فرقہ و ارانہ فسادات روکنے کے لئے بل لمبے عرصے سے
پارلیمنٹ میں پڑا ہوا ہے اس میں اُن سارے اقدام کا تذکرہ ہے جس کے ذریعہ
قانونن فسادات روکے جا سکتے ہیں‘ لیکن مشکل تو اس بات کی ہے کہ اگر اسے پاس
ہونے کے بعد عمل میں لایا جائے گا تو اس کی زد میں زیادہ تر ہندو فرقے کے
ممبران آئیں گے اور یہ راز کھل جائے گا کہ تشدد پھیلانے میں زیادہ کس فرقے
کا ہاتھ رہتا ہے جبکہ اب تک فسادات کے شکار مسلمان زیادہ ہوتے ہیں اور بعد
میں سزا بھی انہیں ہی بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ الزامات بھی اُنہیں پر آتے
ہیں۔ فسادات مخالف بل کا پارلیا منٹ سے پاس ہونا بہت ہی مشکل ہے اور وہ بھی
اب جبکہ سنگھ پریوار کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اب تو فسادات
کا سلسلہ مزید تیز ہونے کے امکانات بھی دن بدن بڑھتے چلے جائیں گے۔ ایسی
صورت حال میں بھی ہمیں کوئی نہ کوئی تو راستہ نکالنا ہوگا تاکہ مسلمانوں کے
خلاف تشدد پیدا کرنے والوں کی حرکتوں پر شکنجہ لگے۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ
دفعہ 341میں مسلمانوں کی شمولیت سے بھی فرقہ وارانہ فسادات پر روک لگ سکتی
ہے۔ وہ اس طرح سے کہ شیڈول کاسٹ ریزریویشن کے دائرے میں آنے کے بعد مسلمان
بھی ایس سی ایکٹ( SC Act)کے دائرے میں خود بخود آ جائینگے۔ غور کیجئے کہ آج
کسی دلت پر آپ نہ تو ہاتھ اُٹھاسکتے ہیں یا نہ ہی اس کے ساتھ بد کلامی کر
سکتے ہیں۔ کوئی بھی ایسا کرنے والا ، یہ سمجھ لے کہ اُسے جیل کی ہوا کھانی
ہے ۔بشرطیکہ کہ یہ ثابت ہو جائے کہ فلاں نے ایسی حرکت کی ہے کیونکہ ایسا
کرنے پر غیر ضمانتی وارنٹ جاری ہوتا ہے جس کا ’’بیل‘‘ ہائی کورٹ ہی دیتا
ہے‘ ذیلی کورٹ کو اس مسئلے پر ضمانت دینے کا پاور ہی نہیں ہے۔ یہ قانون
دراصل 1890کی دہائی میں انگریزوں نے بنایا تھا نا کہ سماج کے دبنگ طبقوں کے
ذریعہ کمزور طبقات کے استحصال پر روک لگائی جائے تب اسے (POAA)Prevention
of atracities Actکہا جاتا تھا ۔ 1936میں جب ریزرویشن کی پالیسی قومی
پیمانے پر شروع ہوئی تو امیبڈکر صاحب کی پہل پر POAAکو بھی ریزرویشن کے
دائرے میں ہی لے لیا گیا۔ 1950میں جب یہی ریزرویشن دفعہ 341کی شکل میں آیا
تو POAAبھی اسی قانون کا ایک حصہ بن گیا ۔ لیکن دفعہ 341پر مذہبی قید لگاکر
جب اسے شیڈول کاسٹ ریزرویشن کا خطاب دیا گیا تو اُسی وقت سے POAAکو بھی
SC/ST Actکہا جانے لگا۔دفعہ 341پر بندش لگنے سے مسلمانوں کو کئی نقطہ ء نظر
سے نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ 1936سے1950تک ‘ اس ریزرویشن کے دائرے میں
مسلمانوں کا وہ طبقہ بھی آتا تھا جو دلتوں کے ہم پیشہ تھا اور بنیادی
سہولیات کے ساتھ POAAکے دائرے میں بھی آیا تھا۔ 10؍ اگست 1950کے بندش کے
بعد مسلمانوں کی پیشہ ور آبادی جہاں تعلیمی‘ اقتصادی‘ سماجی و سیاسی
سہولیات سے بے دخل ہو گئی وہیں SC/ST Actسے بھی باہر کر دی گئی۔ پھر کیا
تھا، جب چاہو،جس جگہ چاہو اور جیسے چاہو، مسلمانوں کے خلاف فسادات کرالو،
کوئی قانون تو بچانے والا رہا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں ہزار دنگے ہوئے۔
ان دنگوں سے جہاں ایک طرف مسلمانوں کی تباہی ہوئی اور یہ دلتوں سے بد تر
والی زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے، وہیں دوسری طرف مسلمانوں کے خلاف ہندو
ووٹ متحد ہوتے چلے گئے اور-6 5دہائیوں کی اسی سلسلہ کا نتیجہ ہے کہ آج ہندو
ووٹ بینک قائم ہو گیا جس کی بنیاد پر سنگھ پریوار ہندوستان کی گدی پر بیٹھ
گیا ہے۔ہندو ووٹ بینک کو اور مضبوط کرنے کے لئے فسادات کا سلسلہ پورے ملک
میں مزید قائم رکھے جائینگے تاکہ ایک وقت خدانخواستہ ایسا آئے کہ ساری
سیاسی پارٹیاں ہندو ووٹ بینک کی ہی طرف دیکھنے لگیں۔ مضبوط ہندو ووٹ بینک
قائم کر نے کیلئے چل رہے اس مہم پر بریک لگانے کے لئے فسادات پر روک ضروری
ہے لیکن اب اس مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے ہمارے پاس سوائے 341میں ترمیم
کے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کے ذریعہ جہاں ہمیں دلتوں کی طرح ریزرویشن
کی بنیادی سہولیات بھی ملنے کا راستہ کھلے گا وہیں SC/ST Actکا فائدہ بھی
ملنے لگے گا جوفسادات پرروک لگائے گا ۔ واضح ہو کہ پہلے دلتوں کے ساتھ بھی
ویسے ہی فسادات ہو اکرتے تھے جیسے آج مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ تب ہے کہ
ان کے ساتھ تشدد ہونے کی وجہ سے سماجی بھید بھاؤ ہوا کرتی تھی جبکہ ہمارے
ساتھ سیاسی وجہ ہے۔ اب تو دلت بھی سیاست میں اُبھر کر اتنے آئے ہیں کہ اُن
کے ساتھ بھی سیاسی وجوہات سے دنگا فساد ہونے لگتا لیکن SC/ST Actاُنہیں
بچاتا ہے۔ لہٰذا ہم مسلمانوں کو اس پہلو پر غور کرتے ہوئے دفعہ341کی لڑائی
کو تیز کرنا چاہئے۔ سنگھ پریوار کے اقتدار پر قبضہ کے بعد سے ہماری بہت سے
لڑائیوں کے راستے جبراً بند کر دیئے جائیں گے۔ دفعہ341کی لڑائی میں ہم
کامیاب ہوسکتے ہیں کیونکہ اس پر لگی بندش کہیں نہ کہیں پر آئین ہند کو غلط
کٹگھرے میں لاکر کھڑا کر دیتی ہے۔ |