گزشتہ 72 گھنٹوں سے پاکستان پوری دنیا کیلئے توجہ کا مرکز
بنا ہوا ہے،ہر ایک تجسس میں ہے کہ اگلے لمحے کیا ہوگا،پاکستان کے گلی
محلے،چوک چوراہے ،ڈائیننگ ٹیبل سے حکومتی ایوانوں تک بے یقینی کی کیفیت
طاری ہے،ہر ایک پاکستانی بے چینی کی حالت میں ہے،تحریک انصاف کے سربراہ
عمران خان اور عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے اپنے ہزاروں
کارکنوں کے ساتھ گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے اسلام آباد کی دو مختلف شاہراہوں پر
دھرنا دیے ہوئے ہیں،دونوں نے اپنے اپنے مطالبات بھی پیش کردیے ہیں،دونوں کی
نظریں چند کلو میٹر پر موجود وزیر اعظم ہاؤس پر ہیں،دونو ں سربراہان نے
’’شریف برادران‘‘ سے استعفیٰ مانگا ہے،دوسری جانب سیاسی جماعتیں جمہوریت کو
بچانے کیلئے ہاتھ پیر ما رہی ہیں،ان سب میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق
سب سے زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں،سراج الحق کو دونوں فریقین کا اعتماد حاصل
ہے،خوشی کی بات یہ ہے کہ سیاسی قیادت میچور ہوچکی ہے،بہرحال ن لیگ کی حکومت
سے پندرہ ماہ بعد ہی استعفے کا مطالبہ سمجھ سے بالا تر ہے۔
حکومت مخالف مارچ پاکستان میں عام ہیں؛ان مارچوں نے ایک جنون کے طور پر جگہ
لے لی ہے، تاریخ میں بھی ایسے مارچ ہوتے رہے ہیں،جون 1996ء میں جماعت
اسلامی ایک دھرنے کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی کی حکومت گرا چکی ہے،اب جو
دھرنا دیا جارہا ہے اس کا نتیجہ بھی جلد نکل آئے گا،بہرحال جس تعداد کا
دونوں پارٹیوں نے اعلان کیا تھا جمع کرنے میں ناکام رہیں، پاکستان کی سب سے
زیادہ طاقتور فوج کی طرف سے ایک بہانے کے طور پر اس احتجاج کو استعمال کرنے
کا امکان نہیں ہے؛فوج اس وقت پوری صلاحیتیں دہشتگردی کیخلاف صرف کرہی ہے۔
فکر مندی کی بات یہ ہے کہ دونوں دھرنا باز سربراہان استعفٰی سے نیچے کسی
بات پر آتے نظر نہیں آرہے،دونوں اپنے رویے میں لچک پیدا کرتے نظر نہیں آتے،
منگل کے روز، وزیر اعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کے ایک کمیشن کا اعلان کیا
تھا جو انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کرتا، مسٹر خان گزشتہ سال کی ووٹنگ
کے بعد سے بار بار یہی مطالبہ کررہے تھے،سیاسی جنگ کا سمجھ سے بالا تر ہے،
مسٹر قادری اور مسٹر خان غیر معینہ مدت تک اسلام آباد میں رہیں گے ، مسٹر
خان نے بات چیت کی حکومت کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے.
اگر دونوں فریقین کسی ایک نقطہ پر اتفاق نہیں کرتے تو یہ ملک کے لئے نقصان
دہ ہوگا، غیر یقینی صورتحال ہے،مظاہرین طویل عرصہ تک رہنے کی کوشش کرتے ہیں
تو حکومت کیاجواب دے گی کسی طرح واضح نہیں ہے. |