یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نواز شریف پاکستان کے
بھاری مینڈیڈیٹ والے وزیر اعظم تھے اور ابھی انکو جنرل پرویز مشرف نے
ایوان اقتدار سے بھی نہیں نکالا تھا اور اس وقت میاں نواز شریف کے
قریبی ساتھی اور سابق گورنر پنجاب میاں اظہر نے انہیں خطرے سے آگاہ
کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ پانچ آدمیوں سے جان چھڑوالیں ورنہ یہ کسی بھی
وقت آپکی جان کو خطرے میں ڈال دینگے مگر نواز شیرف نے میاں اظہرکی کسی
بات پر کان نہیں دھرا اور حسب عادت ان سے دوری اختیار کرلی کیونکہ میاں
برادران کو سمجھانے والے اور ڈکٹیشن دینے والے دونوں افراد سے نفرت ہے
ہاں جو انکی خوش آمد میں زمین آسمان ایک کردے اور میٹھی زبان سے میاں
برادارن کو مکھن لگاتا رہے وہ انکی ناک کا بال بن جاتا ہے میاں صاحب کے
ساتھ بھی انکے پچھلے دور حکومت کے دوران یہی کچھ ہوا تھا جو اب ہونے
جارہا ہے کیونکہ میاں نواز شریف کو ہمیشہ انکے حواریوں نے ہی مروایا ہے
کیونکہ کسی بھی پارٹی لیڈر کے اندر اتنی جرائت نہیں ہے کہ وہ میاں
برادران کو کوئی عقل کی بات سمجھا سکیں جو سمجھانے والے تھے وہ اب
پارٹی میں ہی نہیں رہے اور جو پارٹی چھوڑ گئے انکا میاں برادارن کے
ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا ہاں تو میں بات کررہا تھا میاں اظہر کی کہ
انہوں نے میاں نواز شریف کو 5افراد سے ہوشیار رہنے کا کہا تھا یہ ایک
مشورہ تھااور مشورہ دینے والا فرد میاں برادران کو پسند نہیں ہوتا اسی
لیے میاں اظہر میاں بھی نواز شریف کی نظروں میں ناپسندیدہ ہوگئے میاں
اظہر نے جن پانچ افراد کا میاں نواز شریف سے ذکر کیا تھا کہ ان سے بچنا
ان میں ایک موجودہ وزیر اطلاعات سینٹر پرویز رشید صاحب ہیں جو پچھلے
پانچ سال بھی پنجاب حکومت کے بلا شرکت غیرے نمبردا ررہے اور اب مرکزی
حکومت میں وہ سابقہ پوزیشن پر قائم ہیں ،دوسرے فرد بھی اس وقت وزیر
ریلوے خواجہ سعد رفیق صاحب ہیں جن پر الزام ہے کہ وہ دھاندلی سے الیکشن
جیتے ہیں اور انہی کو تحفظ دیتے دیتے میاں برادران ایک بار پھر خطرے کی
لکیر کراس کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور آج حکومت کے خلاف انقلاب مارچ
اور آزادی مارچ اسلام آباد میں دھرنا دیے ہو ئے بیٹھے ہیں باقی کے تین
کا مجھے یاد نہیں وہ کوئی بھی شخص میاں اظہر سے رابطہ کرکے پوچھ سکتا
ہے اور میاں اظہر کی یادداشت میں یہ سب کچھ محفوظ بھی ہوگا ۔میاں اظہر
کی ان باتوں کے بعد میاں نواز شریف کو جب اقتدار کے ایوانوں سے باہر
نکال دیا گیا تو اس وقت انکے سبھی قریبی ساتھی غائب ہوگئے تو بیگم
کلثوم نواز نے گھر سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا اور وہ پرویز مشرف کے
خلاف سڑکوں پر آگئی اس وقت میاں اظہر کو انکے ایک دوست نے کہا کہ میاں
نواز شریف کے ساتھ آپکے فیملی تعلقات تھے اور اس وقت ان پر مشکل وقت ہے
آپ بھی باہر نکلیں اور انکا ساتھ دیں پہلے تو میاں اظہر نے انکار کردیا
مگر پھر خود ہی ایک راستہ بھی بتا دیا کہ اگر بیگم کلثوم نواز انہیں
منانے آجاتی ہے تو پھر انکے پاس انکار کا کوئی جواز نہیں رہتا سمجھدار
دوست بات کو سمجھ گیا اور بیگم کلثوم نواز کے پاس پہنچ گیا اور انہیں
قائل کیا کہ وہ جاکر میاں اظہر کومنائیں اور اپنے ساتھ تحریک میں شامل
کریں اس وقت یہ ساری باتیں وہاں پر بیٹھے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے بھی
سن لی اور خواجہ صاحب وہاں سے فورا نکلے اور میاں اظہر کے گھر انکے پاس
پہنچ گئے خواجہ سعد رفیق کو دیکھ کر میاں اظہر نے سمجھا کہ بیگم کلثوم
نواز نے خود آنے کی بجائے خواجہ سعد رفیق کو بھیج کر انکے ساتھ زیادتی
کی ہے کیونکہ میاں اظہر انہی افراد کو تو میاں برداران کے زوال کا سبب
سمجھتے تھے جسکے بعد میاں نواز شریف اور میاں اظہر کے درمیان فاصلے بہت
زیادہ بڑھ گئے یہاں ایک بات میں اپنے پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں کہ
میاں اظہر کے والد کے شریف خاندان پر بہت احسانات ہیں اگر میاں اظہر کے
والد کے احسانات کو نکال دیا جائے تو شریف خاندان آج آپ کو یہاں نظر نہ
آتا جہاں آج ہے مگر بدقسمتی سے میاں برادران نے ہمیشہ ایسے افراد کو
اپنے سے دور رکھا جو اندر سے مخلص تھے اور آج ایک بار پھر میاں برادران
کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے مشکل صورتحال پیدا کررکھی
ہے اور اسلام آباد اس وقت ایک سیاسی کھوبہ بن چکا ہے اور تینوں
سیاستدانوں میاں نواز شریف ،عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس
اب وقت بہت کم ہے جو بھی پیچھے ہٹا اسکی سیاسی موت ہوجانی ہے اس لیے
دیکھنا یہ ہے کہ اب میاں برادران اس سیاسی بحران سے کیسے نکلتے ہیں اگر
حالات خراب ہوتے ہیں تومیاں برادران کے ساتھ کھڑا ہونے والا بھی کوئی
نہیں ہوگا اور سب چوری کھانے والے مجنوں کسی اور کی کشتی میں سوار
ہوچکے ہونگے اور رہی بات ورکروں کی تو انہیں تو کبھی ن لیگی لیڈروں نے
اپنے پاس بھی پھڑکنے نہیں دیا یہاں پر تو وزیروں ،مشیروں اور اپنے آپ
کو پارٹی رہنماء کہلانے والوں کو خادم اعلی سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں
ہوتا تھا ورکروں بیچاروں کی کیا اوقات کہ وہ وزیر اعلی ہاؤس کا دروزاہ
بھی کراس کرجاتے ۔ |