فرعون جیسے مطلق العنان اور طاقتور حکمران کا نام آج دنیا
میں باعث نفرت اسلئے ہے کہ اس نے اپنی ریاست میں موجود عوام کے حقوق غصب
کئے اور جبرو استحصال کی پالیسیوں کے ذریعے اپنے اقتدار و تسلط کو قائم
رکھنے کیلئے تشد د اور قتل وغارت کا رویہ اپنا نے کے ساتھ عوامی حقو ق
کیلئے اٹھنے والے ہر آواز کو طاقت سے دبایا جبکہ دنیا کا ہرفرد آج بھی یزید
پر لعنت و ملامت بھیجتا ہے اور رہتی دنیا تک بھیجتا رہے گا کیونکہ اس نے
بھی فرعون کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اقتدار پر قابض رہنے کیلئے جبر اور ظلم
کا راستہ اپنایااور اس کیلئے نواسہ روسول کو بھی خان و خون میں تڑپانے سے
بھی گریز نہیں کیا جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے جس جس ریاست میں تحفظ
اقتدار کیلئے فرعونیت و یزیدیت کی روایت دہراکر واقعہ کربلا کو دہرانے کی
کوشش کی گئی ہر وہ ریاست انقلاب سے دوچار ہوئی اور تحفظ اقتدار کیلئے واقہ
کربلا دہرانے والوں کا حال بھی فرعون و یزید سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہوا
اسلئے ہم سب کو اس تاریخ سے سبق سیکھنے اور اس روایت سے خود کو محفوظ رکھنے
کی ضرورت ہے !
چیف جسٹس افتخار چوہدری اور چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی مددسے
انتخابی دھاندلیوں اور جعلی مینڈیٹ کے الزامات کے ساتھ اقتدار میں آنے والی
حکومت اور وزیراعظم کی جانب سے اب تک جتنی بھی پالیسیاں اور اقدامات منظر
عام پر آئیں انہیں کرپشن شکار بھی قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی یہ کہا
جاسکتا ہے کہ ان پالیسیوںسے عوام کے مفادات کیخلاف ہیںیا ان کے مضمرات سے
پاکستان کیلئے خطرات و خدشات میں اضافہ ہو لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت
نے عوامی مفادات کیلئے قانون کی حقیقی حکمرانی اور عام آدمی کو انصاف کی
فراہمی کے حوالے کسی بھی قسم کے اقدامات و قوانین سازی کی جانب توجہ قطعاً
نہیں دی جس سے تحریک انصاف کے دھاندلی کے الزامات کو تقویت حاصل ہوئی اور
14ماہ تک دھاندلی کی تحقیقات ‘ افتخار چوہدری اور فخرالدین جی ابراہیم کے
احتساب کے مطالبات پر عدم توجہ کی حکومتی پالیسی کے باعث عمران خان اور
تحریک انصاف کی جانب سے عوامی احتجاج کا فیصلہ کیا گیا جس پرعملدرآمد شاید
ممکن نہیں ہوتا لیکن ادارہ منہاج القرآن پر ریاستی تشدد کے باعث ہلاکتوں نے
عوامی احتجاج کیلئے فضا سازگار بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور آج اسلام
آباد عوام کے سمندر کا نظارہ پیش کررہا ہے اور اگر ان حالات میں میڈیا پر
پیش کی جانے والی منظر کشی کے مطابق آزادی مارچ اور انقلاب مارچ پر تشدد کے
حکومتی حکم پر عدم عملدرآمد کے باعث آئی جی اسلام آباد آفتاب چیمہ کو عہدے
سے ہٹاکر لاکھوں نفوس پر مشتمل اس پر امن و منظم عوامی تحریک کو نئے آئی جی
اور پنجاب پولیس کی مدد سے کچلنے کیلئے اسلام آباد کو کربلا بنانے کی کوشش
کی گئی تو یقینا اس کے نتائج نہ پاکستان کے حق میں ہوں گے ‘ نہ عوام اور نہ
ہی خود حکمرانوں کے حق میں نکلیں گے!
پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان سے جمہوری اور پارلیمانی طرز عمل کے
مظاہرے کا مطالبہ کرنے والے اگر 14ماہ قبل ہی دھاندلی کے الزامات پر بذات
خود جمہوری رویئے کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے وفد کو ایوان
وزیراعظم بلاکر اس وفد سے ملاقات کرکے انہیں ان کے تحفظات کے خاتمے کا یقین
دلاکر اس حوالے سے اقدامات کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے اور حکومتی وزرا
بالخصو ص وزیراطلاعات پرویز رشید ‘ وزیر پانی و بجلی عابد شیر علی ‘ وزیر
دفاع خواجہ آصف اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق میڈیا پر بیانات دیتے ہوئے
لب و لہجے پر قابو اور الفاظ کے انتخاب میں احتیاط سے کام لیتے تو شاید آج
حالات اس مقام پر نہ پہنچتے جہاں جا پہنچے ہیں مگر شایدیہ سب کسی پالیسی و
پلاننگ کا حصہ ہے اور حالات جان بوجھ کر پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جائے
جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب تک ترش و تند لب و لہجے اور تضحیک و دھمکی کے
انداز اپنانے والوں کا بیانات دینے سے نہ توروکا گیا ہے اور نہ ہی انہیں
کسی اخلاق و اخلاقیات کا پابند بنایا گیا ہے یہی وجہ ہے جماعت اسلامی ‘
پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے حکومت و تحریک انصاف کے
درمیان ڈیڈ لاک کے خاتمے کیلئے جاری کوششوں کے تحت حکومتی مذاکراتی کمیٹی
اور تحریک انصاف و پاکستان عوامی تحریک کی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان ہونے
والے مذاکرات کے دوران کسی مناسب مقام تک پہنچنے کا انتظار کئے بغیر
پارلیمنٹ میں جمہوریت کے نام پر تحریک انصاف و طاہرالقادری کی مخالفت میں
قراردادوں کی منظوری اور حکومت و نوازشریف کے حق میں کی جانے والی تقاریر
کے بعد وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی جانب سے پارلیمنٹ کے باہر تحریک انصاف
اورپاکستان عوامی تحریک پر پارلیمنٹ کے دشمن ہونے کا الزام لگاکر اپوزیشن
جماعتوں کی مذاکرات کیلئے کی جانے والی سنجیدہ ‘ دیانتدارانہ ‘ جمہوری اور
محبانہ کوششوں کو دانستہ سبوتاژ کیا گیا اور اس سے قبل آئی جی اسلام آباد
آفتاب چیمہ کو اسلام آباد میں موجود عوامی سمندر پر تشدد کی حکم عدولی کے
جرم میں ہٹاکر ان کی جگہ نئے آئی جی خالد خٹک کو تعینات کئے جانے اور پنجاب
پولیس کے ذریعے” آپریشن جمہوریت “کے ذریعے ”آمریت “ کی راہ ہموار کرنے کی
میڈیا اطلاعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ میاں نواز شریف جیسے معتدل مزاج ‘
دھیمے ‘ ٹھنڈے اور میٹھے لہجے کے حامل محب وطن پاکستانی پر یا تو اختیار و
اقتدار کا رنگ چڑھ چکا ہے یا پھر وہ نادانستگی میں جمہوریت کا نام لیکر
خاندانی سیاسی و استحصالی نظام کو بچانے کی سازش میں مہرے کا کردار ادا
کررہے ہیں اور کل تک اقتدار کی نعمتوں سے محروم اور مفلوک پرویز رشید ‘
خواجہ سعد رفیقاور عابد شیر علی قسمت سے مل جانے والے اقتدار و ایوان کی
رکنیت بچانے کی کوشش میں انجانے میں پوری سیاسی بساط لپیٹے جانے کی راہ
ہموار کررہے ہیں !
دوسری جانب یہ بھی عین ممکن ہے کہ عمران خان کی جانب سے ملک بھر اور
بالخصوص اسلام آباد ‘ راولپنڈی اور پشاور و خیبر پختونخوان سے مزید عوامی
قافلوں کے اسلام آباد پہنچنے کی اپیل کے بعد اسلام آباد کی جانب آنے والے
قافلوں میں خیبر پختونخواہ میں موجود عمران خان کے سب بڑے دشمن کی ہدایت پر
خود کش حملہ آور بھی پنڈال میں پہنچ کر عمران خان کو اڑانے یا دھماکے کے
ذریعے سراسیمگی و خوف پھیلاکر مجمع منتشر کرکے آزادی مارچ کو ناکام بنانے
کی کوشش کی جائے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ مجمع میں ایسے دہشتگرد پہنچادیئے جائیں جو عمران خان پر
قاتلانہ حملہ کریں یا مجمع کے درمیان سے فائرنگ کے ذریعے پولیس کو مجمع پر
گولیاں چلانے کا موقع فراہم کریں جبکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ آج کی رات
مجمع میں ایسے ”گلو بٹ “ شامل ہوجائیںجو اپنے کردار کے ذریعے مجمع کو
پرتشدد ثابت کرکے پولیس و مظاہرین کے درمیان اشتعال انگیزی کے ایسے اسباب
پیداکریں جس کے بعد اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پڑنے والا ”رَن“
حقیقی معنوں میں کربلا کا منظر پیش کرنے لگے اور افواج پاکستان کردار وعمل
‘ بیانات و اقدامات کے ذریعے دانستہ پیداکی جانے والی صورتحال کے باعث
مجبور ہوکرملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ایسے اقدام پر مجبور ہوجائیں جسے
”آمریت “ کہا جاتا ہے ۔
لہٰذاان حالات میں ضروری ہوچکا ہے کہ قبل اس کے کہ حکومتی نادانی اسلام
آباد کی سڑکو ں کو لہو رنگ بنانے کا باعث بن جائے اور فوج پر آمریت کا
الزام ایکبار پھر سے لگ جائے۔ فوج کو دونوں فریقین کو قومی مفاد میں مشاورت
و مذاکرات کے ذریعے 24گھنٹوں میں حالات معمول پر لاکر سیاسی و پارلیمانی
نظام میں فوری اصلاحات کے ذریعے جمہوری ثمرات کو عام عوام تک منتقل کرنے کا
پابند بنانا ہوگا بصورت دیگر فوج پر آمریت کا الزام تو ہر حال میں لگنا ہی
ہے اب وہ جلد لگے یا تاخیرسے اس سے فوج کو کوئی فرق نہیں پڑتا مگ تاخیر
شاید ملک اورقوم دونوں کیلئے ہی انتہائی نقصان دہ ضرور ثابت ہوگی اور
ہوسکتا ہے ان ہمیں کامل یقین ہے کہ اب سطور کی اشاعت تک فوج ہمارے تجزیئے
کے مطابق اپنے اس کردار میں سے کسی ایک راہ کاانتخاب کرکے ملک اور نظام
بچانے میں کامیابی کو یقینی بناچکی ہو گی ۔
|