طلبا ء و نوجوانوں میں پھیلنے والے اضطراب کا کیا حل
ہے ؟۔اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں کسی اہم شخصیت سے رائے یا
ڈگری لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں اب یہ سب کچھ اپنے قرب و جوار
میں باآسانی نظر آجاتا ہے۔ چونکہ ہم زیادہ تر سیاسی و سماجی مسائل پر
گفت و شیندکے عادی بن چکے ہیں تو اس لئے اس کا جواب دینے کی دلیل میں
ہمیں سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی ایک برٰ ی ایسی تعداد نظر آتی ہے جو
شب و روز ، اپنے لیڈروں کیلئے نعرے لگانے ، بینر لگانے اور شہر کی
دیواریں کالی کرنے کے علاوہ سیکورٹی اداروں کے سامنے احتجاج کی صورت
میں ڈنڈے کھاتے اور جیل میں بھی جاتے گھبراتے نہیں ہیں۔جبکہ اس کے
متضاد ان ہی نوجوانوں کے لیڈر ان کے بل بوتوں پر اپنے لیڈری چمکانے
کیلئے کبھی مفاہمت کے نام پر ، تو کبھی قومی مفاد کے نام پر اپنے
اختلافات ختم یا پھر مفاہمتوں میں ڈیڈ لاک پیدا کرکے خبروں کی زینیتں
بن کر اپنے مفادات کو پورا کرنے کیلئے قوم کو قربانی کا بکرا بنانے سے
نہیں چوکتے۔برطانیہ نے ہندوستان میں :پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو"کے آزمود
ہ اور تیر با ہدف فارمولے پر عمل کیا اور سینکڑوں سال مسندِ ہندوستان
کا تاج سر پر سرکھ کرجاتے جاتے بھی ہندوستان کی لنگوٹی ، کوہ نور لیکر
و تفرقہ چھوڑ کر چلا گیا۔کرم خوردہ پاکستان کو پا کر ہم مسلمان اس بات
پر خوش تھے کہ اب ہمیں گورے انگریز ،ہندو بنیا وسامراجی قوتوں سے نجات
مل گئی اور اب ہم آزادی کیساتھ اپنی زندگی بسر کریں گے۔ لیکن جب
پاکستان نے سات سمندر پار اپنا کاسہ امریکہ کے سامنے گندم کے حصول
کیلئے پھیلایا تو کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ امریکہ پاکستان کی
پالیسوں پر اس قدر حاوی ہو جائے گا کہ وزیر اعظم ہاوس میں چپڑاسی کی
نوکری بھی وائٹ ہاوس کی مرضی کے بغیر نہیں لگا ئی جا سکے گی۔پاکستان
بننے کے بعد بھارت کی پیش گوئیاں سب کے سامنے تھی کہ پاکستان کے نام پر
حاصل کئے جانے والا ملک چند سالوں میں ختم ہوجائے گا اور اس کے دو
نظرئیے کی بنیادیں سمندر میں ڈھے جائیں گی۔ امریکہ کی واضح پالیسی رہی
ہے کہ بے شک پاکستانی بن کر تم لوگ اس خطے میں رہو لیکن غلام میرے ہی
بنے رہو۔ہم سب" امریکی بنیا "کے مقروض بن چکے ہیں پیدا ہونے والا بچہ
دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے امریکہ کا غلام پہلے اور پاکستانی بعد میں
پیدا ہوتاہے۔سی آئی اے امریکی مفادات کے لئے کام کرتی اور کرنا بھی
چاہیے کیونکہ حساس ادارے ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ اپنی مملکت کی بقا کے
لئے اندرونی و بیرونی خطرات کا مقابلہ اور لائحہ عمل طے و عمل کرسکیں ۔
مولانا عبدالحمید بھاشانی نے1969میں اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ"وہ
(سی آئی اے )یہاں پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے فارمولے پر عمل کر رہی
ہے۔ہمارا ملک غریب ہے ۔ تھوڑا پیسا مل جائے تو ایجنٹ بن جاتے ہیں۔ہم نے
ایشیا افریقہ میں کئی سامراج دیکھا ، مگر امریکہ جیسا مریکہ سامراج آج
تک نہیں دیکھا،وہ تو چاہتا ہے کہ ہم سب مقروض رہیں، اس ملک میں رہیں
لیکن اس کا غلام بن کر رہیں۔یہ تو exploitationمیں برٹش سامراج سے بھی
آگے بھی بڑھ گیا ہے۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ ایسی پالیسیوں اور اعمال
سے خود امریکہ میں زلزلہ پیدا ہوگا اور ایسا خوفناک کہ شاید خدا امریکہ
میں اپنا حساب کتاب اس دنیا میں ہی ختم کردے۔CIAکے بارے میں ایک بیان
میں دے چکا ہوں اور میرے پاس اس کا مسودہ محفوظ ہے جس میں سی آئی کے
مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کا منصوبہ درج ہے۔سی آئی اے نے مختلف سیاسی
عناصر اور افسروں کی مدد سے مشرقی پاکستان سے مشرقی پاکستان ، بھوٹان ،
آسام کو ملا کر ایک خود مختار ملک بنانے کے لئے یکم اگست 1969ء کی
تاریخ مقرر کی تھی۔ اس کے لئے وہ کئی برس سے سرگرم کار تھی لیکن بین
الاقوامی معاملات اور کچھ پاکستان کے اندرونی حالات کے باعث اس کا یہ
منصوبہ شرمندہ تکمیل نہ ہوسکا۔"مولانا عبدالحمید بھاشانی 1969ء میں جب
یہ انٹرویو دے رہے تھے تو شاید انھوں نے بھی مستقبل کا آئینہ دیکھ لیا
تھا کہ مشرقی پاکستان کو توڑنے والے خاموش نہیں بیٹھیں گے اور با لاآخر
مشرقی پاکستان کوہم سے الگ کرکے بنگلہ دیش بنا دیا گیا اور اس" کارشر"
میں پاکستانی غداروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چند دنوں بعد چودہ
اگست بڑی دھوم دھام سے منائی جائے گی ، لیکن ہمیں اس دن کو یوم آزادی
کے بجائے" یوم شرمندگی "کے طور پر منانا چاہیے کیونکہ ہم آج تک قیام ِ
پاکستان کی غرض و غایت کو اَپنا تو کیا, سمجھ بھی نہیں سکے۔ مشرقی
پاکستان کو جس طرح پاکستان سے الگ کیا گیا ۔ آج بھی وہی مناظر ہمیں
کراچی سے لیکر کوئٹہ ، پشاور اور ملک کے طول و عرض میں نظر آتے
ہیں۔جناب مولاناغلام بخش ہزاروی سے جب یہی سوال "طلبا ء و نوجوانوں میں
پھیلنے والے اضطراب کا کیا حل ہے ؟۔" دوہرایا گیا تو انکابڑا معنی خیز
جواب سامنے آیا کہ "طلبا کو غیر ملکی ایجنٹوں کے اشارے پر اسلامی جمعیت
طلبہ یا دوسرے ناموں سے کوئی جماعت قائم کرنے کی اجازت نہ جائے،لیکن جو
طالب علم اور ان کی انجمنیں غیر ملکی تعلقات سے بَری ہیں ۔ ان کی دینی
اور ملکی خدمات پر کوئی قدغن نہ لگائی جائے ، بلکہ ان کے مطالبات منظور
کرکے ان کی عزت افزائی کی جائے کیونکہ مستقبل میں یہی قوم کے معمار
بننے والے ہیں۔" انھوں نے انٹرویو دیتے ہوئے اس کی مزید وضاحت کی کہ"
میرے خلاف مودودی جماعت ، ضمیر فروش افراد اور موشے دایان گروپ نے ایڑی
چورٰی کا زور لگایا کہ میں سوشلسٹ ہوں ، میں بیسوں بار اس کی تردید
کرچکا ہوں لیکن اپنی مخصوص اغراض کی خاطر یہ رٹ لگائے چلے جا رہے ہیں۔
اب میں مودودی صاحب کو چیلنج کرتا ہوں کہ اس امریکہ نے یہود کو ہوائی
جہاز دے کر ستر کروڑ مسلمانوں کی غیرت کو چیلنج کیا ہے ۔ میں سوشلزم
اور کیمونزم کے خلاف تقریر کرونگا وہ امریکہ سے سفارتی اور تجارتی
منقطع کرنے کیلئے نہ صرف حکومت پاکستان بلکہ تمام مسلم ممالک سے مطالبہ
کریں۔ اس طریق کار سے نہ کوئی مجھے سوشلسٹ کہہ سکے گا اور نہ مودودی
جماعت کو امریکہ کا ایجنٹ اور مسلمانوں کی وقتی ضرورت بھی پورا ہوجائے
گی"۔ جناب مولانا غلام بخش ہزاوری نے یہ انٹرویو بھی1969ء میں محمود
شام صاحب کو ہی دیا تھا۔ آج بھی اگر ہم غور کریں تو پاکستان کی یہی
صورتحال ہے ۔ فروعی مفادات کے خلاف کام کرنے والوں کو ملک دشمن اور
جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے عوام سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عوام
کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ تو دوسری جانب مولانا عبدالحمید بھاشانی کی پیش
گوہیاں حرف بہ حرف درست ثابت ہو چکی ہے کہ خدا ، امریکہ سے دنیا میں ہی
اس کے ظلم و ستم کا حساب کر رہا ہے ، اس کی معیشت تباہ و برباد ، خوف
کا یہ عالم کہ افغانستان میں حکومت کے بجائے امریکہ اور اس کے اتحادی
بھاگنے کیلئے بہانے تراش کر ایک بار پھر پاکستان توڑنے کی سازشیں کر
رہے ہیں۔یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ امریکہ پاکستان میں
صوبائیت ، لسانیت اور فرقہ واریت کو پروان چڑھا رہا ہے اور نئے پاکستان
و افغانستان وشام کا نقشہ بھی عراق کی طرح بنا چکا ہے۔واقعی مولانا آپ
سچ کہتے تھے ۔ تاریخ بہت تلخ لیکن سچی ہے۔اسلام آباد کے مناظر ،
مفادپرستوں کی اقتدار کی ہوس میں ان کی بے رحمی قابل افسوس ہے کہ عوام
کو پر فریب نعروں میں لاکر فلسطین،آئی ڈی پیز ، آپریشن ضرب عضب اور
کراچی آپریشن سے توجہ ہٹا دی گئی۔ْقصور ان مفاد پرست ٹولے کا بھی نہیں
کیونکہ انھیں بھی اندھی ، بہری اور گونگی عوام جو ملی ہے۔توپھر سب ٹھیک
ہے۔ |