محبت کا ترازو

محبت کیا ہے؟ محبت کیوں ہوتی ہے؟ محبت کس سے ہوتی ہے؟ محبت کب ہوتی ہے؟

محبت، پیار اور عشق کے نام سے بھی پکُاری جاتی ہے۔محبت اُردو کے چار حروف ’’م۔ح۔ب۔ت‘ـ‘ کا مجموعہ ہے۔اسکی اقسام بھی چار ہیں۔محبت ایک جذبہ ہے۔ایک پاک جذبہ ہے۔ایک احساس ہے۔ایک حقیقت ہے ۔ایک پہچان ہے ۔ایک بے داغ چاند ہے ۔محبت کے سوا زندگی کچھ نہں۔ زندگی بے مقصد ہے۔زندگی بے رنگ ہے۔ اسکی اہمیت وہی سمجتا ہے جو اپنی اہمیت جانتا ہو۔ ایسی دولت ہے نہ خریدی ،نہ بیچی جا سکتی ہے۔خوش قسمت کو ایک پل اور بدقسمت کو کبھی میسر نہں ہوتی۔اسکو سمجھتا وہ ہے جو اس دولت سے مالامال ہو۔محبت ہی انسان کی پہچان ہے۔تبدیلی کا ہنر بھی اسکی خاصیت ہے۔اس موضوع کو الفاظ میں سمیٹنا ممکن نہں۔اسکو خود سے پیدا نہں کیا جاتا بلکہ یہ نظامِ قدرت سے وابستہ ہے۔

قدرت جسے چاہے نوازے اور جسے چاہے محروم رکھے۔نہ جھنڈی ہے جسے گلی میں سجالو ،نہ ہی تاج ہے جسے سر پر سجالو ، بلکہ حقیقت میں محبت تو محبت ہے۔

محبت کی چار اقسام ہوتی ہیں۔٭سب سے عظیم محبت’ ’رب ـ‘‘سے ہوتی ہے۔وہ رب جو مالک ہے ۔ ٭محبت ’’رشتہ داروں‘‘ سے ہوتی ہے۔جن سے خون کا رشتہ ہوتا ہے۔اُن رشتوں میں سب سے عظیم محبت ’’ماں‘‘ سے ہوتی ہے۔٭ــــ’’دوست ‘ـ‘سے محبت۔دوست ہر خوشی،ہر غم کہ ساتھی۔٭’’محبوب‘‘ سے محبت۔محبوب مخالف جنس ہوتا ہے۔آج کے دور میں عام طور پر اسی محبت پر غوروفکر کی جاتی ہے۔محبوب کی کسی ایک بات پر ایسا فدا ہوتا ہے کہ جیسے اندھا ہو۔سواے اچھاہیوں کے بُرائی نظر ہی نہں آتی۔اُس کے سوا دُنیا سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔اور کچھ احساس ہی نہں ہوتا۔افسوس صرف یہ ہے کہ آجکل محبت خالص نہں رہی۔ملاوٹ تو اب اس میں عام طور پر ہوتی ہے۔

مقصد کو پورا کرنے کیلے تعلق ۔پھر اُس تعلق کو محبت کا نام دیا جاتا ہے۔پھر یہی تعلق بدنام اور ناکام ہوتا ہے۔محبت زندہ صرف مقصد پورا ہونے تک ہوتی ہے اور مقصد پورا ہوتے ہی اچانک موت ہو جاتی ہے۔ایسی موت کہ پھر کبھی یاد بھی نہں رہتی۔جیسے کبھی کچھ تھا ہی نہں۔۔۔ہائے۔۔۔ہائے ۔۔۔محبت۔۔۔
سائنس کا دور ہے۔اور اتنی ترقی حاصل ہو چکی ہے کہ ناپ اور تول کیلے مختلف آلات تشکیل دیے جا چکے ہیں۔مایا کیلے لیٹر، ٹھوس کیلے گرام ، وقت کیلے منٹ، فاصلے کیلے میل اور محبت کیلے ؟؟ یہ سوال ابھی تک لاجواب نظر آتا ہے۔۔۔۔۔آخر کیوں؟؟؟؟

ترازو ایسا آلہ ہے جسکے دو پلڑے ہوتے ہیں ۔اس سے ٹھوس کو ماپا جاتا ہے ۔ایسا کوئی ترازو ہوگا جس سے محبت کو ماپا جا سکے۔کہنے والوں نے تشبہی بہت سی چیزوں سے کی پر اصلیت کبھی سامنے نہ آسکی۔یہ ممکن ہے سمجھنے میں مشکل تھی۔شاید یہ کوئی مشکل کام ، کوئی عجوبہ ہے۔اس کا جواب معلوم کرنے کی خاطر بہت صاحبِ علم ، نفیس لوکوں سے مدد دریافت کی مگر ایسا کچھ نہ ہو۔ا جس سے متمین راے قائم کی جاسکے۔وقت گزرتا چلا گیا ۔دوستوں کے جوابات میں بھی اضافہ ہوا۔لیکن اتنا آسان سوال تھا ۔جس نے مشکل میں ڈال رکھا تھا۔۔۔آخر اس میں اتنی مشکل کیوں؟؟؟؟

پھر احساص ہوا ۔ جواب موصول ہوا۔جواب تو معلوم تھا۔بس سمجھنے میں دیر ہو گی۔وہ ہستی ’’ماں‘‘ ہے۔
ماں کی محبت کو ترازو کہ ایک پلڑے اور اپنی محبت کو دوسرے پلڑے میں رکھ کر اسکے وزن کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ماں دُنیا میں ایسی ہستی ہے جسے سب سے زیادہ محبت کی جاتی ہے۔

اب آخری بات تو دیکھنے میں چوٹی سی مگر سمجھ لو تو کائنات کوسمیٹ سکتی ہے۔

ـ’’جو شخص اپنی ماں سے محبت نہں کرتا وہ دُنیا میں کسی سے محبت نہیں کر تا۔‘‘
 

Sarmad Yasin
About the Author: Sarmad Yasin Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.