ظالموں ماضی کو نہ دہرائوں

بقول سینئر تجزیہ نگاروں کے اب پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں لگنا چاہیے، حالات بدتر ہی کیوں نہ ہوجائے، انہیں سیاسی بصیرت اور سیاسی افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہیے، یہ بات بجا طور پر بالکل درست ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان جیسے مردم خیز ملک میں سیاسی بصیرت اور حالات کی معرفت رکھنے والے لوگ نہیں ہیں، بہت زیادہ ہیں، ہر شعبے میں بیٹھے ہیں، ایسے بزرگ بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں تین مارشل لاء دیکھے پاکستان میں، مگر حکومت وقت کو ہمیشہ تھکے ہوئے اہل قلم کو لکھتے ہوئے دیکھا، اسی وجہ سے کوئی بھی جمہوری حکومتیں سیاسی بحرانوں میں بروقت صحیح فیصلے نہیں کرسکتیں اور ایسے فیصلوں میں ذاتی پسند اور نا پسند ضرور ہوتی ہے، لوگ ماضی کو یاد کرنا نہیں چاہتے، شاعر نے کہا ہے
یاد ماضی بھی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

لوگ تاريخ کو یاد کرنا نہیں چاہتے مگر تاريخ خود اپنے آپ کو دہراتی ضرور ہے، تاریخ کا جغرافیہ بار بار ہلچل مچاتا رہتا ہے، کوئی تاریخ سے یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ تجھے کیا پڑی ہے اپنے آپ کو دہرانے کی زمانہ تو عادی ہے تجھے فراموش کرنے کا تو تاريخ مسکراتی ہے، اور کہتی ہے کہ میرا کام تو بس دہرانا اور یاد دلانا ہے، آزادی مارچ اور انقلابی مارچ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، 1977ء کی تاريخ دہرانے کا مرحلہ پھر دربیش ہوگیا، 1977ء میں بھی عام انتخابات میں دھاندلی اور جھرلو جیسی اصطلاحات وضع ہوئی تھیں، ایک ہنگامہ ایک شور برپا تھا، اور سب پاکستان نیشنل الائنس کے جھنڈے تلے جمع تھے، نئے انتخابات کا مطالبہ زور و شور سے تھا، یہ سب تاریخ کی کتابوں میں درج ہے، یہ ہم سب جانتے ہیں، تخت مضبوط اور سڑکیں کمزور ہوتی ہیں، اس زمانے میں تخت سکڑتا سکڑتا زمان بن گیا اور سڑکیں پھیلتے پھیلتے دل عاشقی میں سما گئی، اسی دوران تحریک نفاذ مصطفی کا نقارہ بجنے لگا، جو بھی ہوا اچھا ہوا یا برا ہوا جو ہونا تھا سو وہ ہوگیا، ساتھیوں نے غلط اندازے لگائے بیکار مشورے دیئے-

ڈور ہاتھ سے نکلنے لگتی ہے تو صحیح مشورہ بھی کام نہیں آتا، مگر سیاست میں مصالحت اور مفاہمت کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے، سیاست میں یوٹرن لینے کو معیوب نہیں سمجھنا چاہیے، دوستیاں اور دشمنیاں تو لمحہ بہ لمحہ بدلتی رہتی ہے، اور ایک بات بالکل سچ ہے، سیاست میں کرسی سب سے زیادہ کمزور ہوتی ہے، وزیراعظم کو بھی لڑکھڑانے میں دیر نہیں لگتی، 2002ء کے انتخابات سیاسی نہیں تھے، لیکن ان انتخابات نے ہی جمہوریت کو پروان چڑھايا، ان انتخابات میں ملک کی ساری جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جس کے نتیجے میں ایم ایم اے کے ذریعے 70 ارکان اسمبلی کے اندر پہنچ گئے پی پی پی کے 80 ارکان منتخب ہوئے گویا یہ سب سے بڑی اپوزیشن بن گئی جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تھے، تین سال تک صرف ڈیسک ہی بجاتے رہے اور الائونسز لیتے رہے، اور شور مچاتے رہے کہ ہم اس سسٹم کو نہیں مانتے سوال یہ بنتا ہے کہ اگر آپ سسٹم کو نہیں مانتے تو انتخابات میں حصہ کیوں لیا؟

اس نام نہاد جمہوریت نے ہائوس کے اندر تین وزیراعظم تبدیل کیے اور جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھا، اور پانچ سال مکمل کرکے نئے انتخابات کا ڈول ڈالا، جس کے نتیجے میں 2008ء کی اسبملیاں وجود میں آئیں، قارئین پھر آپ یہ پانچ سالا جمہوری دور بھی دیکھ چکے ہیں، اور ہم سب نے ان پانچ سالا جمہوری دور میں کیا پایا اور کیا کھویا، اب ہم ان پانچ سالا جمہوری دور کو مانے یا نہ مانے، جو بیت چکا سو بیت چکا، جو مشرف دور میں وزیر مشیر اور اہل اقتدار تھے، اپنے حلقے اپنی سرکار کے منظور نظر بھی تھے، جو کل کرائسس میں مشرف کو مشورے دیتے تھے، وہی آج سرکار کو بھی مفید مشوروں سے نواز رہے ہیں، یہ بہت سی باتیں ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں، اور بہت سی باتوں کو جان بوجھ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی 77ء کے بعد 88ء کی تاريخ پڑھ لو، میاں صاحب اور شہید بی بی کا زمانہ یاد کرو، ایک زمانے میں پی پی پی بڑی جماعت بن کر ابھری تھی، اور اس نے قومی سطح کے کئی لیڈر بھی دیے، کئی بار حکومت بھی کی-

آج کی نسل کو ایک نئی پولیٹیکل جماعت تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک ملی ہے، اور انکے تازہ لیڈر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نصیب ہوئے ہیں، اب اس نسل کا ان کے پیچھے چلنا ان کے اشاروں پر چلنا ایک قدرتی امر ہے، اور مسلم لیگ ن ایک قدیم جماعت ہے، ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے انتہائی کمزور ہوچکی ہے، اس میں شامل تمام کارکنان لوٹے کہلاتے ہیں، 2002ء میں اس کے ارکان دوڑ کر پی ایم ایل ق میں شامل ہوگئے تھے، اور خوب اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد جب مسلم لیگ ن کا ظہور ہونے لگا تو دوڑ کر ن لیگ کی صفوں میں سما گئے، اور پھر انکو پہلے والے مراتب اور مناصب مل گئے، غور فرمائیے، اب ایک بار پھر مسلم لیگ ن پر برا وقت آچکا ہے تو یہ اس کا ساتھ دینے کے بجائے ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں کہ اب کس مسلم لیگ میں سمانا ہے، جب سے آزادی مارچ انقلابی مارچ شروع ہوئے ہیں، انکی رنگ برنگی باتیں نت نئے تبصرے اور نیوز سننے کو مل رہی ہے، سوال یہ ہے کہ کوئی بھی نئی حکومت آئے کیا ایسے پانچ سال پورے کرنے چاہیے، کیا آنے والی جمہوریت عوامی جمہوری حقوق پورے کررہی ہیں، کیا عوام ایسی جمہوریت سے خوش اور مطمئین ہے، کیا واقعی جمہوریت نے اپنے قدم مضبوط کرلیے ہیں، عوام کا اعتماد حاصل کرلیا ہے، آج بے وفائوں کی بے وفائی کا شکار تو نہیں ہوئی، کیا واقعی عوام اب آئندہ پانچ سالوں کے لیے دوبارہ ایسی جمہوریت کا انتخاب کریں گئے؟

دھاندلی کا رونا تو شہید بھٹو کی حکومت میں بھی رویا گیا تھا، دھاندلی ہمیشہ انتخابات پر ہی ہوتی ہے، اور پاکستان میں تو انصاف اور قانون نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں، یہاں قانون غریب کے لیے ہے امیر کے لیے نہیں، لوگ اتنی جلدی جمع کیوں ہوجاتے ہیں،جلوس بنا کر چلنا سڑکوں پر قیام کرنا جگہ جگہ روکنا نیند میں چلنا اپنا سکون برباد کرنا آسان کام نہیں ہوتا بھائی لوگوں، اب آزادی مارچ اور انقلابی مارچ کے نام پر کیوں اتنی مشکلات کھڑی کی گئی ہیں، کہ عوام بے سکونی کو گوراہ کرکے چل پڑے ہیں، آزادی مارچ اور انقلابی مارچ کا ڈرامہ ایک ہفتے کے اندر بے نتیجہ ہوکر اب اپنے انجام کو پہنچتا ہے، عمران خان اور طاہرالقادری وزیراعظم نواز شریف سے استیعفی مانگتے مانگتے اب حکومت سے مذاکرات کرنے پر راضی ہوچکے ہیں-

مخالفت کو مخاصمت بننے سے روک دینا چاہیے سیاسی اختلافات اسلام و کفر کا معرکہ نہیں ہوتے، پاکستان کے 18 کروڑ عوام کا مزاج جمہوری ہے، وہ اپنے آپ کو ووٹ کی طاقت سمجھتے ہیں، اس وقت آزادی مارچ اور انقلابی مارچ میں کتنی عوام شامل ہیں، عام آدمی کو اس سے کوئی سروکار نہیں، ہر پاکستانی نے اپنی سانس روک رکھی ہے، ہر پاکستانی اپنے وطن کی سلامتی مانگ رہا ہے، جمہوریت کا بدل جمہوریت ہی ہوتی ہے، کسی لیڈر کے ناکام ہونے سے جمہوریت ناکام نہیں ہوتی، جبر اور تشدد سے کوئی احتجاج روکتا نہیں، سو جمہوریت ڈی ریل ہونے سے بچ گئی اور دونوں مارچ مذاکرات کی میز پر بیٹھ چکے ہیں-

Mohsin Shaikh
About the Author: Mohsin Shaikh Read More Articles by Mohsin Shaikh: 69 Articles with 61254 views I am write columnist and blogs and wordpress web development. My personal website and blogs other iteam.
www.momicollection.com
.. View More