اسلام آباد میں ویسے ہی موسم ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت
ٹھنڈا رہتا ہے ۔ لیکن گذشتہ دو تین روز سے تو اسلام آباد میں بارش کے
بادلوں نے دھرنا دیا ہوا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اسلام آباد کے سیاسی موسم
کی حدت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے ……ساون ختم ہو گیا ہے اور بھادوں کے
مہینے نے بھرپور انگڑائی لی ہے ۔علامہ طاہر القادری اور عمران خاں باہمی
مشاورت سے ایک ہی وقت میں اسلام آباد پر چڑھائی کرنا محض اتفاق نہیں
باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ لگتا ہے کہ بادلوں کی چڑیا نے بھی انہیں
خبر دے دی ہوگی کہ آنے والے دنوں میں اسلام آباد میں دھرنے دینے کے پروگرام
بن چکے ہیں ۔ اس لیے بادلوں نے بھی دھرنا دینے کا منصوبہ بنا رکھا ہے ۔
علامہ طاہر القادری نے اسلام آباد اور لاہور کے حکمرانوں کو مستعفی ہونے کے
لیے اڑتالیس گھنٹوں کا الٹی میٹم دیدیا ہے۔ اور ساتھ ہی پارلیمنٹ کی تخلیل
کرنے اور قومی حکومت کی تشکیل ، وزیر اعلی پنجاب اور وزیر اعظم کی گرفتاری
کے مطالبات پیش کر دئیے ہیں۔علامہ طاہر القادری نے واضع کیا ہے کہ وہ وزیر
اعطم اور وزیر اعلی پنجاب کے استعفوں اور گرفتاری تک گھر نہیں جائیں گے
۔ادھر اپنے عمران خاں نے بھی ’’ تڑی لگادی ہے کہ سونامی وزیر اعظم ہاوس کی
جانب بھی جا سکتا ہے۔انہوں نے بڑے پیار سے کہا ہے کہ’’ میاں صاحب ! پیار سے
کہتا ہوں کہ استعفی دے دیں‘‘ عمران خاں نے وزیر داخلہ چودہری نثار علی خاں
سے بھی کہا ہے کہ اگر آپ بادشاہت کی بجائے جمہوریت چاہتے ہیں تو ہمارے ساتھ
شامل ہو جائیں‘‘عمران خاں نے یہ بھی کہا ہے کہ سترہ اگست کا دن بڑا اہم اور
فیصلہ کن ہے‘‘
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے خبر دی ہے کہ’’ حکومت پیچھے ہٹنے اور
قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائے‘‘ شیخ رشید کہتا ہے کہ حکومت کے لیے چوبیس
گھنٹے کا وقت ہے۔ جبکہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب اسلام آباد میں
دھرنوں میں پیش کیے جانے والے مطالبات کو ملکی ترقی اور جمہوریت کے خلاف
سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران قادری ملاپ جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔
دونوں کے مطالبات غیر آئینی ہیں۔عوام نے بے وقت کے مارچ اور نام نہاد
انقلاب سے لاتعلقی اختیار کرکے احتجاجی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔
وزیر داخلہ اسلام آباد میں جمع ہونے والوں کو منتشر کرنے کے لیے شوشہ چھوڑا
ہے کہ دو خود کش بمبار اسلام آباد میں داخل ہو چکے ہیں۔
لاہور کے ایڈیشنل اینڈ ڈسٹرکٹ سیشن جج راجہ اجمل خاں نے سانحہ ماڈل ٹاون کے
شہدا کے لواحقین کی درخواست منظور کرتے ہوئے 22 حکومتی شخصیات کے خلاف قتل
کا مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ اس عدالتی حکم کی زد میں آنے والی
22 حکومتی شخصیات میں آئی جی پنجاب پولیس مشتاق سکھیرا سمیت10اعلی پولیس
افسران شامل ہیں۔ جبکہ وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف،
وزیر اطلاعات پرویز رشید، وزیر دفاع خواجہ آصف، عابد شیر علی،خواجہ سعد
رفیق،وزیر داخلہ چودہری نثار علی خاں۔ وزیر اعلی پنجاب کے صاحبزادے حمزہ
شہباز شریف، سابق وزیر قاننون پنجاب رانا ثنا اﷲ،وزیر اعلی پنجاب کے پرنسپل
سکریٹری سید توقیر شاہ اور دیگر شخصیات شامل ہیں۔وزیر اطلاعات سینٹر پرویز
رشید کا کہنا ہے کہ عدالت نے وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کے خلاف مقدمہ
درج کرنے کا حکم نہیں دیا ……عدالت نے تو محض قانون کے مطابق کارروائی کرنے
کا حکم جاری کیا ہے۔ اگر وزیر اطلاعات پرویز رشید کی بات درست تسلیم کرلی
جائے تو ان خبروں کا کیا بنے گا جن میں بتایا گیا ہے کہ حکومت سیشن جج کے
فیصلے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کریگی۔؟ حکومت نے پارلیمنٹ کی
جماعتوں سے مشاورت کرنے اور احتجاج و دھرنا دینے والوں سے آئین کے اندر
رہتے ہوئے بات چیت کرنے پر اپنی آمادگی کا اظہار کیا ہے۔لیکن اسلام آباد
میں ڈیرے ڈالنے والے وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے مستعفی ہونے اور انکی
گرفتاری سے کم پر بات چیت کے لیے رضامند نہیں ہیں۔ حکومت مستعفی ہونے اور
گرفتاریاں دینے پر ڑاضی نہیں اور دھرنا دینے والے اس کے بنا واپس جانے کو
تیار نہیں……سوال اٹھتا ہے کہ آخر کار اس ساری صورت حال کا نتیجہ کیا برآمد
ہوگا؟ کیا سپریم کورٹ اس پر بھی از کود نوٹس لے گی؟ اور کو درمیانی راستہ
فریقین کو دکھائے گی؟یا پھر واقعی اسلام آباد میں آبپارہ میں مکین
’’جوانوں‘‘ کو میدان میں آنا پڑیگا؟کیا سیاسی قوتیں ٹرپل ون بریگیڈ کو کسی
ایکشن سے باز رکھنے کی صلاحتیں رکھتی ہیں؟میرے بیٹے وسیم نے اسلام آباد سے
اطلاع دی ہے کہ ماحول میں تلخی کا عنصر بڑھتا جا رہا ہے۔حکومت کو ہاتھوں سے
دی گانٹھیں اب داتوں سے کھولنی پڑ رہی ہیں ،لیکن ان سے کھل نہیں رہیں۔
آنے والے اڑتالیس گھنٹوں میں کیا ہوگا؟ اگر غیر آئینی اقدام ہوتا ہے تو کیا
ہمارا ملک اپنے ارد گرد کے حالات اور اندرونی صورت حال کے پیش نظر ’’ نئے
جنرل مشرف‘‘ کا متحمل ہو سکتا ہے؟ آج کا یہ سب سے اہم سوال ہے۔ اور سیاسی
قیادت کی سوجھ بوجھ ، دانش و فہم اور سیاسی بصیرت کا بھی امتحان ہوگا۔
حکومت کو ایک بات یاد رکھنی ہوگی کہ اسلام آباد میں دھرنے دینے والے محض
سیر سپاٹا کرنے اسلام آباد نہیں پہنچے اور نہ ہی اپنے مقاصد کو ادھورا چھوڑ
کر واپس آنے کے لیے اسلام آباد پہنچے ہیں۔اس لیے حکومت کوفیصلہ سازی میں
سرعت کا مظاہرہ کرنا ہوگا،تیل دیکھو اور تیل کی دھار یا دیکھو اور انتظار
کرو کی پالیسی نقصان دہ ثابت ہوگی۔کیونکہ آئندہ کی صورت حال کی ذمہ داری
برحال حکومت اور حکمرانوں کو ہی اٹھانی پریگی کیونکہ وہ بااختیار ہے۔ |