محاذ آرائی کی سیاست.... بحران کی جانب پیش قدمی؟

ان دنوں دو انقلابیوں کی وجہ سے ملکی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ تحریک انصاف اپنے سربراہ عمران خان کی قیادت میں، جبکہ عوامی تحریک اپنے قائد طاہر القادری کی قیادت میں گزشتہ چند روز سے اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ کچھ بے آسرا چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی غیر آئینی و غیر جمہوری طریقے سے حکومت کو گرانے کے لیے ان دو انقلابیوں کے ساتھ کندھے ملائے ہوئے ہیں۔ تمام تگ و دو کے باوجود عمران خان و طاہر القادری اپنے دعوے کے مطابق دس دس لاکھ لوگوں کو تو کیا ایک ایک لاکھ کو بھی اسلام آباد میں جمع نہ کرپائے۔اب ایک طرف تو جمہوری لیڈر عمران خان کو دس لاکھ افراد کے دعوے کے مقابلے میں صرف تین فیصد افراد کی آمد سے مارچ کے ناکام ہونے کی فکر دامن گیر، جبکہ دوسری جانب اس پر طرفہ تماشا یہ کہ لیڈروں کی جانب سے دور دراز سے آئے کارکنوں کو ہفتے کے روز تنہا چھوڑ دینے پر بہت سے نالاں ہیں، کیونکہ عمران خان نے اعلان کیا: ”ہم اس وقت واپس نہیں جائیں گے، جب تک وزیراعظم نواز شریف مستعفی نہیں ہوجاتے، مگر وہ یہ بھول گئے کہ ان کے حامیوں خاص طور پر وہ جو دور دراز کے علاقوں سے آئے ہیں، ان کے پاس کہیں جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں اور انہیں اپنی رات کشمیر ہائی پر ہی گزارنا پڑے گی۔ اس کے ساتھ پی ٹی آئی کے دیگر رہنما جو شریف خاندان کی ”بادشاہت“ کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، وہ بھی گھروں کو واپس چلے گئے، جاوید ہاشمی اور چیئرمین عمران خان نے سونے کے لیے بنی گالا کا رخ کیا، دونوں پارٹی رہنماﺅں کے اسلام آباد کے نواح میں واقع اس خوبصورت علاقے میں رہائشگاہیں ہیں۔ وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور قومی اسمبلی کے رکن اسد عمر نے آرام کے لیے ایف 8 کی ایک رہائشی عمارت کے اپارٹمنٹس کا انتخاب کیا، جبکہ سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کے بارے میں کہا جارہا ہے، وہ ایف6 میں اپنے گھر چلے گئے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کی ترجمان شیریں مزاری نے بھی ایف6 میں اپنے گھر کا رخ کیا۔ کے پی کے کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور ان کی پوری کابینہ نے میرٹ ہوٹل کے سامنے واقع کے پی کے ہاﺅس کو پسند کیا، جبکہ لاہور سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی شفقت محمود پارلیمنٹ لاجز جا پہنچے۔ پی ٹی آئی کی سنیئر رہنما فوزیہ قصوری اس بات سے متفق ہیں کہ اگر عمران خان کو آرام کی ضرورت تھی تو بھی دیگر رہنماﺅں کو مظاہرین کے ساتھ ہی رہنا چاہیے تھا۔ یہ دانشمندانہ اقدام نہیں کہ پارٹی کارکنوں کو تنہا چھوڑ دیا جائے۔
ہفتے کے روز دونوں ”انقلابی لیڈر“ ملک کی روایتی سیاست کو برے طریقے سے روندتے ہوئے انتہائی جارحانہ انداز میں حکومت کو گرانے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں اور وزیر اعظم کو استعفا نہ دینے کی صورت میں اپنے کارکنوں کو اشتعال دلاتے ہوئے زبردستی ریڈزون میں گھس جانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ عمران خان نے اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب عوام کے اس سمندر کو کوئی نہیں روک سکتا، نواز شریف کے استعفیٰ سے کم پر بات نہیں ہوگی، کیونکہ ہم نوازشریف کا استعفیٰ لینے یہاں آئے ہیں، جب تک وہ استعفیٰ نہیں دیتے اسلام آباد میں ہی موجود رہیں گے اور یہاں وہ ہوگا کہ لوگ تحریر اسکوائر کو بھول جائیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ نوازشریف یاد رکھیں کہ میں فاسٹ بولر رہا ہوں اور فاسٹ بولر کا صبر زیادہ نہیں ہوتا، اگر وزیراعظم نے استعفیٰ نہ دیا تو عوام کا سمندر ریڈزون سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیراعظم ہاؤس بھی پہنچ سکتا ہے، کیونکہ میں نے تحریک انصاف کے جنون کو کنٹرول کیا ہوا ہے اور جنون کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب اس سے کچھ دیر قبل ہی طاہرالقادری نے 20 نکاتی مطالبات پیش کیے، جن میں سرفہرست وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کے استعفے سمیت ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا اور قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلوں کو فوری تحلیل کرنے کی بات کی۔ وسط مدتی انتخابات کو مسترد کیا اور کہا کہ اگر 10 یا 20 حلقے کھولنے کی بات ہوتو وہ بھی نہیں مانتے۔ نئی تشکیل پانے والی قومی حکومت کے ذریعے ملک کے غریبوں کو معاشی طور پر استحصال کو ختم کرنے کے لیے 10 نکاتی سوشو اکنامک ایجنڈے کا نفاذ، عوام کو سود کے بغیر قرضے دینے، ہر شخص کو روٹی اور کپڑا مہیا کرنے، بے روزگار کو روزگار دیے جانے،، ہیلتھ پالیسی رائج کر کے ہر غریب کو مفت علاج مہیا کیے جانے، ملک کے ہر بچے اور عمر رسیدہ شخص کو مفت تعلیم فراہم کرنے، بنیادی ضروریات کی تمام اشیا آدھی قیمت پر فراہم کیے جانے، خواتین کو گھروں کے اندر ہوم انڈسٹری کی شکل میں معاشی تحفظ دیے جانے، دہشتگردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خاتمے، ملک میں ہزاروں امن ٹریننگ سینٹر قائم کیے جانے، تعلیمی نصاب سے انتہا پسندی پر مبنی مواد نکال کر نصاب میں امن اور برداشت کے مضامین کو شامل کیے جانے، اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیے جانے اور ملک میں مزید صوبے بنانے کے مطالبات کیے اور اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے حکومت کو اڑتالیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ اگر اڑتالیس گھنٹے میں مطالبات پورے نہ ہوئے تو پھر فیصلہ عوام کریں گے۔ مبصرین نے دونوں رہنماﺅں کے بیانات کو غیر جمہوری، غیر دانشمندانہ اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ملک و قوم کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں لیڈر جو طرز اپنا رہے ہیں ، اس سے اشتعال اور تصادم کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا، دونوں حکومت گرانے پر تو مصر ہیں، لیکن یہ نہیں بتا پارہے کہ حکومت کیوں گرا دی جائے، کیا آئین میںحکومت گرانے کا یہ طریقہ لکھا ہے کہ جب چند ہزار افراد حکومت سے استعفے کا مطالبہ کریں تو حکومت کو ختم کردیا جائے، اس طرح تو کبھی بھی کوئی حکومت قائم نہیں رہ سکتی، کیونکہ ہر بار کوئی نہ کوئی لیڈر اپنے کارکنوں کو لے کر اسلام آباد میں دھرنا دے دے اور حکومت کو ختم کرنے کا مطالبہ کردے، دونوں لیڈروں کا یہ طرز عمل سراسر غیر جمہوری ہے۔ قادری صاحب کی تو کوئی بات ہی سمجھ میں نہیں آتی، کیونکہ ایک طرف تو وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ سب سے پہلے ساری حکومت کو گرفتار کر لیا جائے، جبکہ دوسری جانب مطالبات کی ایک طویل لسٹ سنا دی ہے، کوئی ان سے پوچھے جب آپ سب سے پہلے حکومت کو ہی ختم کررہے ہیں تو پھر یہ مطالبات کون پورے کرے گا؟
دونوں رہنماﺅں کے غیر آئینی و غیر جمہوری بیانات آنے کے بعد انہیں ہر طرف سے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ نامورقانون دان اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدرعاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اکٹھاکرکے حکومت کو یرغمال بناناسنگین مذاق ہے ، اس پورے کھیل میں امپائر اور کھلاڑی عمران خان ہی ہیں ، تحریک انصاف کے چیئرمین سیاسی اداروں کوکمزورکرنے کی کوشش کررہے ہیںاور غیرآئینی مداخلت کو دعوت دے رہے ہیں، کپتان کو تہذیب کے دائرے میں رہ کر سیاست کرنی چاہیے۔ وکلاءکے اہم اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے کہ اگرکوئی غیرآئینی اقدام ہوا توہم سڑکوں پر نکلیں گے۔ عمران خان اورقادری کے موقف میں یکسانیت نہیں، طاہر القادری کہتے ہیں کہ الیکشن ہی نہ ہوں، پھرآرٹیکل62اور63میں جو آئے گا، اس کے الیکشن ہوں ،تو میں دعویٰ کرتی ہوں کہ عمران خان اور طاہر القادری 62 اور 63 پورا اتر کر دکھائیں، اگر وہ پورے اترتے ہیں، کسی بھی غیر جانبدار ادارے کے ذریعے الیکشن کرالیں گے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ طاہر القادری نے کہا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں اور اسمبلیاں تحلیل کردیں، لیکن اس کی انھوں نے کوئی وجہ نہیں بتائی ، کیا کسی کی خواہش کے مطابق یہ سب کچھ کردیا جائے، ایسا ممکن نہیں ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ آزادی و سونامی مارچ کا وقت گزر چکا ہے، اب آزادی نہیں ناچ مارچ ہے، حکومت کے خلاف سازش پر مقدمات درج کیے جائیں۔ رہنما مسلم لیگ (ن)مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ چارٹرآف ڈیمانڈ ٹریڈ یونین میں ہوتا ہے۔ آپ کے کہنے پر یہ سب کیوں کریں؟ یہ آئینی ہیں یا غیر آئینی، یہ بعد کی بات ہے۔دوسری بات یہ کہ وہ کس سے مطالبہ کررہے ہیں کہ حکومتیں ختم ہوجائیں، چلے جائیں یہ کس کو کہہ رہے ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری دونوں قلابازیاں کھانے کے ماسٹر ہیں۔

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک معاملات کو مطالبات تک ہی محدود رکھیں اور حکومت کو دیے گئے اپنے الٹی میٹم واپس لیں۔ ریڈ زون میں داخل ہونے، حکومتی تنصیبات پر یلغار کرنے اور انھیں کسی قسم کا نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ دونوں جماعتیں تشددکا ہرراستہ اورطریقہ اختیارکرنے سے گریز کریں۔ حکومت بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج کرنے والی جماعتوں سے مذاکرات کا فی الفورآغاز کرے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کہتے ہیں کہ آئین نے ہی ملک کی مختلف قومیتوں اور مسالک کو جوڑ کر رکھا ہے، اس لیے کسی قیمت پر آئین کو توڑنے اور جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ اسلام آباد میں جوکچھ ہورہا ہے، اس سے پوری قوم پریشان ہے کہ ملک کس نہج پر جارہا ہے اور جمہوریت کا کیا مستقبل ہے۔ جبکہ اس موقع پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہمیں آئین اور جمہوریت سے ہرگز ناامید نہیں ہونا چاہیے، وہ پ ±رامید ہیں کہ ہم بہتری کے راستے پرجائیں گے، کیونکہ لاہور سے چلنے والے دونوں لانگ مارچ انتہائی پرامن طریقے سے اسلام آباد پہنچے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی حالات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن اے این پی اپنی سیاسی روایات اور اقدار کے مطابق ہر صورت میں جمہوریت اور آئین کا تحفظ کرے گی، کیونکہ اسلام آباد میں بعض لیڈر جو مطالبات کر رہے ہیں، ان سے بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور وہ کسی کے ٹریپ میں آ گئے ہیں، جن کی ایما پر وہ اسلام آباد آئے تھے، اب وہ ان سے لاتعلق ہو گئے ہیں اور لوگوں سے پوچھ رہے ہیں کہ انہیں دھکا کس نے دیا تھا۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700820 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.