تحریر:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرید ساجد
لغاری
نابغہ ء روزگارحضرت خواجہ غلام فرید علیہ رحمت کا سرائیکی کلام مقبو ل خاص
وعام ہے۔آپ کا کلام سرائیکی وسیب کی تشبیہات،تلمیحات،استعارات اور داستانوں
کا گنجینہ ہے۔یہ بات درست ہے کہ خواجہ فریدعلیہ رحمت کاکلام1879ء ہجری سے
آج تک انتخاب اور دیوان کی صورت میں تسلسل سے شائع ہوتا آرہاہے اور یہ بات
دہرانے کی ضرورت نہیں کہ نامورسکھ صحافی اور ادیب دیوان سنگھ مفتون کے
مشورے پرنواب صادق خان نے خواجہ فریدــکے کلام اور کافیوں کو محفوظ کرنے کے
لئے جید اہلِ علم پر مشتمل ایک اعلی سطحی کمیٹی دبیرالملک مولیناعزیزالرحمن
کی سربراہی میں قائم کی جس میں کلام فرید کے مختلف مخطوطے جمع کرکے ایک
جامع دیوانِ فرید مرتب کیاگیا۔جو بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کمیٹی
نے اس وقت کی تعلیمی پیش رفت کے مطابق مخصوص سرائیکی حروف ،املاء اور صورتِ
خطی کے ذریعے سرائیکی زبان کایہ شہکار مرتب کیا۔اس دیوان میں انسانی سہو کے
تحت کہیں کہیں عصرِحاضر کے رائج الوقت رسم الخط اور کہیں بعض سرائیکی الفاظ
کی املا ء میں کمی بیشی تو ہوسکتی ہے لیکن اسے بہ یک جنبشِ قلم مسترد نہیں
کیاجاسکتا۔کیونکہ آج سرائیکی رسم الخط اس دو ر کے مذاق اور مزاج سے
قطعاًـــــمختلف صورت اختیار کرچکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سرائیکی ناقدین اور
ماہرینِ فریدیات نے’’دیوانِ فرید‘‘کی تشکیل ِجدید کی کوشش کی ہے اور بعض
الفاظ ومصاریع کے متن اور فصاحت کے بارے میں بھی اپنی رائے قائم کی ہے۔
اس حوالے سے مولانانوراحمد فریدی نے دوجلدوں میں شرح ’’دیوان ِفرید‘‘لکھی
اور کہیں کہیں متن پر اظہارِ خیال بھی کیا ۔اسی طرح مہر عبدالحق نے موضوعات
کے حوالے سے’’دیوان ِفرید‘‘کو’’پیامِ فرید‘‘کے نام سے مرتب کیااور کہیں
کہیں متن کی درستی بھی کی۔علاوہ ازیں ایک ایک نسخہ صدیق طاہر اور شفقت
تنویر مرزانے مدون کیااسی طرح ڈاکٹرجاوید چانڈیونے کچھ دواوین کے تقابل کے
حوالے سے ایک ’’دیوانِ فرید‘‘مرتب کیا۔مذکورہ بالا معتبر ماہرین ِفریدیات
کے بعدجن لوگوں نے کام کیا انھوں نے اپنی اپنی مرضی کے مطابق متن میں خوب
تبدیلیاں کیں اور متن میں خوردبرد کے مرتکب ٹھہرے۔جیساکہ قیس فریدی نے
’’دیوانِ فرید‘‘مرتب کیا تواکرم قریشی نے اسے’’محرف دیوانِ فرید‘‘کے نام سے
بانوے صفحات پر مشتمل ایک خوبصورت تبصرہ کیا۔اوراسی طرح ہمارے محترم اکرم
قریشی نے آصف خاں پنجابی کے مدون کیے گئے دیوان بعنوان ’’آکھیاخواجہ فرید
نے‘‘کو’’ممسوخ دیوان ِفرید‘‘کانام دیا۔جب محترم طاہر محمودکوریجہ نے ایک
نسخہ ’’دیوانِ فرید‘‘بمطابق ہائے قلمی نسخہ جات مرتب کیا توہمارے ممدوح
اکرم قریشی نے’’ڈودیوانیں داتقابلی جائزہ‘‘کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا
کیا جس میں چھ سومصاریع کی اغلاط کی نشاندہی کی گئی۔جسے ماہرینِ فریدیات نے
سراہا۔یادرہے اکرم قریشی نے2001ء میں ’’مستنددیوانِ فرید‘‘مرتب کر کے سجادہ
نشین دربارِفریدحضرت معین الدین المعروف محبوب سائیں کوریجہ سے ’’پاسبانِ
فرید ‘‘کا ایوارڈحاصل کیا۔بعد ازاں موصوف نے فریدیات کے ادق
موضوع(عروض)پر’’اوزانِ فرید‘‘کے نام سے ایک شاہکار تصنیف تالیف فرمائی۔
دریں اثنامجاہد جتوئی جو سرائیکی تحریک کے رہنماؤں اور قوم پرستوں میں
نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔سیاسی رہنما اور ورکر کی حیثیت سے جن کی خدمات
قابلِ تحسین ہیں ۔ان سے ایک نظریاتی تبدیلی آئی۔جس کے مطابق انھوں نے
دربارِ فرید کو اپنا مرکز بنایا اور خواجہ فرید میوزیم قائم کیا ۔اس کی
تعمیروترقی کے لیے خواجہ فرید فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔درآں حالیکہ اسے
خواجہ فرید کے کلام کے متعددمخطوطے دستیاب ہوئے توانھوں نے کلامِ فرید کے
متن کا بیڑااٹھایا۔اس وقت کلامِ فرید کے حوالے سے جو قلمی نسخہ جات موجود
ہیں ان میں میاں جی برخوردار،نبھاہوفقیر،مولانافقیراﷲ،مولانا حدادداجلی
کواولیت حاصل ہے اور دیگر قلمی نسخہ جات تحقیق کی بنیاد بنائے جاسکتے ہیں
۔لیکن ان میں بھی کسی ایک نسخہ کوبغیر استدراک کے ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ان
نسخہ جات سے استفادہ کے لیے محقق کا ذوقِ سلیم شاعری اور موسیقی پر دسترس
اور اس کاناقدانہ شعور چراغ ِراہ کا درجہ رکھتا ہو۔اس حوالے سے کوئی نابغہ
ذہن یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ فلاں لفظ کی جگہ درج فلاں لفظ مستحسن ہے۔بہتر تو
یہ تھا کہ کوئی کمیٹی وجود میں آتی کوئی بورڈ تیار ہوتالیکن اس کے برعکس
مجاہدجتوئی نے سات سالوں کی محنت ِ شاقہ اور بشارتوں کے ذریعہ سے’’ دیوانِ
فرید باالتحقیق‘‘مرتب و مدون اورشائع کرانے میں کامیاب ہوئے۔ملک بھر میں اس
کی اس تحقیقی کاوش کا خیر مقدم کیا گیا اور ان کی خوب پذیرائی ہوئی۔مگر کچھ
عرصہ بعد فریدیات کے ماہرین نے دیکھا تو اس میں بہت سے مقامات ِجنبش
ابروموجود تھے۔جن کی نشاندہی پر مجاہد جتوئی پر ضمیر فروشی،ایجنٹی ،وطن
فروشی اور فرید دشمنی کے فتوے صادر کیے گئے اور سوشل میڈیا پر رکیک آمیز
اور یاوہ گوئی بھی نظرسے گزری ہے۔حالانکہ علم وتحقیق کا معاملہ ہمیشہ ذاتی
اختلافات اور مخاصمت سے پاک ہوتا ہے۔
دریں بارہ تنقیدوتحقیق کے حوالے سے ہم محترم ظہوردھریجہ سے بحیثیت
ماہرِفریدیات نادم ہیں کیونکہ پہلی فرصت میں دھریجہ صاحب نے تحریری طور
پرمجاہد جتوئی کے مرتبہ دیوان پر مثبت تنقید کر کے ہم سے سبقت لے
گئے۔بعدازں ’’جواب ِآں غزل‘‘کے طور پر مجاہد جتوئی کا پمفلٹ’’رازنامہ ‘‘
بھی موصول ہوا۔ہمیں تو پہلے ہی سے’’دیوانِ فرید باالتحقیق ‘‘کے متن کیا؟بعض
مصاریع پر بھی تامل ہے اوراس مرتبہ دیوان فرید میں مجاہد جتوئی نے متن کی
اغلاط کے ساتھ ساتھ فکری مغالطے بھی پیدا کیے ہیں ۔راقم الحروف کی نظر میں
مجاہدجتوئی کی یہ تخقیق صرف اورصرف خواجہ طاہر محمود کوریجہ سے معاصرانہ
چشمک کا شاخسانہ ہے۔اگر یہ معاصرانہ چشمک نہ ہوتی تو مجاہد جتوئی کو متن کی
تحقیق کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اکرم قریشی کا مرتبہ دیوان بعنوان ’’مستند
دیوانِ فرید‘‘ پہلے ہی سے فرید لائبری اور اعلی درس گاہوں میں موجود
تھا۔مجاہدجتوئی ــ’’مستنددیوان ِفرید‘‘اور مولانا فقیراﷲکے قلمی نسخہ کے
فریفتہ تھے۔بہت سی نجی محفلوں میں مجاہدجتوئی مذکورہ دواوین کے متن پر اَش
اَش کر اُٹھتے۔ان میں سے کسی ایک کا ترجمہ کر دیتے جو اپنی سلاست اور سہل
ہونے کی وجہ سے امر ہوجاتا۔راقم اور ممدوح کے درمیان قدرِمشترک ہمارے ممدوح
بابارازتاجدار اور اکرم قریشی تھے۔محقق مجاہدجتوئی اکرم قریشی کا احترام
حدود وقیود کوبالائے طاق رکھ کر جیسے انھوں نے موصوف سے تلمذتہ کیا ہوکرتے
تھے اور ہماری بھی یہی حالت تھی اور آج تک ہم ایک دوسرے کا احترام اپنے
تیئں واجب سمجھتے ہیں ۔لیکن علمی وادبی ،تنقیدوتحقیقی کاموں میں مصلحت قوم
وسیب،زبان اور ثقافت کے لیے نہ صرف مضرت ہے بلکہ سِم قاتل کے مترادف ہے۔آج
کل ’’شہر بھنبھور‘‘یا’’تحت لہور‘‘کی ابحاث زوروں پر ہیں ۔اِسی سلسلے میں
مجاہد جتوئی نے ’’رازنامہ‘‘شائع کر کے عوام الناس اور ماہرین ِفریدیات کو
ارسال کیے۔اِس ’’راز نامہ‘‘سے بہت سے راز افشاء ہوئے ہیں ۔’’دیوانِ
فریدباالتحقیق‘‘کی رونمائی سے لیکر دیوان کی ساٹھ عددپزیرائی تک کا ذکر کیا
گیا ہے۔تقریب رونمائی میں موجود محققین اور ماہرین فریدیات سے’’دیوان فرید
باالتحقیق کی تعریف کا ذکر کیا گیا ہے۔جوکہ دروغ گوئی ہے۔تقریب ِ رونمائی
میں ضیاء اﷲسیال اور حیدرجاویدسیدنے تقاضا پیش کیا کہ مجاہد جتوئی
کوفریدیات پر اعزازی PHDکی ڈگری عطاکی جائے۔استاد اسلم رسول پوری نے ایک
فوٹواسٹیٹ شدہ کافی پر سیرحاصل کچھ لفظ چھوڑے۔میر جاوید چانڈیونے کہا جب ہم
نے ’’دیوانِ فریدباالتحقیق‘‘کا ایک مصرع تک نہیں پڑھاتبصرہ کیا کریں ۔فضل
فریدلالیکانے کہا’’بس خواجہ فرید ساڈی سانجھ نیں‘‘اور ڈاکٹر شہزاد قیصر نے
اپنی ایک آزاد پنجابی نظم سنائی یہ تقریب کا آنکھوں دیکھا حال ہے ۔جتوئی
صاحب اگر یقین نہ آئے تو پھرریکارڈنگ سن لیں ۔علاوہ ازیں ــ’’رازنامہ‘‘میں
منقولہ دلائل رقم کیے گئے ہیں۔جو سراسرمحقق کی مخالفت کرتے ہیں ۔ایسے محسوس
ہوتا ہے کہ سات سالہ محنت ِ شاقہ نے مجاہد جتوئی کو اس قدر تھکا دیا ہے کہ
وہ اپنے پیش کردہ دلائل کوسمجھنے سے قاصر ہیں یا تووہ تجاہلِ عارفانہ سے
کام لے رہے ہیں ۔ہاں یا تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ثقہ ماہرین ِ فریدیات پر
محبوب سائیں کی بشارت کوفوقیت دے رہے ہوں مگر۔۔۔!
وہ’’رازنامہ‘‘کے صفحہ نمبر۴ پر رقم طراز ہیں۔
صوفی قادربخش کے قلمی نسخہ اندازاََ1880ء میں اسے’’شہربھنبھور‘‘لکھ کر پھر
اسے کاٹ ک تصحیح’’تخت لہور‘‘سے کی گئی ہے۔مولانا حدادداجلی نے اسے
ــ’’شہربھنبھور‘‘لکھا ہے میاں جی برخوردار حضرت خواجہ غلام فرید کو فارسی
پڑھانے والے استاد میانجی برخوردارمستوئی ساکن چاچڑاں شریف کے نقل کردہ
نسخہ دیوان ِفرید 1302ھجری یعنی تیرہ سو دوھجری بمطابق1884ء یعنی خواجہ
فرید کا وصال 1319ھجری بمطابق 1901ء سے 17برس قبل میں اور نبی بخش مرکنڈکے
قلمی نسخہ 1314ھجری اور نبھاہوفقیرکے دو عددقلمی نسخہ جات میں ’’تخت
لہور‘‘لکھا ملا۔اس کے آگے رقم طراز ہیں کہ!
میانجی برخوردار کے پوتے میاں جی غلام محمد کے قلمی نسخہ جا ت میں بھی
وضاحت وصراحت کے ساتھ’’تخت لہور ‘‘لکھا پایاگیاہے۔ان قریب المکان اور قریب
الزمان لوگوں پر کسی کاتب کو ترجیح کیسے دی جاسکتی ہے؟۔۔۔۔(مجاہدجتوئی)
قارئین کرام !
نسخہ صوفی قادر بخش 1880ء کا لکھا ہوا ہے۔میاں جی برخوردار نے چارسال بعد
یعنی 1884ء میں اپنا قلمی نسخہ مکمل کیا ۔نسخہ ء صوفی قاف ب
’’شہربھنبھور‘‘درج ہے اور میاں جی کے نسخہ سے چار سال پہلے !ہم اس نتیجہ پر
پہنچے ہیں کہ ’’شہربھنبھو ر‘‘مذکورہ شعر میں الہامی ہے۔اس کے مقابلے میں
میا ں جی برخوردار کے نسخہ میں ’’تخت لہور ‘‘تکلف کی صورت میں ہے۔علاوہ
ازیں اصول ِتحقیق میں کسی حوالہ کو نظر انداز کرنا بددیانتی کے مترادف
ہے۔محقق برخوردار سے میاں جی غلام محمد تک تو چلے آئے افسوس مولانا فقیر
اﷲکو نظرانداز کر دیا گیاہے۔جو میاں جی غلام محمد کے باپ ہیں اور برخوردار
کے لختِ جگر بھی اور ہم مکتب وہمزمانِ فرید بھی ہیں ۔
قارئین کرام !
مولانا فقیراﷲکو اس لئے نذر انداز کیا گیا ہے کہ اس کے قلمی نسخہ میں ’’شہر
بھنبھور‘‘درج ہے اور یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بیٹے نے باپ کے تکلف
’’تخت لہور ‘‘کو نا پسند کیا اور خواجہ فرید کے الہام ’’شہر بھنبھور ‘‘کے
قائل ہوئے اور درج بھی کر دیا۔ بنابریں !نبھاہو فقیر کے ایک نسخہ میں
’’لہور‘‘ اور دوسرے میں ’’لہوڑ‘‘اور تیسرے میں ’’بھنبھور‘‘درج ہے۔جب کہ اس
وقت رائے ثقیلہ متعارف توہوئی ہو گی لیکن مروج نہ تھی۔یاد رکھیئے کہ مندرجہ
’’لہوڑ‘‘بھی تکلف کی علامت ہے۔ہم کسی کے تکلف کو الہام پر کیونکر ترجیح دیں
۔محقق خود رقم طراز ہیں کہ ہم زمان فرید مولاناحدادداجلی نے ’’شہر
بھنبھور‘‘مولانا عزیز الرحمان کی کمیٹی نے شہر بھنبھور ‘‘پر اتفاق کیا تھا
۔مولانا نور احمد فریدی ،مہر عبدالحق،شفقت تنویر مرزا ،صدیق طاہر ،میر
جاوید چانڈیو،قیس فریدی(جسے مجاہدجتوئی استاد قیس فریدی کے نام سے یاد کرتے
ہیں )نسخہ اکرم قریشی (جسے مجاہدجتوئی استاد کہا کرتے تھے اور جس کے بارے
میں رقم طراز ہیں ’’استاد اکرم قریشی نے ہمیشہ اپنے لکھے کا دفاع کیا اور
ہمارے استدلال کو ہذیان سے رد کر دیا ۔مسئلہ ان کی ذات کا نہ تھا ادب کا
تھا خواجہ فریدؒکا تھا۔آج جس کا جی چاہے ماہر ِفریدیات بن جائے کلام ِفرید
کا خدائی محافظ سرکار فریدؒکے پاس جاچکے ہیں)اور متعددمتداول دواوین میں
لفظ ’’شہر بھنبھور ‘‘درج ہے۔
قارئین کرام منقول دلائل سے ثابت ہوا کہ شعر میں ’’شہربھنبھور‘‘خواجہ فرید
کی الہامی تخلیق اور ’’تخت لہور‘‘میانجی برخوردار کا تکلف ہے اور ’’تخت
لہور‘‘کا اصرار ماہرِفریدیات کی منطق سے باہر ہے۔
مزیدبرآں صفحہ نمبر۴ پر محقق رقم طراز ہیں کہ معقول دلائل میں ’’رتھ‘‘ایک
فیصلہ کن شکل میں سامنے آتا ہے۔جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ کسی صحرائی
،ریگستانی خطے کی بات نہیں بلکہ میدانی خطے کا حوالہ ہے۔’’رتھ‘‘سنسکرت زبان
میں ایسی گاڑی کو کہا جاتا ہے جسے ایک سے زیادہ بیل گھوڑے کھینچیں
’’رتھ‘‘کی سراسرصحرا،تھل ،ریگستان اور پھر کیچ مکران کے پہاڑوں میں کوئی
افادیت نہیں ۔کیونکہ یہ پہیہ دار سواری ہے۔ (مجاہدجتوئی)
قارئین کرام !’’رتھ‘‘دیومالائی تصورات اور ہندی اساطیر میں ایک سواری کا
استعارہ ہے۔جس پر کرشن جی مہاراج بیٹھ کر سیر ِافلاک کیا کرتے تھے ۔تاہم اس
وقت سماجی زندگی میں بھی ’’رتھ‘‘کی ایک صورت موجود تھی۔جس کو ہمارے ہاں
بگھی کہا جاتا ہے۔لیکن خواجہ فریدؒ کی کافی میں’’رتھ‘‘کا استعمال کرشن جی
مہاراج کی داستان کے پسِ منظر میں ہے ۔جبکہ سسی،پنوں کی داستان میں
’’رَتھ‘‘بطور استعارہ بلیغ استعمال ہوا ہے۔جس کا مطلب صحرائی جہاز ہے
۔کیونکہ خواجہ فریدؒاونٹ کی سواری اور ناقہ سوار کو اچھی علامت کے طور پر
دیکھتے تھے۔اونٹوں کے پاؤں میں گھنگھرواور گلے میں گھنڈیاں (جرس)ہوا کرتی
تھیں جب وہ چلتے تھے تو اونٹوں کے چلنے کی آوازمیں ’’اَنہدمرلی‘‘کی لَے جنم
لیتی تھی لہذا اس کافی کا پس منظر خالصتاََداستانوی اورثقافتی ہے۔قارئین
محقق سے کہو کہ اگر ’’رتھ‘‘پہیہ دار سواری روہی اور کیچ مکران کے پہاڑوں
میں نہیں چل سکتی تو کرشن جی مہاراج اس پر افلاک کی سیر کیونکر کرتے
تھے۔لہذا معلوم ہوا کہ ’’رَتھ‘‘اونٹ کے استعارہ میں مستعمل ہواہے۔شاعری میں
استعارات وتشبیہات آہنی ہتھیار سے بڑھ کر ہیں ۔جیسا کہ
ؔکس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
ــ’’رَن ‘‘جنگل کے ’’ شیر‘‘کو دیکھ کر نہیں کانپتے۔مجاہداسلام کے
لئیـ’’شیر‘‘کا استعارہ لیا گیا ہے۔قارئین کرام مجاہدجتوئی سے کہوکہ اپنا یہ
شعر واپس لے۔
میں یوں ہی د ست و گریباں نہیں زمانے سے
میں جس جگہ پہ کھڑا ہوں کسی دلیل سے ہوں
کیونکہ محقق کے دلائل عنقاثابت ہوئے استناد اور استدلال سے ثابت ہوا کہ
کافی ہذا کا پسِ منظر سسی پنوں کی داستان ہے’’رَتھ‘‘استعارہ بلیغ ہے۔جوکہ
ہندی اساطیر سے لیا گیا ہے۔
مختصراََعرض اینکہ محقق موصوف نے’’رازنامہ‘‘کے پہلے
صفحے پر لکھا کہ 271کافیوں اور 755صفحات کے تحقیقی کام میں صرف تین غلطیاں
ہیں یعنی جملہ الزامات کی فہرست تین ہے ۔
ایں خیال است و محال است و جنوں
جتوئی صاحب کسی شہ پارے پر تحقیق،تنقیداور تبصرہ کے لیے بنیادی طور پر تین
چیزیں درکار ہوتی ہیں ماحول ، وقت اور پیسہ !
آپ کے پاس تمام اسباب موجود تھے تو آپ نے اپنے تحقیقی کام کو پایہء تکمیل
تک پہنچایا۔راقم الحروف کوبھی یہی اسباب درکار ہیں ۔الحمداﷲان اسباب کی
عسرت کے باوجود بھی ہم نے 25کافیوں کا ڈرافٹ مکمل کر رکھا ہے جو کہ
مؤقریونیورسٹیز،جرائداورقومی اخبارات کو بعداز عیدشوال ارسال کردی جائیں
گی۔راقم کا طریقۂ تنقید آپ کے طریقہ ٔ تحقیق سے مماثلت رکھتاہے۔بعض مصاریع
میں آپ کی حوالہ جاتی دروغ گوئی ہمارے وقت کے اصراف کا سبب ہے- |