17اگست پاکستان کی تاریخ کے المناک ترین ایام میں سے ایک
ہے۔1988کو طلوع ہونے والا 17اگست کا دن جب ملک عزیز پر طویل عرصہ حکمرانی
کرنے والے صدر اور پاک فوج کے سربراہ کے ساتھ پاک فوج کے لگ بھگ دو درجن
اعلیٰ افسران ایک پراسرار حادثے میں جام شہادت نوش کر گئے تھے۔افسوس سے
کہنااور لکھنا پڑتا ہے کہ قوم کی تاریخ کے اس سانحے کا لوگ آج نام تک لینے
کو تیار نہیں۔کچھ ملک و ملت سے بیزار تو کچھ ہوس اقتدارکے شکار۔حیرانی تو
یہ ہے کہ جنہیں جنرل ضیاء الحق اپنی عمر لگنے کی دعائیں دے گئے تھے ،اب وہ
بھی ہیں کہ انہیں جانتے تک نہیں ،پہچانتے نہیں۔لیکن اس سب کے باوجود کہ
جنرل ضیاء الحق کے خلاف مخصوص حلقوں کی جانب سے دن رات لکھا ،بولا جاتا ہے
لیکن عوام ہیں کہ ان کے دل سے شہید جنرل کی محبت نکالی نہیں جا سکی۔آج بھی
سوشل میڈیا پر کبھی جنرل صاحب کی تصویر لگا کر لوگوں سے ان کے تبصرے لے کر
دیکھ لیں، بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ان سے آج بھی لوگ کتنی محبت کرتے
ہیں۔وہ کہ جس کے لئے سارا پاکستان ہی نہیں ،سارا عالم اسلام رویا تھا ،جس
کا جنازہ آج بھی ہمارے ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ کہا جاتا ہے ،وہ
شخص آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ و تابندہ ہے۔
جنرل ضیاء الحق 12اگست 1924ء کو جالندھر میں غریب کسان محمد اکبر کے ہاں
پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ 1945ء میں فوج میں کمیشن
ملا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برما ، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام
دیں۔آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے
پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوئے۔ 1960 تا 1968
ایک کیولر رجمنٹ کی قیادت کی۔ مئی 1969ء آرمرڈ ڈویڑن کا کرنل سٹاف اور پھر
بریگیڈیر بنا دیا گیا۔ 1973 میں میجر جنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹیننٹ
جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر کور کمانڈر بنا دیا گیا۔ یکم مارچ 1976ء کو
جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر پاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔
1977کے انتخابات میں کھلی دھاندلی کے بعد جب ملک میں کشت و خون کا بازار گر
م ہو ا اور چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبات تک میں کرفیو لگانے کی نوبت آئی تو
انہیں بادل نخواستہ اقتدار سنبھالنا پڑا۔یہ وہ دور تھا جب بلوچستا ن میں
علیحدگی کی تحریک زوروں پر تھی۔صوبہ سرحد میں اے این پر پابندی تھی۔سندھ
میں الگ ملک بنائے جانے کے نعرے عام تھے۔پھر ساتھ ہی روس نے افغانستان پر
حملہ کر کے اپنے اصل منصوبے یعنی پاکستان کے راستے گرم پانیوں تک پہنچنے کے
اپنے ارادے ظاہر کر دیئے تھے۔جنرل ضیاء الحق نے ان سارے محاذوں کو ایک ساتھ
سنبھال کر ایسی شاندا ر حکمت عملی اپنائی کہ ملک کے باغی دیکھتے ہی دیکھتے
ملک کے وفادار سپاہی بن گئے۔کوئی بھول جائے لیکن تاریخ میں رقم ہے کہ جب
انہوں نے جب اے این پی کو گلے لگایا تو بیگم نسیم ولی خان مٹھائی کے ٹوکرے
لے کر ایوان صدر پہنچی تھیں۔
انہوں نے روس اور بھارت کی جانب سے ملک کوخطرات کا احساس کرتے ہوئے اور
افغانستان کے مسلمان بھائیوں کی خاطر افغان مجاہدین کی مدد کرنے کا فیصلہ
کیااورطویل جدوجہد کے بعد دونوں ملکوں کو بچا لیا۔کچھ لوگ انہیں بدنام کرنے
کے لئے امریکہ کو افغان جہاد کا روح رواں ٹھراتے ہیں لیکن امریکہ توصرف
اپنے مفاد کی خاطر اس وقت افغان جہاد میں شامل ہوا تھا جب اسے اڑھائی سال
بعد یقین ہو گیا تھا کہ افغان مجاہدین اﷲ اورپاکستان کے سہارے روس کو شکست
دے سکتے ہیں۔اس کااعتراف بروس ریڈل نے اپنی گزشتہ ماہ آنے والی کتاب ’’ہم
نے کیا جیتا؟‘‘ "What we won" میں کھل کر کیا ہے اور لکھا ہے افغان جنگ میں
تو ایک بھی امریکی نہیں مارا گیا تھا،یہ سو فیصد پاکستان اور ضیاکی جنگ تھی
۔پھریوں ان کی عظیم کاوش کے نتیجے میں دنیا کی دوسری سپر پاور کو گھٹنے
ٹیکنے پڑے اور وہ اپنے زخم چاٹتا اس طرح واپس ہوا کہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اگر
جہاد افغانستان خدا نخواستہ ناکام ہوتا تو سوویت یونین کو پاکستان کو
روندتے ہوئے گرم پانیوں تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ ایسی صورت
میں آج پاکستان کا کیا حشر ہوتا؟ اسے تصور کرنا ہو تو ان وسط ایشیا کی مسلم
ریاستوں کو روسی تسلط کے دور میں دیکھیں، جو آج آزاد ہونے کے باوجود اسلام
اور اسلامی تعلیمات سے نا آشنا ہیں۔
ان کے دور میں پاکستان کا آئین ’’مشرف بہ اسلام‘‘ہوا۔ نظام صلوٰۃاور نظام
زکوٰۃ قائم کیا گیا۔ شراب و شباب پر پابند لگی ۔ہر جگہ نماز باجماعت کا
اہتمام کیا گیا۔پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد
پاکستان میں کمیونزم اور سوشلزم کا نام لیوا نہ رہا۔پھرجملہ پاکستانی
کمیونسٹ و سوشلسٹ امریکی گود میں جا گرے۔لیکن اب سوال یہ ہے کہ جب امریکہ
کو بھی جہاد نے بری طرح شکست دے دی ہے تو وہ کہاں جائیں گے؟
انہوں نے کشمیر میں جہاد شروع کروایا جو انکی شہادت کے وقت ایک ایسے مقام
پر پہنچ گیا تھا جب انڈیا کے لیے کشمیر کنٹرول کرنا مشکل ہوچکا تھا ۔ مشرقی
پاکستان کا بدلہ لینے کے لیے انہوں نے خالصتان کی تحریک شروع کروائی
جوبھارت میں سکھوں کا الگ ملک بنانے کے لیے تھی ۔اس کی قیادت اس سکھ جنرل
کو دی گئی جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت انڈین فورسز کا کمانڈر تھا ۔یہ
تحریک اس حد تک کامیاب ہو چکی تھی کہ انڈین فورسز فیل ہوگئی تھیں اور
خالصتان کا جھنڈا ،نقشہ، کرنسی وغیرہ سب کچھ بن چکا تھا کہ جنرل صاحب حادثے
کا شکار ہوگئے۔
جنرل صاحب نے ایٹمی پروگرام پر امریکی دباؤ کو مسترد کیااور بھارت جا کر
راجیو گاندھی کو بتایا کہ ہمارے پاس بھی ایٹم بم ہے جس پر راجیو گاندھی اور
بھارت کی ساری اکڑ فوں نکل گئی تھی۔اس حوالے سے انڈیا ٹو ڈے نے اپنے مضمون
’’ضیاء الحق کا دورہ ہندوستان ‘‘میں راجیو گاندھی کے خصوصی مشیر بہرامنام
کے تاثرات یوں لکھے تھے۔
’’ جنرل ضیاء الحق بغیر کسی دعوت کے چنائی میں کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے
دہلی پہنچے۔ اس وقت راجیو گاندھی اس کو ائر پورٹ پر ریسیو کرنے کے لیے
بالکل تیار نہیں تھے۔ انڈین افواج راجستھان سیکٹر سے پاکستان پر حملہ آور
ہونے کے لیے صرف اپنے وزیر اعظم کی حکم کی منتظر تھیں۔یوں ضیاء الحق سے
ملنا ہرگز مناسب نہیں تھا۔ لیکن کابینہ اور اپوزیشن لیڈرز کا خیال تھا کہ
بغیر دعوت بھی ضیاء الحق کی آمدپر استقبال نہ کرنا سفارتی آداب کے خلاف
ہوگا اور دنیا میں انڈیاکی بدنامی ہو گی۔یوں راجیو گاندھی ضیاء الحق سے
ملنے پہنچے اورنہایت سرد مہری سے دیکھے بغیرہاتھ ملایا۔ راجیو نے مجھ سے
کہا کہ ’’جنرل صاحب نے چنائی میچ دیکھنے جانا ہے، آپ اس کے ساتھ جائیں اور
ان کا خیال رکھیں ‘‘۔ بھگوان جانتا ہے کہ وہ شخص آہنی اعصاب کا مالک تھا
اور ہتک آمیز رویے پر بھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ قائم رہی۔
عین چنائی روانگی کے وقت ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کو کہا۔’’مسٹر راجیو!
آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ،بے شک کریں،لیکن یہ ذہن میں ضرور رکھیں
کہ اس کے بعد دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی اور صرف ضیاء
الحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی،کیونکہ یہ ایک روائتی نہیں بلکہ
ایٹمی جنگ ہوگی۔ ممکنہ طور پر اس میں پورا پاکستان تباہ ہو جائے گا لیکن
مسلمان پھر بھی دنیا میں باقی رہیں گے تاہم انڈیا کی تباہی کے بعد ہندومت
کا دنیا سے خاتمہ ہو جائے گا۔ ‘‘
راجیو گاندھی کی پیشانی پر ٹھنڈے پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے جبکہ
مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ کچھ لمحات کے لیے
ضیاء الحق ہمیں ایک نہایت خطرناک شخص نظر آیا۔ اس کا چہرہ پتھرایا ہوا تھا
اور آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے، اس پر لازمً عمل کرے
گا۔میں دہل کر رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔ پلک جھپکتے ہی ضیاء کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ
آئی اورانہوں نے کھڑے دیگر لوگوں سے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ ہمارے علاوہ
کوئی نہیں جانتا تھا کہ بظاہر ہلکے پھلکے اور خوشگوار موڈ میں نظر آنے والے
ضیاء الحق نے انڈین وزیر اعظم کے لیے شدید پریشانی پیدا کر دی ہے۔
جنرل صاحب اس دنیا سے اپنے وقت مقررہ پر چلے گئے لیکن وہ اپنے پیچھے اسلا م
و پاکستان سے محبت اور اس پر عمل کی وہ انمٹ داستاں چھوڑ گئے کہ اسے مٹانے
کے لئے امریکہ اور اس کے سارے گماشتے 26سال سے دن رات ایک کئے بیٹھے ہیں
لیکن انہیں سوائے رسوائی کے اور کچھ ہاتھ نہیں آیا۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را |