جبلِ ثور کے دامن میں چند ساعتیں
(Dr Rais Samdani, Karachi)
۳۱ دسمبر ۲۰۱۳ء مَیں اپنی شریک
سفر شہناز کے ہمراہ صبح سویرے جدہ سے مکہ پہنچ گیا ۔ ارادہ تھا کہ آج حرم
شریف میں جانے سے قبل مکہ کی تاریخی مساجد، پہاڑوں ، غاروں اور میدانوں کی
زیارت کریں گے۔ اتفاق کہیے یا ہمارے نیک اور صالحہ ارادے کی برکت کہ ہمیں
پاکستان کے شہر ملتان کا ایک باسی نوجوان محمد رضوان مل گیا جو مکہ میں
ٹیکسی چلا کر اپنا گزر بسر کر رہا ہے۔ ہم رضوان کے ہمراہ عازم ِسفر ہوئے ۔
موسم خوشگوار تھا، بادل چھائے ہوئے تھے۔ ٹھنڈی ہوائیں بھی چل رہی تھیں۔ مکہ
کے کشادہ شاہراہوں پر سفر کرتے ہوئے ہم خیالوں میں بھی سفر کررہے تھے۔ ایک
پہاڑ ختم ہوتا دوسرا شروع ہوجاتا۔ رضوان سے گفتگو بھی جاری رہی۔ کچھ ہی دیر
بعد ایک چھوٹے سے میدان میں ٹیکسی روک کر اس نے کہا کہ دیکھئے وہ رہا جبلِ
ثور اس پر غار ثور ہے۔ ہم سے پہلے کئی لوگ یہاں موجود تھے ۔ تیس چالیس
خواتین و حضرات پر مشتمل ایک گروہ ہندوستان سے آیا ہوا بھی یہاں موجود تھا۔
جوں ہی جبل ثور پر نظر پڑی یادوں کے دریچے کھل گئے۔ابھی تک تو کتابوں میں
ہی غارِ ثور کے بارے میں پڑھا تھا آج ہم اس کے نیچے موجود ہیں اور یہ ہماری
نظروں کے سامنے مردانہ وجاہت کے ساتھ فخریہ انداز سے اپنی بہاریں دکھا رہا
ہے۔ فخر کررہا ہے کہ اﷲ کے پیارے نبی ؑ نے ہجرت مدینہ سے قبل اپنے ساتھی
دوست اور رفیقِ غار حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے ہمراہ مجھے شرف بخشا ، یہاں تین
دن اور تین راتیں قیام کیا۔ہم اس پہاڑ کے دامن میں کھڑے تھے نظریں مسلسل
پہاڑ کی چوٹی پر موجود غار کو تلاش کررہی تھیں ۔ شاید کسی طرح ہمیں غار کی
ایک جھلک ہی نطر آجائے۔ اس کی بلند ی کو دیکھتے ہوئے غار تک جانے کی حمت ہی
نہیں تھی۔ لیکن بے شمار اﷲ کے بندے اور بندیاں اپنے پیارے نبی ؑ کی مختصر
سے پناہ گاہ کی زیارت کے لیے دیوانا وار اوپر کی جانب رواں دواں تھے۔ اﷲ نے
انہیں ہمت اور حوصلہ عطا کیا، یہاں آکر مجھے یہ احساس ضرور ہوا کہ میں اپنی
جوانی میں یہاں کیوں نہ آیا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ اﷲ کو یہی منطور تھا
کہ میں عمر کے اس حصے میں یہاں موجودہوں جب کہ پہاڑ پر چڑھنا میرے لیے ممکن
نہیں ،یہ بھی مالک کا شکر اور احسان ہے کہ اس نے اس سعادت سے سرفراز کیا کہ
آج میں اس مقدس جگہ موجود ہوں اور اپنی آنکھوں سے اس مقدس پہاڑ کی زیارت
کررہا ہوں۔
غار ثور میں آنحضرت ﷺ کا قیام کرنا، حضرت ابو بکر صدیق ؑ کا ان کے ہمراہ
ہونا،پہاڑ پر سفرکے دوران جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم تھک جاتے تو
حضرت ابو بکر صدیق ؓ آپ ﷺ کو اپنے کاندھوں پر اٹھالینا، غار کی صفائی کرنا،
ایک سوراخ جو کے کھلا رہ گیا تھا اس پر حضرت ابو بگر صدیق ؑ کا اپنی ایڑی
رکھنا، سانپ کا کاٹنا، شدت تکلیف سے آنسوؤں کا آپﷺ کے چہرہ مبارک پر ٹپک
پڑنا، آؓنحضرت ﷺکا ایڑی پر دہن مبارک لگا دینا ، غار کے منہ پر مکڑی کا
جالا بنا دینا، کبوتری کا گھونسلہ بنا کر انڈے دیدینااور اپنے رفیق اور غار
کے ساتھی کو فکر مند دیکھ کر آپ ﷺ کا یہ کہنا ’’آپ فکر نہ کریں اﷲ ہمارے
ساتھ ہے‘‘ ۔ حضرت ابو بکر صدیقؑ کی بیٹی حضرت اسماء کا آنحضرت ﷺ اور اپنے
والد بزرگوار کو خوراک پہنچانا، حضرت ابو بکر صد یق ؓ کے بیٹے عبدا ﷲ بن
ابو بکر کا رات کی تاریکی میں غار میں معلومات پہنچانا، آپ کے غلام عامر بن
فہیرہ کا غار کے ارد گرد بکریاں چرانااور حضرت عبداﷲ بن ابو بکر سے تعلق
رکھنا یہ سب باتیں اور واقعات اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں ۔ مسلمان گھرانے
کا کوئی بھی فرد ایسا نہ ہو گا جو ان واقعات سے واقف نہ ہو۔
یہ وہی متبرک و محترم پہاڑ ہے جس کا ذکر پروردگار نے کلام مجید میں نبی
کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے رفیق غار حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے ساتھ اس
طرح کیا ۔(ترجمہ) ’’اگر تم نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی مدد نہیں
کروگے تو نبی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اس کی مدد کی
جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا اور وہ دونوں شخص ( نبی کریم صلی اﷲ علیہ و
آلہ وسلم اور یارِ غار حضرت ابوبکرصدیقؓ ) غار میں چھپے ہوئے تھے اور نبی
اپنے ساتھی (حضرت ابوبکر صدیق) سے کہہ رہے تھے ’’غم نہ کر اﷲ ہمارے ساتھ
ہے‘‘۔(سورۃ التوبہ ۴۰)
نظریں پہاڑ پر تھیں اور سوچ کا دھارا اپنے پیارے نبی ﷺ اور رفیقِ نبیؑ کے
پہاڑ پر چھڑنے اور تین دن قیام تک کے لمحات کو ایک ایک کرکے نظروں سے
گزارتا رہا۔ کس راستے سے آپ ﷺ اوپر چھڑ ے ہوں گے، ہو سکتا ہے جہاں میں اس
وقت اپنی شریک حیات شہناز کے ہمراہ موجود ہوں آپ ﷺ اپنے رفیق حضرت ابو بکر
صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہا اسی جگہ سے ہوکر پہاڑ پر گئے ہوں۔ جو راستہ مجھے
نظر آرہا ہے ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ اسی راستے سے اوپر چڑھے ہوں، یقناً آپ نے
اوپر چھڑتے وقت اس پہاڑ پر اپنی نظریں تو ضرور ڈالی ہوں گی جس پر اس وقت
میری نظر مرکوز ہے۔ اپنی اس سعادت پر فخر کرتے ہوئے غار ثور کے مکمل واقعے
کا احاطہ کرتا رہا۔ پہاڑ کی قسمت پر رشک کرتا رہا اس غار میں موجود پتھروں
کے بارے میں سوچتا رہا، خوش قسمت مکڑی کے بارے میں خیال آیا، اس کبوتری کا
خیال آیا جس نے اپنا گھونسلو بنایا اور انڈے بھی دیدئے۔غار میں آپ ﷺ کے
ساتھی حضرت ابوبکر صدیقؑ کی عظمت اور نبی ﷺ سے عقیدت و محبت کا کیا کہنا،
بے مثال اور بے بہا، عقیدت و محبت کا سمندر، حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق
کی بہادری کا خیال آیا کہ وہ کس طرح رات کی تاریکی میں اس پہاڑ پر چھڑا
کرتی ہوں گی اور اپنے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اوراپنے والد
بزرگوار کو طعام و غذا پہنچاتی ہوں گی۔ حضرت عبداﷲ بن ابو بکر صدیق ؓ کس
طرح اپنی جان کو خطرے میں ڈا ل کر رات کی تاریکی میں پہاڑ پر آنا جانا کیا
کرتے ہوں گے۔ وہ دن بھر مکہ میں مشرکین کے درمیان میں رہتے اور رات میں غار
آجایا کرتے اور کفار کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے غار کے مکینوں کا آگاہ
کیا کرتے ۔ ابو بکر صدیقؓ ؓکے غلام عامر بن فہیرہؓ کی سعادت مندی اور حکمت
علمی کا خیال آیا ،وہ دن بھر بکریاں چراتے اور شام ہوتے ہی بکریوں کے ریوڑ
کو غار کے پاس لے آتے تاکہ مکین غار ان بکریوں سے دودھ لے سکیں اور صبح
ہوتے ہی عبداﷲ بن ابو بکر صدیق کے پیچھے پیچھے اپنی بکریوں کو واپس نیچے لے
آتے ۔ اس عمل کے پیچھے یہ حکمت تھی کہ جب عبداﷲ غار سے واپس ہوں تو بکریوں
کے ریوڑ ان کے پیروں کے نشانات مٹا دیں تاکہ کفار مکہ کو یہ معلوم نہ ہوسکے
کہ اس راستے پر کسی کا آنا جانا ہو رہا ہے۔ اﷲ اﷲ کیا حکمت عملی تھی۔ ان
خیالات کے ساتھ میں نے اس عظیم پہاڑ کے ایک ایک چھوٹے بڑے پتھر ، ریت اور
کنکر سے اپنے پیارے نبیﷺ اور آپ کے یار غار حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی
خوشبواور احساس کو اپنے جسم میں سرائیت کرتے محسوس کیا۔ مجھے ایسا محسوس
ہوا کہ میں بھی اس پہاڑ کا ایک ادنیٰ سا پتھر بن گیا ہوں اے کاش میری عقیدت
و محبت کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوجائے۔ ٹیکسی والے نے چلنے کے لیے کہا۔
دل نہ چاہتے ہوئے بھی ہم نے اس غار کو اس پہاڑ کو نم آنکھوں، دکھی دل کے
ساتھ خدا حافظ کیا اور اگلی منزل کی جانب چل دیے۔
اگلی منزل کی جانب ٹیکسی رواں دواں تھی لیکن میری سوچ کا دھار ا سفر ہجرت
کے آغاز پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا دشمن سے اس طرح پس پردہ
رہنا ، تین دن بہ ظاہر تاریک غار میں گزارنا مالک کائینات کی کیا حکمت تھی۔
اس کے لیے اپنے نبی ؑ کو پلک جھپکتے مکہ سے مدینہ پہنچادینا کوئی مشکل بات
نہ تھی ۔ اﷲ تعالیٰ اپنے کسی فرشتے کو حکم دیتا وہ یہ کام پلک جھپکتے میں
کردیتا، کوئی براق بھیج کر بھی یہ کام کرسکتا تھا۔پھر اپنے پیارے نبیﷺ کو
اس مشکل سے کیوں دوچار کیا گیا ۔ در اصل اﷲ کی حکمت اور نبی کریم صلی اﷲ
علیہ و آلہ وسلم کا ہر ہر عمل ہمارے لیے حکمت اور روشنی کا پیغام لیے ہوئے
ہے۔ اس عمل سے ہمیں ایک پیغام ، ایک سبق دینا تھا کہ دشمن سے کس طرح نبرد
آزماں ہوا جائے، جنگ کی صورت میں، دشمنی کے صورت میں کس طرح اپنی حفاظت کی
جائے، جان بچانا، مخالفین اور مشرکین کی آنکھوں میں کس طرح دھول چھونک کر
اپنی حفاظت کی جاسکتی ہے۔ بے شک اﷲ کی ہر بات میں حکمت ہے۔
محمد عبد المعبود نے اپنی کتاب ’تاریخ المکۃالمکرم‘ میں اس پہاڑ کے بارے
میں لکھا ہے کہ یہ پہاڑ ۷۵۹ میٹر اونچا اور حرم سے تقریباً ۴کلو میٹر دور
ہے۔ اس پہاڑ کے قریب ثور بن عبد نے اقامت اختیار کی تھی جس کے باعث اس پہاڑ
کا نام ثور مشہور ہوگیا۔ غار ثور کی لمبائی ۱۳۶ فٹ یعنی ۴ میٹر سے کچھ زائد
جب کہ اس کا منہ ۹․۳ فٹ لمبا تھا اور منہ کی چوڑائی صرف ۹ انچ تھی۔
لوگوں کے بکثرت داخل ہونے اور نکلے کے باعث اس وقت منہ تقریباً ایک میٹر
کشادہ ہوچکا ہے۔(صفحہ ۳۳۷) |
|