گزرے چند برسوں میں آزاد کا لفظ خاصا سننے اور پڑھنے کو
ملا۔ کبھی میڈیا آزادتو کبھی عدلیہ ، بسا اوقات یہ کلمہ جمہوری اداروں
کیلئے بھی استعمال ہوا مگر گذشتہ ہفتے میں سب کچھ دھرا کا دھرا رہ گیا اور
صاف صاف نظر آنے لگا کہ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔۔ہاں۔۔امید کا دامن نہ
چھوڑنے کا سبق جمہوری طاقتوں سے خوب ملا مگر پیٹھ پیچھے وار کرنے والے بھی
خاصے متحرک دکھائی دئیے ، ایسے ایسے چہرے بے نقاب ہوئے جو کئی برسوں سے
عوام کو بیوقوف بناتے رہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب، سندھ اور قومی
اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہونے ، ریڈ زون کی دھجیاں اڑانے، پارلیمنٹ جیسے
معتبر ادارے کے سامنے دھرنا دینے اور وزیر اعظم ہائوس پر دھاوا بولنے کے
بعد سیاسی بحران اب آئینی اور سیکورٹی بحران کی طرف بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔
بظاہر لگتا ہے کہ ایک جاری گیم پلان کے اختتام کا آغاز ہو چکا ہے اور
منطقی انجام قریب نظر آرہا ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے 11 مئی کے روز عام
انتخابات کی پہلی سالگرہ سے شروع ہونیوالی مبینہ دھاندلیوں کیخلاف تحریک کا
ایک پڑائو فیصل آباد بھی پڑا اور ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب رہے ۔
سیاسی دانائوں کا خیال ہے کہ اب تک ہونیوالا حکومت مخالف سارا احتجاج ایک
سکرپٹ کے تحت چل رہا ہے اور ایک بھی موقع پر اس ’’سیاسی ڈرامے ‘‘کے کردار
اور ہدایتکار سکرپٹ سے دور ہوتے دکھائی نہیں دئیے۔عمران خان پارلیمانی نظام
کا حصہ ہوتے ہوئے احتجاج کررہے تھے تو دوسری جانب عوامی تحریک کے قائد
طاہرالقادری موجودہ جمہوری اور پارلیمانی نظام سے باہر بیٹھ کر اس نظام کے
خلاف تھے ۔اسے جمہوریت کے خلاف سازش کہہ لیں یا کچھ اور ایک چیز طے ہے کہ
اتنی بڑی ’’ایکسر سائز‘‘ یعنی مشق بلامقصد نہیں ہے اور کچھ بڑا ہونے کو ہے۔
فیصل آباد، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، اور چنیوٹ پر مشتمل فیصل آباد ڈویژن
پنجاب بھر میں واحد ڈویژن ہے جس کی 20 قومی اسمبلی اور 40 صوبائی اسمبلی کی
نشستوں میں سے 11 مئی 2013 ء کے عام انتخابات میں سے تحریک انصاف کو ایک
بھی نشست نہ ملی ۔ تحریک انصاف کے امیدواروں کا جیتنے والے امیدواروں سے
ووٹوں کا مارجن بھی خاصا زیادہ تھا اور اس ڈویژن کی 60 نشستوں میں سے شاید
35 پنکچر والی بھی کوئی سیٹ نہیں۔ ان تمام حالات کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ
عام انتخابات کے بعد ہونیوالے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو گذشتہ سال
اگست میں گھنٹہ گھر اور اس کے اطراف کے شہری علاقوں پر مشتمل صوبائی اسمبلی
کے حلقے پی پی 72 سے فتح حاصل ہوئی اور یوں ایک سیٹ اس ڈویژن سے مل گئی جسے
تحریک انصاف کی قیادت نے اس کھاتے میں ڈالا کہ روز بروز تحریک انصاف پنجاب
کے شہری اور خصوصی طور پر مسلم لیگ نواز کے قلعے سمجھے جانے والے شہروں میں
مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ پھر مارچ 2014ء میں جھنگ کے حلقہ پی پی 81 میں
ہونیوالے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار کو 45 ہزار سے زائد ووٹ
ملے ۔ اسی حلقہ سے عام انتخابات میں تحریک انصاف کا امیدوار چند سو ووٹ لے
سکا تھا-
دراصل عمران خان اور طاہر القادری نے ہر طرح کے مذاکرات کے راستے بند کرکے
اپنے حمایتیوں کو مایوس کردیا ہے ۔سیاست میں اس طرح کے ڈیڈ لاک پیدا کرنا
کوئی اچھی روائت نہیں کیونکہ سیاسی جماعتیںاور انکی قیادت ہمیشہ واپسی کا
راستہ رکھتی ہیں ۔ طاہر القادری کے مقابلے میں عمران خان کا غیر سیاسی
انداز حیران کن ہے ، انہوں نے جو سول نافرمانی کا اعلان کیا وہ مایوسی کی
نشانی لگتی ہے ۔ کیونکہ اس طرح کا اعلان پورے نظام کو مفلوج بناسکتا ہے ۔
عمران خان کے اس اعلان پر ان کی اپنی پارٹی میں بھی حیرانگی ہوئی ۔ عمران
خان نے اپنی تقریروں میں جس طرح سے عالمی دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ حکومت
کے ساتھ کوئی بھی مالی معاہدہ نہ کریں براہ راست ملک کی معاشی صورتحال کو
مشکل میں ڈالنا ہے ۔ پہلے ہی معاشی حالت اچھی نہیں اوراب دھرنوں اور عالمی
اداروں سے مدد یا معاہدہ نہ کرنے کی اپیل کا انداز بھی غیر سیاسی ہے
۔استعفوں کے معاملے پر بھی تحریک انصاف میں مکمل اتفاق نہیں تھا ، لیکن
عمران خان کی جانب سے فیصلہ کرنے پر پارٹی کے لوگ مجبور نظر آتے ہیں ۔
وزیراعظم پر اگرچہ دبائو ہے لیکن انکے بقول وہ چند ہزار افراد کی خواہش پر
کسی بھی صورت میں استعفیٰ نہیں دیں گے ۔ اب دیکھنا ہوگا کہ دھرنوں کے شرکاء
کا اگلا ایکشن کیا ہوگا ۔ کیونکہ عمران خان نے دھمکی دی ہے کہ اگر وزیر
اعظم نے استعفیٰ نہیں دیا تو وہ اورشرکاء پارلیمنٹ ہائوس اور وزیر اعظم
ہائوس پر قبضہ کرسکتے ہیں ۔ اس لیے اب حکومت سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہے کہ وہ
اس مسئلہ کا حل کیسے نکالے ۔ ان حالات میں فوج کا بھی بڑا امتحان ہے کہ وہ
سیکورٹی کے پیش نظر ایسے کیا اقدامات کرے جس سے اسلام آباد کی سیکورٹی کو
یقینی بنایا جاسکے ۔ کیونکہ جس انداز سے لوگ دھرنا دئیے ہوئے ہیں ان میں
خطرات موجود ہیں کہ کوئی بھی فرد یہاں دہشتگردی کرسکتا ہے ۔اس لیے خود یہ
بات فوج کے حق میں نہیں ہوگی کہ ریڈ زون جیسے حساس علاقے میں لوگ اتنی بڑی
تعداد میں جمع ہوکر سیکورٹی کے نظام کو خطرے میںڈال دیں ۔حکومت کے ساتھ
عمران خان اور طاہر القادری کو بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ حالات کو جہاں لے کر
جارہے ہیں اس کے جو نتائج نکلیں گے وہ سب کو برداشت کرنا ہونگے۔ فوج حالات
دیکھ رہی ہے ، انکی خواہش ہے کہ سیاسی قیادت مل جل کر معاملات حل کرے ، اگر
ایسا نہیں ہوگا تو وہ اپنے آپ کو بہت زیادہ اس عمل سے باہر نہیں رکھ سکے گی
۔اس لیے اچھا ہوگا کہ عمران خان ،طاہر القادری او رحکومت دیگر جماعتوں کی
مدد سے ایسے مفاہمتی فارمولے پر پہنچ جائیں جو سب کیلئے قابل قبول ہو-
واضح رہے کہ چودھری نثار ایک روز قبل جہاں مارچ کو ریڈزون میں داخل ہونے سے
روکنے کیلئے سکیورٹی اقدامات کی وضاحت کر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ کس
طرح سے ریڈزون کی حفاظت کیلئے سکیورٹی فورسز کے حصار بنائے گئے ہیں تو
دوسری جانب انہوں نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ وہ دوستی بھی نبھائیں گے اور فرض
بھی ادا کریں گے اور چند ہی گھنٹوں بعد انہوں نے اپنے اس تبصرے کو سچا ثابت
کردیا کہ ریڈزون میں سکیورٹی فورسز کا حصار قائم کر کے ’’فرض نبھایا‘‘ تو
دوسری جانب پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ریڈزون میں داخلے کے وقت سکیورٹی فورسز
کے اہلکاروںکو ڈنڈے اور بندوقیں بغل میں دبائے رکھنے کا حکم دیا-
جو لوگ دھرنا دئیے ہوئے ہیں وہ اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ا س سے
ملک میں جمہوری عمل پیچھے کی طرف جاسکتا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ قومی
سیاست کیلئے اچھی بات نہیں ہوگی۔ ٭ |