بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
نماز صرف عربی میں:
حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کے اقوال وافعال کی روشنی میں علماء کرام نے
تحریر فرمایا ہے کہ تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک جو کچھ نماز میں
پڑھا جاتا ہے بلکہ نماز سے قبل یعنی اذان واقامت کا بھی عربی زبان میں ہی
پڑھنا ضروری ہے۔ حتی کہ علماء کرام کی ایک بڑی جماعت نے تحریر کیا ہے کہ
سجدہ کی حالت میں اور نماز کے آخر میں درود سے فراغت کے بعد عربی زبان میں
وہی دعائیں پڑھنی چاہئیں جو قرآن کریم میں وارد ہیں یا حضور اکرم ﷺ سے ثابت
ہیں۔ قرآن وحدیث میں وارد دعاؤں کے علاوہ عربی زبان میں نماز میں دعائیں
مانگنے کو علماء کرام نے مکروہ قرار دیا ہے، بلکہ علماء کرام کی ایک جماعت
نے عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نماز کے اندر دعائیں پڑھنے پر نماز کے
اعادہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے ہمیں نماز میں تکبیر تحریمہ سے لے کر
سلام پھیرنے تک عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں کچھ نہیں پڑھنا
چاہئے کیونکہ حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کے زمانہ میں لوگ جوق در جوق
اسلام میں داخل ہورہے تھے حتی کہ عجمیوں کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا
مگر ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں حضور اکرم ﷺ یا کسی صحابی نے عربی
کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نماز پڑھنے کی یا نماز میں کسی دوسری زبان میں
دعا مانگنے کی اجازت دی ہو بلکہ صحابۂ کرام پھر تابعین اور تبع تابعین نے
حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں تمام عرب وعجم کو عملی طور پر
یہی تعلیم دی ہے کہ نماز میں سورۃ الفاتحہ، تلاوتِ قرآن ، رکوع وسجدہ کی
تسبیحات، تشہد ، درود اور مخصوص دعائیں صرف عربی زبان میں ہی پڑھنی ہیں۔
احکام شرعیہ کی بنیاد عقل پر نہیں کہ کس کو صحیح یا غلط سمجھتی ہے بلکہ
قرآن کریم میں وارد احکام اور صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین وغیرہ سے
منقول حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال یعنی احادیث نبویہ پر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سجدہ کے
دوران اور نماز کے آخر میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، لیکن صحیح مسلم میں ہے
کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشا د فرمایا: اِنَّ ہذِہِ الصَّلَاۃَ لَا ےَصْلُحُ
فِےْہَا شَےْیءٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ، اِنَّمَا ہُوَ التَّسْبِےْحُ
وَالتَّکْبِےْرُ وَقِرَائۃُ الْقُرْآنِنماز میں لوگوں کے کلام سے کوئی چیز
صحیح نہیں ہے بلکہ نماز میں صرف اﷲ کی تسبیح اور تکبیر اور قرآن کریم کا
پڑھنا ہے۔ (صحیح مسلم: باب تحریم الکلام فی الصلاۃ ونسخ ما کان من اباحتہ)
اسی لئے نماز کے دوران سلام کا جواب دینا یا کسی چھینکنے والے کے الحمد ﷲ
کہنے کے جواب میں یرحمک اﷲ کہنا صحیح نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ
نمازمیں صرف وہی دعائیں مانگی جائیں جو قرآن کریم میں وارد ہیں یا جن کا
پڑھنا حضور اکرم ﷺ سے ثابت ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں حضرت امام ابوحنیفہ
ؒ اور علماء احناف کی رائے کتابوں میں مذکور ہے، چنانچہ مختلف فیہ مسائل
میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے کو ترجیح دینے والے ہند وپاک کے علماء نے
بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ نماز میں دنیاوی امور سے متعلق دعائیں نہ کی
جائیں بلکہ عربی زبان میں صرف وہی دعائیں مانگی جائیں جو قرآن کریم میں
وارد ہیں یا حضور اکرم ﷺ سے ثابت ہیں۔ سجدہ کی حالت اور نماز کے آخر میں
درود پڑھنے سے فراغت کے بعد کے علاوہ متعدد مواقع ہیں کہ جن میں کی گئی
دعائیں قبول کی جاتی ہیں، جیسا کہ حضور اکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ اذان اور
اقامت کے درمیان کی جانے والے دعا رد نہیں ہوتی ہے، لہذا اس وقت خوب دعائیں
کرو۔ (ترمذی، مسند احمد، ابوداود، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان) اس لئے
نماز کے اندر اپنی دنیاوی ضرورتوں کو نہ مانگا جائے بلکہ نماز کے باہر بے
شمار اوقات اور حالات ہیں جن میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، ان اوقات وحالات
میں اپنی، اپنے بچوں اور گھر والوں کی دنیاوی ضرورتوں کو خوب مانگیں۔
حنبلی مکتب ِفکر کی مشہور کتاب (الانصاف) میں تحریر ہے کہ وہ دعائیں جو
قرآن کریم میں وارد نہیں ہیں یا حضور اکرم ﷺ سے ثابت نہیں ہیں اور اخروی
امور سے متعلق نہیں ہیں تو صحیح مذہب یہی ہے کہ نماز میں اس طرح کی دعائیں
نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس نوعیت کی دعاؤں سے نماز باطل ہوجاتی ہے، اکثر
علماء کی یہی رائے ہے۔
حنبلی مکتب فکر کے مشہور عالم علامہ ابن قدامہ ؒ نے اپنی کتاب (المغنی ۲ /
۲۳۶) میں تحریر کیا ہے کہ نماز میں ایسی دعائیں کرنا جائز نہیں جن کا تعلق
دنیا کی لذتوں اور شہوتوں سے ہے اور جن کا تعلق انسانوں کے کلام اور ان کی
خواہشوں سے ہے۔
مذکورہ بالا دلائل اور علماء امت کے اقوال کی روشنی میں مسئلہ واضح ہوگیا
کہ اگر ہم اپنی نماز کے اندر (یعنی سجدہ کی حالت میں اور آخری رکعت میں
درود پڑھنے کے بعد) دعا کرنا چاہتے ہیں تو عربی زبان میں صرف وہی دعائیں
مانگیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے یا جن کا پڑھنا حضور اکرم ﷺ سے ثابت ہے۔
جن حضرات کو ایسی دعائیں یا د نہیں ہیں تو ان کے لئے نماز کے علاوہ بے شمار
اوقات وحالات ہیں جن میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، مثلاً اذان واقامت کے
درمیان کا وقت، فرض نماز سے فراغت کے بعد وغیرہ وغیرہ، ان اوقات وحالات میں
جتنا چاہیں اور جس زبان میں چاہیں اپنی اور اپنے بچوں کی دنیاوی واخروی
ضرورتوں کو اﷲ تبارک وتعالیٰ سے مانگیں، وہ قبول کرنے والا ہے۔
خطبہ صرف عربی میں:
نماز میں سورۃ الفاتحہ، تلاوت قرآن اور رکوع وسجدہ کی تسبیحات وغیرہ کی طرح
جمعہ اور عیدین کا خطبہ بھی صرف عربی زبان میں ہونا چاہئے کیونکہ خطبہ میں
وعظ ونصیحت سے زیادہ اﷲ کا ذکر مقصود ہوتا ہے۔ چنانچہ نمازِ جمعہ کے لئے
خطبہ کا ضروری ہونا، خطبہ پڑھنے کے لئے ظہر کے وقت کا ضروری ہونا، خطبہ کا
نمازِ جمعہ سے قبل ضروری ہونا، خطبہ سے فراغت کے بعد بلا تاخیر نمازِ جمعہ
کا پڑھنا، خطبہ کے دوران سامعین کا گفتگو نہ کرنا حتی کہ کسی کو نصیحت بھی
نہ کرنا، نیز نماز کی طرح بعض احکام کا مسنون ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے
کہ خطبہ میں اصل مطلوب اﷲ تعالیٰ کا ذکر ہے اور وعظ ونصیحت کی حیثیت ثانوی
ہے کیونکہ وعظ ونصیحت کے لئے یہ تمام شرطیں ضروری نہیں ہیں۔ قرآن کریم،
سورۃ الجمعۃ (فَاسْعَوْا اِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ) میں وارد ذکر کے لفظ سے اس
کی تأیےد ہوتی ہے، نیز صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہے کہ جب امام خطبہ کے
لئے نکلتا ہے تو فرشتے ذکر سننے کے لئے مسجد کے اندر آجاتے ہیں۔ غرضیکہ
قرآن وحدیث میں نماز کی طرح خطبہ کو ذکر سے تعبیر کیا ہے یعنی خطبہ نماز کی
طرح اﷲ کا ذکر یعنی عبادت ہے، لہذا ہمیں خطبہ دینے کے لئے انہیں امور پر
انحصار کرنا چاہئے جن کا ثبوت حضور اکرم ﷺ سے ملتا ہے۔
اگر جمعہ کا خطبہ کسی دوسری زبان میں دینا جائز ہوتا تو حضور اکرم ﷺ سے
پوری زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ اس کا ثبوت ملتا، لیکن تمام عمر نبوی
میں اس قسم کا ایک واقعہ بھی مروی نہیں ہے۔ آپﷺ کے بعد صحابۂ کرام بلاد عجم
میں داخل ہوکر دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئے۔ ان صحابۂ کرام کے خطبوں کے
الفاظ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں، ان میں کسی ایک صحابی نے زندگی میں
ایک مرتبہ بھی بلاد عجم میں داخل ہونے کے باوجود مخاطبین کی زبان میں جمعہ
کا خطبہ نہیں دیا، حالانکہ وہ لوگ احکام شرعیہ سے واقفیت کے لئے آج سے کہیں
زیادہ محتاج تھے۔ بہت سے صحابۂ کرام دوسری زبانیں بھی جانتے تھے مگر کسی نے
عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں جمعہ کا خطبہ نہیں دیا۔ حضرت زید بن
ثابت رضی اﷲ عنہ مختلف زبانیں جانتے تھے، اسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ
عنہ فارس کے رہنے والے تھے، حضرت بلال رضی اﷲ عنہ حبشہ کے اور حضرت صہیب
رضی اﷲ عنہ روم کے باشندے تھے، بعض صحابۂ کرام کی مادری زبان عربی کے علاوہ
دوسری تھی مگر تاریخ میں ایک واقعہ بھی نہیں ملتا جس میں عربی زبان کے
علاوہ کسی دوسری زبان میں کسی صحابی نے جمعہ کا خطبہ دیا ہو۔ صحابۂ کرام کے
بعد تابعین اور تبع تابعین نے بھی عربی زبان میں ہی خطبہ دینے کے سلسلہ کو
جاری رکھا۔ کسی مشہور محدث یا مفسر سے بھی عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری
زبان میں خطبہ جمعہ پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ سیاسی وانتظامی امور کے
لئے مختلف زبانوں کے ترجمان بھی رکھے گئے مگر ایک مرتبہ بھی خطبہ کسی دوسری
زبان میں نہیں پڑھا گیا۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے بعض مقاصد کے
لئے اپنے پاس ترجمان رکھے تھے مگر ایک مرتبہ بھی انہوں نے خطبہ عربی کے
علاوہ دوسری زبان میں نہیں دیا۔
بر صغیر کی اہم ومعروف شخصیت جن کو ہندوپاک کے تمام مکاتب فکر نے تسلیم کیا
ہے یعنی شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ (۱۷۶۲م) نے اپنی شرح موطا میں
تحریر کیا ہے کہ خطبہ عربی زبان ہی میں ہونا چاہئے کیونکہ تمام مسلمانوں کا
مشرق ومغرب میں ہمیشہ یہی عمل رہا ہے باوجودیکہ بہت سے ممالک میں مخاطب
عجمی لوگ تھے۔ ریاض الصالحین کے مصنف وصحیح مسلم کی سب سے زیادہ مشہور شرح
لکھنے والے امام نوویؒ نے اپنی کتاب الاذکار میں تحریر کیا ہے کہ خطبہ کے
شرائط میں یہ بھی ہے کہ وہ عربی زبان میں ہو۔ہندوپاک کے جمہور علماء کا بھی
یہی موقف ہے کہ خطبہ صرف عربی زبان میں ہونا چاہئے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ جب مخاطبین عربی عبارت کو نہیں سمجھتے تو عربی زبان
میں خطبہ پڑھنے سے کیا فائدہ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیا گیا کہ خطبہ
میں وعظ ونصیحت سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کا ذکر یعنی عبادت ہے، اور عبادت میں
اپنے عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے صرف انہیں امور پر انحصار کرنا چاہئے جن
کا ثبوت حضور اکرم ﷺ سے ملتا ہے۔ نیز اگر یہ اعتراض خطبہ پڑھنے پر عائد
ہوتا ہے تو نماز، قرأتِ قرآن، اذان واقامت اور تکبیرات نماز وغیرہ سب پر
یہی اعتراض ہونا چاہئے بلکہ قرأت قرآن پر بہ نسبت خطبہ کے زیادہ عائد ہونا
چاہئے کیونکہ قرآن کے نزول کا تو مقصد ہی لوگوں کی ہدایت ہے، اور عمومی طور
پر ہدایت کے لئے صرف تلاوت کافی نہیں ہے بلکہ اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے،
مگر دنیا کا کوئی بھی عالم نماز میں عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں
قرأت قرآن کی اجازت نہیں دیتا۔
لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ ہم اپنے نبی ﷺاور صحابۂ کرام کی اتباع میں خطبہ
صرف عربی زبان میں دیں تاکہ کسی طرح کا کوئی شک وشبہ ہماری عبادت میں پیدا
نہ ہو، خواہ خطبہ مختصر ہی کیوں نہ ہو بلکہ خطبہ مختصر ہی ہونا چاہئے
کیونکہ احادیث کی کتابوں میں حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات مختصر خطبہ دینے کی
ہیں اور آپ ﷺ خود بھی عمومی طور پر زیادہ لمبا خطبہ نہیں دیا کرتے تھے۔ ہاں
اذانِ خطبہ سے قبل یا نماز جمعہ کے بعد خطبہ کا ترجمہ مخاطبین کی زبان میں
تحریری یا تقریری شکل میں پیش کردیا جائے تاکہ خطبہ کا دوسرا مقصد وعظ
ونصیحت بھی مکمل ہوجائے۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حضور اکرم ﷺ کی اتباع کرنے والا بنائے، آمین، ثم
آمین۔ |