لے گی اور پھر انہیں ہمارے خلاف استعمال کرے گی لہٰذا ہم پاکستان میں
بھی اس دہشتگرد تنظیم کے خلاف کارروائی کرنے اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں
کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کا مکمل حق رکھتے ہیں۔ گھامڑ صحافی سمور ہرش
نے بھی انہی رازوں سے پردہ اٹھایا ہے کہ وطن عزیز کے ایٹمی اثاثوں کی بظاہر
حفاظت کی آڑ میں ان کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لئے اپنی انتہائی متحرک و
ماہر ٹیمیں پاکستان میں تعینات کر رکھی ہیں جو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت
میں نہ صرف انتہائی سرعت کے ساتھ ہماری ایٹمی تنصیبات پر پہنچ سکتی ہیں
بلکہ انہیں اپنے کنٹرول میں لینے کی تمام تر سہولیات سے بھی لیس ہیں۔ یہ جو
تم آئے روز خبروں میں بلیک واٹر نامی نجی سکیورٹی کمپنی کے بارے میں پڑھتے
ہو اسی سلسلے کی کڑی ہیں جبکہ اس کے علاوہ اور بہت سی ایسی کمپنیاں جن میں
”انٹر رسک “کا نام بھی اب منظر عام پر آچکا ہے ارض پاک پر موجود ہیں۔
راقم نے کہا آپ درست کہتے ہو شیخو جی۔ پر کیا کیا جائے ہمارے بس میں تو صرف
آگاہی دلانا ہے، اطلاع دینا ہے۔
شیخو جی نے جواب میں کہا بالکل آپ درست کہتے ہو لیکن ہمیں من حیث القوم اب
ہر حال میں جاگنا اور اپنی کوتاہیوں، نالائقیوں، کمزوریوں کے باعث اپنے
خائف حکمرانوں کو جگانا، ہمت بندھانا اور اپوزیشن کو یہ باور کرانا ہوگا کہ
یہ خود کو آنے والے حالات کے لئے تیار کرنے کا وقت ہے ناں کہ محض آئندہ
انتخابات میں کامیابی کے لئے ایک مرتبہ پھر عوام کو بےوقوف بنانے کا کیونکہ
وہ وقت ہوا ہوئے جب شیخو جی فاختہ اڑایا کرتے تھے اور ہنوز دلی دور است
والی بات بھی نہیں رہی بلکہ دشمن ہمارے گھر میں ہی براجماں ہے جس کے ایجنڈے
کی تکمیل میں القاعدہ و طالبان سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں جبکہ ہماری
اپوزیشن کی چند مذہبی و سیاسی جماعتیں اب بھی افغان جہاد کے مجاہدین اور آج
کے دہشت گردوں میں فرق کرنے کی بجائے امریکہ اور اپنی حکومتوں کو ہر بات کا
مورد الزام قرار دیئے جا رہی ہیں حالانکہ مجاہدین کے لبادے میں چھپے اسلام،
مملکت خداداد اور اس کے معصوم، محنتی، مخلص، بھولے اور ارض پاک کےلئے 62سال
سے ہر قسم کی قربانی دیتے چلے آرہے عوام کے دشمنوں کے لئے دل میں نرم گوشہ
رکھے ہوئے ہیں۔
اسی لئے کہتا ہوں افغانستان نہیں اپنی فکر کرو، کیا سمجھے گھامڑ صحافی،
ورنہ داستان تک نہ رہے گی داستانوں میں۔ اسی لئے کہتا ہوں کہ تیاری کرو
کیونکہ رب ذولجلال اپنے کلام میں کہہ چکا ہے کہ ”میں نے کبھی بھی اس قوم کی
حالت نہیں بدلی نہ ہو خیال جس کو اپنی حالت کے بدلنے کا “۔ اللہ تعالیٰ
ہمارے گناہوں، غلطیوں، کوتاہیوں کو معاف اور طاغوت کا خواہ وہ آستین کی
سانپوں کی صورت میں ہو یا واضح ان کے خلاف اپنے پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم اور اس کی آل اطہار و صحابہ کرام کے صدقے میں مدد و نصرت فرمائے،
آمین، ثمہ آمین
اچھا پیارے اب اجازت چاہتا ہوں کیونکہ تمہارے بھتیجے بھتیجیاں میری طرف
معصوم و مجبور نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ بابا جان آپ کے اس تجزیے سے ہماری
بھوک ختم نہیں ہونے والی، شام ہونے کو ہے جائیں اور کچھ سودا سلف لائیں
تاکہ پیٹ کا دوزخ بھرنے کا اہتمام کیا جا سکے۔ مولا نگہبان۔۔۔ راقم نے بھی
جواباً مولا نگہبان کہہ کر فون بند کر دیا۔
|