ہر طرف آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے چرچے ہیں۔ کسی
بھی شہر یا دیہات میں چلے جائیں ہرطرف لو گ ٹی وی پر ان کی کوریج کو اس
طرح دیکھ رہے ہوتے ہیں جس طرح کبھی پاکستان اور انڈیا کا فائنل میچ
دیکھا جاتا تھا۔مارچوں کے رزلٹ سے بے خبر عوام اس کو بھی ڈرامہ سمجھ
کردیکھ رہے ہیں۔ ہر گھنٹے بعد اگلی قسط کے منتظر کی طرح ان مارچ کو
دیکھتے ہیں۔ پھر ان مارچ پر اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کرتے ہیں۔
عوام اچھی طرح جانتی ہے کہ مارچ کی اہمیت تو اسی وقت ختم ہوگئی جب
حکومت نے مارچ کو جانے کی آزادی دے دی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ان مارچ
کرنے والوں اور حکومت کے درمیان ڈیل ہوچکی ہے۔ اب تو یہ لوگ اپنی اپنی
عزت بچانے کے لیے سب کررہے ہیں۔ 10اگست سے پہلے مارچ کو بہت اہمیت دی
جارہی تھی۔ اس وقت عمران خان، شیخ الاسلام اور حکومت آمنے سامنے کھڑی
تھی۔ 10اگست سے پنجاب کو سیل کردیا گیا تھا۔ تمام مین شاہراؤں پر پولیس
کے ناکے لگے ہوئے تھے۔ ہر شہر کے بارڈر پر پولیس کی نفری تعینات تھی۔
کنٹینر وں نے روڈ بلاک کیے ہوئے تھے۔ میڈیا بار بار دکھا رہا تھا کہ
اسلام آباد میں مختلف جگہوں پر خندق کھودی جارہی ہے۔ بہر حال ہر طرف سے
عوام کو ذلیل و خوار کرنے کی کوشش کی جارہی تھی مگر اچانک14اگست کو کئے
گئے سب اقدامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پہلے عمران خان کو اور پھر
طاہرالقادری کو اسلام آباد جانے کی اجازت دے دی گئی۔
عمران خان جس وقت زمان پارک سے سونامی لے کر نکلے تو ان کی خوشی کا
ٹھکانہ نہ تھا۔ ہر طرف آدم ہی آدم، موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی بھر مار
تھی۔خان صاحب نے اپنے پُرجوش انداز میں مارچ کے چلنے کا اعلان تو کردیا
مگر ان کو نہیں معلوم تھا کہ لاہوریے الیکشن کی طرح مارچ میں بھی ہاتھ
کرجائیں گے۔ آدھی رات سونامی مارچ لاہور کے شاہراہوں پر گھومتا رہا مگر
جیسے ہی شاہدرہ سے نکلے تو ایسا لگا جیسے آزادی مارچ میں شیخ الاسلام
کے مجاہدین کے ڈنڈے کی کیل لگنے سے ہوا نکل گئی ۔خانصاحب جو ایک لاکھ
موٹر سائیکل سوار لیکر جانا چاہتے تھے ان کے ساتھ صرف 250کے قریب موٹر
سائیکل نکلے۔ جو دس لاکھ لوگوں کا اعلان تھا وہ بھی چند ہزارتک محدود
تھا جس کی وجہ سے خان صاحب نے گوجرانوالا میں ڈیرے ڈالنا ہی مناسب
سمجھا اور تقریباً کئی گھنٹے وہاں عوام کا انتظار کرتے رہے۔ اسی جگہ
مارچ پرپتھراؤ کا ٹریلر بھی چلایا گیا۔ ان کے برعکس طاہرالقادری کا
انقلاب مارچ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔
خا ن صاحب کو ابھی حوصلہ تھا کہ وہ اپنے مقررہ ہدف تک پہنچ جائیں گے
مگر جب وہ اپنے قافلے کے ہمراہ انقلابی قافلے کو کراس کرنے لگے تو ان
کو اندازہ ہوا کہ میرے جنونیوں سے زیادہ تو طاہرالقادری کے ساتھ اس کے
مرید ہیں۔ ہوسکتا ہے خان صاحب مایوس ہوکر اسی لیے اسلام آباد پہنچتے ہی
اپنے گھر بنی گالہ چلے گئے۔ جس کی وجہ سے خان صاحب کی رہی سہی پوزیشن
اور بھی زیادہ خراب ہوگئی۔آزادی مارچ کے شرکا جو پہلے طاہرالقادری کا
مارچ کو دیکھ مایوس ہورہے تھے وہ اپنے لیڈر کی اس حرکت پر نالاں ہوکر
واپسی کا راستہ اختیار کرلیا۔ ان کا خیال تھا کہ عمران سے تو
طاہرالقادری اچھا ہے جو پچھلے دھرنے میں موسلہ دھار بارش میں اپنے
معتقدین کے ساتھ رہا۔
دونوں مارچ کے قائدین اپنے پُرجوش انداز میں حکومت کو الٹی میٹم دے رہے
ہیں مگر ذی شعور عوام کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ ان حرکات سے
حکومت گرے یا نہ گرے لیکن معیشت پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔طاہر
القادری نے جو مطالبات اپنے مارچ میں رکھے وہ کسی حدتک اچھے ہیں مگر یہ
مطالبات کسی خوشحال فیملی کے لیے تو ہوسکتے ہیں مگر پاکستان کے لیے
نہیں کیونکہ پاکستان کا بچہ بچہ تو قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ ان کے یہ
مطالبات کوئی بھی حکومت پورا نہیں کرسکتی البتہ علامہ صاحب ان سارے
مطالبات کو پورا کرنے کا طریقہ بھی بتا دیتے تو ممکن ہوسکتا تھا۔ ان کا
کہا تو بالکل اس مصور کی طرح ہے جس نے ایک تصویر بنائی اور چوک میں
لٹکادی اور لکھ دیا کہ اس پر جہاں غلطی ہے وہاں نشاندہی کریں ۔ صبح جب
اس نے اٹھ کر دیکھا تو ساری تصویر پر لائینں لگی ہوئی ہیں وہ بہت
شرمندہ ہوا کہ میں اتنا بُرا مصور ہوں ۔ اس نے یہ بات اپنے استاد کو
بتائی تو اس نے کہا کہ تم ایک ایسی تصویر اور بنا کر باہر لٹکا دو اور
اس پر لکھ دو کہ جہاں غلطی ہے وہاں سے درست کریں ۔پھر دیکھنا کیا ہوتا
ہے ۔مصور نے اپنے استاد کے مشورے سے ایسا ہی کیا ۔جب صبح اٹھ کر دیکھا
تو اس تصویر کو کسی نے ہاتھ بھی نہ لگایا۔ مطالبات تو ہر پاکستانی پیش
کرسکتا ہے مگر ان کو حقیقی رنگ دینے والا رنگ کسی کے پاس نہیں۔
عمران خان کے مطالبوں پر میں تو صرف اتنا ہی کہ وہ عزت کے ساتھ حکومت
سے مذاکرات کریں اور خاموشی کے ساتھ اپنے گھر لوٹ آئیں کیونکہ جو گرجتے
ہیں وہ برستے ہیں۔ ان کا وزیراعلیٰ جو اپنی عوام کو دکھ میں چھوڑ کر
ڈانس کرتا پھر رہاہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب نواز شریف عمرے پر گیا تو خان
صاحب نے کہا کہ ادھر ضرب عضب آپریشن ہورہا ہے اور ہمارے وزیراعظم ملک
سے باہر بیٹھے ہیں۔ اب عوام کے اس خیرخواہ نے اپنے وزیراعلیٰ کو کے پی
کے فوراًکیوں نہیں بھیجا؟ خان صاحب تو اپنے سامنے کے پی کے وزیراعلیٰ
سے ڈانس کراتے رہے۔پشاور میں لوگوں کی جانیں ضائع ہورہی ہیں اور ان کے
حکمران (تحریک انصاف کی پوری قیادت)ڈانس کررہے ہیں۔
سب سے اہم معاملہ الیکشن میں رگنگ کا ہے۔ پوری قوم عمران کا ساتھ دے
سکتی ہے لیکن کیا خان صاحب بتا سکتے ہیں کہ کراچی میں جماعت اسلامی کا
عبدالرزاق کس کی بے ایمانی کے ثبوت دکھا کر کامیاب ہوا اور نااہل قرار
دیا جانے والا فرشتہ کس پارٹی کا تھا؟
اگر دونوں مارچ (آزادی اور انقلاب)مل کر دو لاکھ بندے جمع کرلیں تو کیا
اٹھارہ کروڑ عوام میں سے دولاکھ لوگوں کی بات مانی جائے گی باقی عوام
کیا کدھر جائے گی؟ |