تکون کو توڑنا ضروری ہے!

ملک کو آزاد ہوئے 68برس بیت چکے ہیں ۔اس ملک میں یوم آزادی اس مرتبہ کچھ زیادہ ہی جوش وجذبے سے منا نے کی کوشش کی جارہی ہے ۔گورنمنٹ کی اس امرمیں دلچسپی بھی بہت سے سوالوں کو جنم دے رہی ہے۔ پہلے تواگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی آزادی کے حوالے سے ہلہ گلہ شروع ہوجاتا تھا اور 14اگست کے بعدمکمل طورپر خاموشی چھاجاتی تھی لیکن اس مرتبہ حکومت پاکستان بالخصوص پنجاب حکومت نے سرکاری عمارتوں اور دفاترکے علاوہ نیم سرکاری اورغیرسرکاری عمارتوں اورلوگوں کواس سلسلے میں motivateکیا اور اب یہ عالم ہے کہ آپ کو ہر و یگن ،رکشہ،بس ،بس سٹینڈز حتی کہ گدھا گاڑی اوربیل گاڑی پربھی سبز ہلالی پرچم لہراتا نظر آتا ہے ۔نہایت ہی قابل تحسین کاوش اور اقدام ہے۔اور ہماری خواہش بھی ہے کہ یوم آزادی اور اس سے متعلقہ تقاریب کے علاوہ ہماری دوسری تقاریب بھی اس طرح زورشور سے منائی جائیں۔ہمارے مذہبی و قومی ہیروز کے یوم پیدائش و یوم وفات کو بھی پروجیکشن دی جائے۔تاکہ نئی پود کو معلوم ہوسکے کہ ہمارے آباء نے اس دنیا میں کیا کیا کارہائے نمایاں سرانجام دئیے اور اب ہم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر ملک و قوم کے لئے کارآمد ثابت ہوسکیں۔لیکن اس بدنصیب ملک کے بدنصیب باشندے حیران و پریشان ہیں کہ اتنی خوشیاں کس خوشی میں منائی جارہی ہے کیونکہ ابھی تک حالات تو 1947والے ہی ہیں کچھ بھی تو نہیں بدلا ،وہی غربت وہی فاقہ مستی ،وہی ظلم وستم ہے جبر و تشدد ہے بے روز گاری ہے ۔وہی آہ وفغان وہی نالہ وشیون ہے۔ اس طرح مزدورپس رہا ہے کسان مررہاہے ۔تنزلی کا شکار ہے ۔غریب غریب تر ہوتا جارہاہے اور امیر امیرتر ۔غریبوں کے مکان اور کپڑے تک بک چکے ہیں جبکہ امیروں کے بنگلوں اور کوٹھیوں میں وسعت آگئی ہے ۔ہاں ان 68برسوں میں اگر کچھ بدلا ہے تووہ ہے چمڑی اور رنگت ۔کہ سفید چمڑی اور گوری رنگت والوں کی جگہ گندمی اور کالی چمڑی والوں نے لے لی ہے۔ جو کہ جشن آزادی منارہے ہیں اورہر طبقہ کو بذریعہ دھونس اور طاقت اس جشن میں شمولیت میں مجبور کررہے ہیں انہیں صرف اور صرف اپنی کرسی اور اقتدار کی فکر ہے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ مملکت خداد کے حصول کیلئے لاکھوں پاکستانیوں نے مصائب جھیلے۔صعوبتیں برادشت کیں۔ تازیانے سہے ۔گولیوں کا نشانہ بنے تختہ دار پر لٹکائے گئے۔ بستیوں کی بستیاں سنسان کروائی گئی ۔یہ قربانیاں اس لئے دی گئی ہیں کہ ہم نہ صرف غیر ملکی، برطانوی اور ہندو تسلط سے آزاد ہو جاہیں جبکہ ہمارا معاشرہ بھی ہر طرح کے استحصال سے کیا ہو۔ لیکن عملی طور پر کچھ نہیں بدلا جبکہ ہم براہ راست غلامی سے بالواسطہ غلامی میں جکڑ دیے گئے ہیں ۔ اگرچہ ملک بظاہر سیاسی طور پر اورمعروضی طور پر آزاد ہو گیا لیکن معا شی طور پر ابھی تک اسی نظام میں جکڑاہوا ہے حکمران طبقہ کی وجہ سے ہم آزادی کا حقیقی مزہ نہ لے سکے -

موجو دہ نظام سامراجی قوتوں ،سرمایادارانہ دلالوں اور لٹیرے لینڈلارڈز( جاگیرداروں)کی تکون(triangle) پر مشتمل ہے ہر طبقہ اور ادارہ ان کی گرفت میں ہے ملک کی ساری دولت ان کی تجوریوں ور بنکوں میں جمع ہورہی ہے۔ جب تک یہ تکون (مثلث) نہیں ٹوٹے گی جب تک اس مثلث کے زاویے تبدیل نہ ہوں گے تو اس وقت تک عوام حقیقی آزادی کے معنوں سے بے بہرہ ہونگے اور نہ ہی ترقی و خوشحالی ان کا مقدر بن سکے گی اور اس کا خاتمہ پارلیمانی طریقے سے ہونا ممکن ہی نہیں ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور اس تلخ بیانی پربہت سے احباب اقتدار سیخ پابھی ہونگے لیکن حقیقت یہی ہے ہرباریہ تینوں طبقے چہرے بدل بدل کر سامنے آجاتے ہیں اور پھر لوٹ کھسوٹ کر چلے جاتے ہیں ۔

اس وقت ملک میں جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے طاہرالقادری اور عمران خان انقلاب کے نعرے اور آزادی دلوانے کیلئے سرگرم عمل ہیں ۔ انہیں چایئے کہ عوام کے مسائل مصائب مشکلات کے واضح اور قابل عمل حل دے کر عوام کو اپنا حامی بنائیں ۔ عام جمہوریت اصل چہرہ عوام کے سامنے لائیں ۔ بے پرکی نہ اڑائیں۔سول نافرمانی جیسی تحریکیں فی الوقت ناقابل عمل ہیں ۔ان لوگوں کے متبادل پیش کریں ۔ اگر عوام پاکستان حسب سابق ان لٹیروں ، جاگیرداروں صنتکاروں اور سرمایہ داروں کے چنگل میں پھنسی رہی تو اس کے بعد موجودہ قعر مذلت سے نکلنے کی کوئی راہ دکھائی اور سجھائی نہیں دے گی اگر عوام پاکستان یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ حکمران ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہیں تو پھر پرامن طریقے سے اپنا احتجاج ضرورریکاررڈکروائیں تاکہ حکمران ان کے بارے میں کوئی بہتری کی راہ نکا ل لیں اورترقی و خوشحالی ان کا مقدر بن سکے اسی طرح انقلابی عناصر بھی متحد ہو کر عوام کی فلاح وبہبود کومد نظر رکھ کر صراط مستقیم پر چلے کی کوشش کریں ۔احتجاج ،جلسے ،اور دھرنے سے بالفرض حکومت تبدیل نہیں بھی ہوتی تو نہ سہی لیکن کم ازکم انکے رویوں میں، ان کی نخوتوں میں ،گردنوں میں موجود سریوں میں لچک اور تبدیلی ضرور آئے گی اوریہ پہلا قطرہ مستقبل میں آنے والے حکمران کو بہت کچھ سکھااور سمجھا کرجائیگا
منزل مقصود بھی مل جائیگی لیکن اثر
آپ پہلے راہ چلنے کا ارادہ کیجئے

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211698 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More