الیکشن کمیشن پر اٹھائے جانے
والے سوالات سے تو یہی لگتا ہے کہ مئی میں ہونے والے انتخابات میں کہیں نہ
کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور تھی بقول تحریک انصاف کے یہ گڑ بڑ کوئی چھوٹی موٹی گڑ
بڑ نہیں تھی بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ان نتائج کو تبدیل کیاگیا یا
فالتو ووٹ کاسٹ کیے گئے اگر ان انتخابات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات
واضح ہوتی ہے کہ ان میں کئی ایک پولنگ اسٹیشنوں پر اتنے زیادہ ووٹ کاسٹ کیے
گئے جو کہ انتخابی فہرست سے بھی کہیں زیادہ تھی اور ان میں بیشتر ایسے بھی
ووٹ تھے جو کہ ایک ہی شخص نے کئی کئی بار کاسٹ کیے ہوئے تھے اگر اس وقت
حکومت ان کا جائزہ لے لیتی تو آج جو لوگ اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے
ہیں شاید نہ ہوتے اور حکومت بااحسن طریقے سے چل رہی ہوتی اور الیکشن کمیشن
پر جو انگلی آج اٹھ رہی ہے شاید وہ بھی نہ اٹھ رہی ہوتی لیکن ہمارے ہاں
اکثر یہ ہوتا ہے کہ حکومتیں اس وقت جاگتی ہیں جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا
ہے جیسا کہ آج کل نظر آ رہا ہے دو جماعتوں نے ان انتخابات اور آج کے حالات
کو سامنے رکھتے ہوئے پورے ملک کو جام کیا ہوا ہے اور ہمارے حکمران چین کی
بانسری بجانے میں مصروف نظر آ رہے ہیں پورے ملک کا اس دوران جو نقصان ہو
رہا ہے اس کا کسی کو اندازہ بھی نہیں ہے اس کے ساتھ ساتھ غریب اور مزدور
لوگوں کا جو نقصان ہو رہا ہے وہ تو کسی گنتی میں نہیں تمام سیاسی جماعتیں
اپنے فائدے کے لئے کام کر رہی ہیں عوام کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے تحریک
انصاف کے قائد عمران خان کی طرف سے 11 مئی کے عام انتخابات میں دھاندلی کے
الزامات کے بعد الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ ان حلقوں میں جہاں 100
فیصد سے زائد پولنگ ہوئی ہے ان تمام حلقوں کی تحقیقات کرائی جائے گی تاکہ
معاملہ واضح ہو سکے لیکن ان تحقیقات میں کتنا وقت لگے گا اس کا کوئی ٹائم
فریم نہیں دیا گیا تھا ہمارے ہاں عموما یہ ہوتا ہے کہ تحقیقات میں اتنا وقت
لگ جاتا ہے کہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کر لیتی ہے اور جب فیصلہ آتا ہے تو
ایسے ایسے لوگ نااہل ہو جاتے ہیں جو پورے پانچ سال کام کر چکے ہوتے ہیں اسی
لئے کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں انصاف کے حصول کے لئے حضرت نوح علیہ سلام
کی عمر چاہیے : ایسے میں سیاسی جماعتیں کس پر اعتبار کریں اور کس کو قصور
وار ٹھرائیں الیکشن کمیشن نے انتخابی بے ضابطگیوں کے حوالے سے عذرداریوں کی
سماعت کرنے والے الیکشن ٹربیونلز سے کہا ہے کہ وہ ایک سے زائد ووٹ ڈالنے
والوں کا ریکارڈ الیکشن کمیشن کو بھجوائیں تاکہ ایسے افراد کے خلاف قانونی
کارروائی کر کے ان کو سزا دلوائی جائے الیکشن کمیشن میں 405 پٹیشنز دائر
ہوئی ہیں جن پر ابھی تک کام جاری ہے اور یہ کام کب تک جاری رہے گا کوئی
نہیں جانتا شاید حکومت کے پانچ سال پورے کرنے تک یا شاید اس سے بھی آگے
الیکشن کمیشن نے جن حلقوں میں ٹربیونلز سے انگوٹھوں کے نشانات کی پڑتال
کرائی ہے اس میں ایسے بے شمار ووٹوں کی نشاندہی ہے جو ایک ہی شخص نے کاسٹ
کئے ہیں۔ کمیشن کے مطابق خواتین کے ایک پولنگ سٹیشن میں ایک شخص نے 310 ووٹ
کاسٹ کئے۔ کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ نادرا سے جو رپورٹ ملی ہے اس میں کہا
گیا ہے کہ انگوٹھوں کی تصدیق کے معاملہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ آئی ہے کہ
سیاہی کے نشانات بہت ہلکے ہو چکے ہیں یا ان کا معیار نہایت خراب ہے جس کی
وجہ سے انگوٹھوں کی تصدیق ہونا مشکل ہے کمیشن کا کہنا ہے کہ ریٹرننگ افسروں
اور پریذائیڈنگ افسروں کی مدد کے بغیر انتخابی بے ضابطگی ممکن نہیں اس لئے
ایسے حلقوں کی شکایات میں اس امر کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ان کے ملوث
ہونے کی صورت میں کارروائی ضرور ہو گی۔ ووٹر لسٹیں شناختی کارڈ کی بنیاد پر
بننے کے بعد ہر شخص کو شناختی کارڈ ساتھ لے جانے پر ووٹ ڈالنے کا حق ہے اس
میں دوہرا ووٹ ڈالنا وہاں موجود عملے کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتاالیکشن
کمیشن کو اس بارے میں عملے کو قابو کرنے کے لئے عملے کی نگرانی کا نظام
بہتر کرنے کے علاوہ شکایت کی صورت میں سخت سزائیں رکھنی چاہئیں اور یہ سارا
عمل انتہائی مختصر عرصے میں مکمل ہونا چاہئے اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی بھی
جانچ کے عمل کو جتنا لٹکایا جائے گا ظاہری سی بات ہے کہ اس میں انگھوٹوں کے
نشانات کی سیاہی تو مدہم ہو گی کیونکہ ہمارے ہاں جو بھی معیار ہوتا ہے ایسے
کاموں میں وہ سب جانتے ہیں اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہونے
والے انتخابات ،پڑوسی ملک افغانستان میں ہونے والے انتخابات کی طرح ہی نظر
آتے ہیں جن میں نتائج کو کہاں سے کہاں تک لے جایا جا سکتا ہے دوسری طرف
ہمارے وہ ادارے جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی مانیٹرنگ کریں ان کو
دیکھیں حکومت کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے وہ بھی کام کو اتنا لٹکا دیتے ہیں
کہ تمام متوقع ثبوت خود بخود ہی ختم ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ حالات
پیدا ہو جاتے ہیں جیسے کہ آج کل بنے ہوئے ہیں الیکشن کمیشن کو بائیومیٹرک
سسٹم اور الیکٹرونک ووٹنگ مشین لانے کی بھی سعی کرنی چاہئے تاکہ انتخابی
عمل میں بے ضابطگی کے امکانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ ورنہ دوسری صورت میں
ہر انتخابات داغ دار تصور ہوں گے اور ہر بار بننے والی حکومت دھاندلی کا
داغ دھونے کی کوشش کرتی رہے گی جس کی وجہ سے عوامی فلاح کے کام تو دور کی
بات وہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے سے بھی قاصر رہے گی اور پاکستان انتخابات
کی تجربہ گاہ بنا رہے گا اس لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے الیکشن کمیشن کی
تشکیل نو کی جائے اور اس کو اتنا مضبوط اور منظم بنایا جائے کہ کوئی اس کی
جانبداری پر انگلی نہ اٹھا سکے اس کو سیاست سے بلکل پاک کیا جائے اور اس
میں ایسے لوگوں سربراہ بنایا جائے جن کا ماضی بے داغ ہو اور ان کی کسی
سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی وابستگی نہ ہو اور جہاں کہیں کسی کی سیاسی
وابستگی کسی بھی جماعت سے ظاہر ہو فورا اس کو ہٹیا جائے تاکہ الیکشن کمیشن
کا غیر جانبدار امیج عوام اور سیاسی جماعتوں کی نظروں میں بحال کیا جا سکے
ورنہ دوسری صورت میں مارچ،دھنر نے اور سول نافرمانی جیسی تحریکیں ملک کو
آگے نہیں بڑھنے دیں گی ۔ |