ملکی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ یوم آزادی متفقہ طور پر
نہیں منایاگیا اور اس یوم آزادی کو متنازعہ و بے مقصد بنانے کی کوشش کی گئی
۔اگرچہ حکومت و عسکری قیادت نے کوئٹہ میں قائد اعظم ریزڈنسی کے افتتاح کے
موقع پر جزوی یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے ،اور یہ امر ملک و قوم کے لئے خوش
آئند بھی ہے ۔لیکن پاکستان تحریک انصاف اورپاکستان عوامی تحریک کی جانب سے
بالترتیب آزادی و انقلاب مارچ کاآغاز14 اگست کو کیا گیا۔اس امر میں شبہ
نہیں تحریک انصاف کے مطالبات اور عوامی تحریک کے دس نکاتی ایجنڈا سے اختلاف
کوئی ذی شعور نہیں کرسکتا ،ہاں البتہ ان ہر دو جماعتوں کے قائدین کے طریقہ
کار ،لائحہ عمل ،خودغرضی و ہٹ دھرمی سے اختلاف ضرور کیا جاسکتاہے۔
تحریک انصاف و عوامی تحریک کی قیادت کا دھرنا اسلام آباد میں شروع
ہوچکاہے،مگر دیکھنا یہ ہے کہ آزادی و انقلاب مارچ باوجو دایجنڈے و مشن کی
درستگی کے کامیابی کی جانب گامزن ہیں یا پھر ان کو ناکامی ونامرادی کا
سامناکرنا پڑرہاہے۔اول ذکر جماعت نے گذشتہ سال کے الیکشن سے لیکر اب تک ایک
ہی نعرے کو لب پر سجایاہوا ہے کہ ہمارے ساتھ دھاندلی کی گئی ،ہم اس الیکشن
کو نہیں مانتے اور اب انہوں نے اس بات کو اپنی زبان پر جمالیاہے کہ دھاندلی
سے بننے والی حکومت کو ہم نہیں مانتے لہذا وزیر اعظم استعفیٰ دے کر نئے
الیکشن کروائیں۔اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اول تو پاکستانی عوام کا مسئلہ
دھاندلی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اس بات سے مطلب ہے کہ حکومت کون کر رہاہے
،عوام کو زندگی کی شمع روشن رکھنے کے لئے بنیادی سہولیات کی ضرورت ہے جس
میں ملک میں یکسانیت و انصاف کے ساتھ مساوانہ حقوق کی تقسیم کو بنیادی
اہمیت حاصل ہے ،طبقائیت کے خاتمے کی بات کرتے،ملک سے غربت کے خاتمہ کے لئے
سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے،بے روزگاری و جاہلت کو مٹانے کے لئے عملی
اقدامات اٹھائے جانے سے غرض ہے،آزادی مارچ کے ایجنڈے میں غریب کے ان مسائل
کو اٹھایا جاتا،ملک میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے سبب سرمایہ کاری کا
فقدان ہے جسے کنٹرول کرنے کی حاجت ہے،یہ آپریشن ضرب عضب میں فوج کے دست
بازو بنتے اور متاثرین کی ہر طرح امداد کا انتظام کرتے،بیرون ممالک سعودیہ
،دبئی ،کویت،قطر،اور مغربی ممالک میں پاکستانی ملازمین و عوام کے مجروح
تشخص کو بحال کروانا ان کی اصل حاجت ہے ۔کیا ان امور میں سے کسی ایک امر کو
تحریک انصاف نے اپنا ایجنڈا بنایا ہے ؟؟؟؟اس کا جواب یقینانفی میں ملے
گا۔تو لہذاتحریک انصاف کے کرنے کا اصل کام یہ تھا کہ وہ گذشتہ انتخابات کے
نتیجہ میں ملنے والے صوبہ میں مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں عملی اقدامات
اٹھاتے اور اس کے بعد اپنے منشور کو ملک بھر کی عوام کے سامنے رکھتے تو
عوام خود ہی موازنہ کر کے بذریعہ ووٹ موجودہ حکمرانوں کا محاسبہ کرتی مگر
انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے پورے ملک پر ایک وقت میں حکومت کرنے کی حرس و
ہوس نے نابینا کردیاہے بس وہ ایک ہی رٹ پر زور لگا ئے ہوئے ہیں کہ دھاندلی
ہوگئی ،ہم لٹ گئے ،ہم پٹ گئے،نئے الیکشن کیے جائیں ۔اسی وجہ سے تحریک انصاف
دیکھ چکی ہے کہ ان کو عوام نے بڑی بے دردی کے ساتھ تنہا چھوڑ دیاہے،ہاں یہ
الگ بات ہے کہ اب یہ اپنے منہ میا مٹھوں بنتے رہیں اور یہ کہتے رہیں کہ
ہمارے ساتھ لاکھوں لوگ موجود ہیں تو الگ امر ہے درحقیقت تحریک انصاف آزادی
مارچ کو کامیاب بنانے درحقیقت ناکام ہوچکی ہے ۔
دوسری جانب بات کریں عوامی تحریک کی تو انکے دس نکاتی ایجنڈے سے تو کوئی
اختلاف نہیں ہے البتہ چند ایک سوال ہیں وہ یہ کہ بعض امور میں وہ مبالغہ
آرائی سے کام لے رہے ہیں ،اول یہ کہ ہمارے ساتھ پاکستان کی ساری عوام شریک
ہے تو ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کے ساتھ صرف آپ کے نمک خوار لوگ موجود
ہیں باقی تو آپ کے اپنے ہم مسلک لوگ آپ کی کلابازیوں کے ماہر ہونے کے باعث
آپ پر اعتماد نہیں کرتے ،اس امر کا اندازہ موجودہ انقلاب مارچ میں شریک
عوام کی مایوس کن تعداد سے لگایا جاسکتاہے کہ ماضی کے ملین مارچ کے ڈراپ
سین سے نفرت کی بدولت عوام انہیں بھی مسترد کرچکی ہے جبکہ موجودہ مارچ میں
ان کے ساتھ اتحادی جماعتوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ اس
انقلاب مارچ کے پس منظر میں آزاد صوبہ گلگت بلتستان کا نعرہ کس کے ایما پر
لگا رہے ہیں ؟؟؟ظاہر سی بات ہے یہ نعرہ ایران کے نمک خوردہ اور گریٹر فارس
کا خواب دیکھنے والے مجلس وحدت المسلمین کا ہے،جو سراسر غلط نعرہ ہے اور اس
صورت میں بذریعہ گلگت پاکستان میں ایران کو کھلی مداخلت کرنے کا موقع دینا
مراد ہے،اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ انقلابی کارکنوں کے ہاتھوں سے جو آٹھ
اور نواگست کو ملکی املاک کا نقصان ہوا اس میں بھی ہوا اس میں بھی وحدت
المسلمین اور سنی اتحاد کونسل کے شرپسندوں کا کردار کو خاصی اہمیت حاصل
ہے،اس امر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عوامی تحریک کو چاہیے ملکی وحدت کو تار
تار کرنے کی بجائے اور وحدت المسلمین و سنی اتحاد کونسل کے شرپسندوں کو
محفوظ پناہ دینے کی کوشش ہر گز نہ کریں بلکہ اپنے ساتھ ملک پاکستان کے بلا
تقسیم مسلک کے سواد اعظم سنی مسلمانوں کے علماء و سربراہان سے مشاورت کرکے
اپنے تمام تر لائحہ عمل کو جاری رکھیں۔تیسری بات یہ ہے کہ عوامی تحریک اس
منہج کو ہر گز نہ اپنائے جس کے خلاف وہ خود آواز اٹھاتے رہے اور اس پر فتوی
بھی جاری کیا مگر افسوس آج پولیس پر جتھہ بندی کر کے حملہ کرنے کی دعوت اور
اپنے مطالبات بزوربازو منوانے کی رٹ لگارہے ہیں یہ امر قول و فعل کے تضاد
کے ساتھ ہی ملکی استحکام کو پارہ کرنے کا باعث بن رہاہے۔چوتھی بات یہ ہے کہ
انقلابی مارچ کی قیادت کو چاہیے کہ درست مطالبات کو منوانے کے لئے عوام کی
جان ومال کو خدارا داؤپر مت لگائیں حکومت اگر غلط کررہی ہے تو آپ لوگ جائز
بات کو منوانے کے لئے ناجائزعوام کا نقصان کرکے وہی خدمت سرانجام دے رہے
ہیں۔
حکومت کو بھی اب ہوش کے ناخن لینے چاہیے کہ عوام صرف میگاپروجیکٹ ،لیب ٹاپ
سکیم جیسے اقدامات سے خوش ہونے والی نہیں ہے بلکہ عوام کو بے روزگاری،کرپشن
،بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ،بدامنی ،ظلم وسربریت سے نجات چاہیے اور اس کے لئے
زبانی جمع خرچ پر ہرگز یقین نہیں کرتے ،وہ عملی اقدامات دیکھناچاہتے ہین،وہ
یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہر نوجوان کویکساں مفت تعلیم فراہم کی جائے،ملک سے
بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے ملازمتوں کے بند دروازے کھولے جائیں، ہر خاندان
کو روٹی ،کپڑااور چھت کی سہولت میسر کی جائے ،ملک سے تشدد و عدم برداشت کی
فضاکو ختم کرنے کے لئے سیاسی و مذہبی،صوبائی وعلاقائی تنظیموں کے ساتھ باہم
مشاورت کے عمل کو یقینی بناکر باہمی اتحاد ویگانگت کے لئے ٹھوس قدم اٹھایا
جائے،ظلم و جبر سے آواز دبانے کی بجائے مظلوم کی داد رسی کے لئے یکساں نظام
عدل و انصاف کو فروغ دیاجائے۔
آخر میں مارچ کے قائدین اور حکومت سے بحیثیت ایک پاکستانی فرد کے دردمندانہ
التجا کرتاہوں کہ خداراآپس میں دست وگریبان ہوکر ملک و قوم کا نقصان نہ
کیجیے ،کیوں کہ اس امر سے بھارت ،امریکہ،اسرائیل،ایران سمیت دشمن ممالک
ہمارے سیاسی مخدوش صورتحال پر تمسخر اڑارہے ہیں اوروہ ہمارے خلاف ہمیں
توڑنے اورآپس میں لڑنے جھگڑنے کی مزید منصوبہ بندی کررہے ہیں اور اس سارے
عمل سے پاکستان اور پاکستانی عوام کو تو نقصان ہوگا ہی ہوگا مگر سب سے
زیادہ نقصان ہماری نسبت کا ہورہاہے کہ ہم تو مسلمان ہیں اور اسلامی نظریاتی
ملک کے باشندے ہیں ،ہمارے حضور صلی اﷲ وعلیہ وسلم تو امت کو توڑنے نہیں
جوڑنے آئے ہیں ،حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو باہم شیر وشکر
بنادیاتھا،انصار ومہاجرین کے مابین کی ہزارسالہ نفرتوں کو مٹاکر باہم بھائی
بھائی بنا دیاتھا،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے باہم دست وگریبان اور فرقہ بندی
اختیار کرنے سے منع فرمایا تھا اور یہی قرآن مجید کی بھی تعلیم ہے ،مگر کیا
ہوا کہ ہم بوجود مسلمان ہونے کے جزوی اختلافات پر ایسے جھگڑ رہے ہیں کہ
ساری دنیا ہماراتمسخر و مذاق اڑارہی ہے ،تولہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے
سیاسی و مذہبی ،علاقائی وقومی اختلافات کے باوجود باہم پیار ومحبت کو ہاتھ
سے چھوٹنے دیں اور اختلاف کو بیان کرنے کے لئے مہذبانہ و شائیستہ طریقہ
اختیار کریں ،اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ اپنے جائز مطالبات کی منظوری
کے لئے تمام تر جائز طریقے ہی صرف اختیار کریں تاکہ ملک پاک اور اسلام کی
جانب جو ہماری نسبت ہے اس پر کوئی دشمن گندی نظرسے نہ دیکھ سکے ۔اﷲ تعالیٰ
ہی دین اسلام اور ملک پاک کا محافظ ہے۔ |