روزانہ کوئی ایک آدھ خبر چھپتی
ہے کہ وزیر اعلی نے فلا ں واقعہ کا نوٹس لے لیا……وزیر اعلی متاثرہ خاندان
سے اظہار ہمدردی کے لیے انکے گھر پہنچ گے…… وزیر اعلی پنجاب نے فلاں واقعہ
کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔اور وزیر
اعلی نے پولیس کو ہدایت کی کہ متاثرہ خاندان کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے ۔
وزیر اعلی نے کہا کہ متاثرہ خاندان کو ہر قیمت پر انصاف فراہم کریں گے اور
ملزمان سزا سے نہیں بچ پائیں گے……بلکہ وزیر اعلی سے وزیر اعظم پاکستان تک
یہاں تک دعوی کرتے ہیں کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ملزمان
کو قرار واقعی سزا نہیں دلوائی جاتی۔
کبھی خبر شائع ہوتی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اخبارات میں شائع ہونے
والی فلاں خبر پر از خود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ محکمہ جات سے رپورٹ طلب
کرلی ہے،پھر خبر آتی ہے کہ آئی جی پولیس نے فلاں خبر یا واقعہ کی ضلع کے
پولیس افسر سے رپورٹ مانگ لی ہے۔پھر خوشخبر ی سنائی دیتی ہے کہ ہائی کورٹ
کے چیف جسٹس نے فلاں ضلع میں ہونے والی بے ضابطگئیوں کی خبر پر از خود نوٹس
لے لیا وغیرہ وغیرہ……از کود نوٹس کی چند دن تک اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا
میں کھپ شپ خوب رہتی ہے ۔ان چند دنوں کی چاندنی کے بعد پھر اندھیری رات
عوام کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
اٹک سے لیکر صادق آباد تک،کشمور سے خیبر تک عام آدمی تھانہ ،کچہری اور
تحصیل میں براجمان خود سر تھانے داروں ، منصفوں اور تحصیلداروں اور پٹواروں
کے ہاتھوں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کی کوئی نہیں سنتا ……جس کسی کے
پاس بھی یہ بے چارے لوگ داد رسی کے لیے جاتے ہیں ۔وہ ’’مینوں نوٹ وکھا میرا
موڈ بنے‘‘ گنگنانے لگتا ہے۔ بنا نوٹ وکھائے صبح سے شام تک یہ عام پاکستانی
تھانوں ،کچہریوں اور تحصیلوں کے باہر فریادیں کر کرکے تھک ہار کر واپس
گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔ انکی تقدیر کب بدلے گی؟ جمہوریت کے اثرات ان تک کب
پہنچیں گے؟
وزیر اعلی سے وزیر اعظم تک اس بات کو تسلیم کرنے سے کیوں ہچکچا ہٹ محسوس
کرتے ہیں کہ سسٹم میں تبدیلی لانے کی انکی کوشش بے کار ثابت ہو رہی ہیں۔
سسٹم اگر درست ہو تو آئے روز وزیر اعلی اور وزیر اعظم کو کسی واقعہ کے
رونما ہونے کی خبریں شائع اور نشر ہونے پر نوٹس لینے کی ضرورت کیوں پیش آتی
ہے؟ ہر نحکمہ میں بیٹھے ہوئے سرکار کے اعلی سے ادنی ملازمین کیوں حرکت میں
نہیں آتے۔کیونکر اپنی ذمہ داریاں اور فرائض کی بجا آوری لاتے؟ یہ سب سسٹم
کی خرابی کے باعث ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت پچھلے چھ سالوں سے
سسٹم کو درست سمت میں لانے کے لیے بہت بلند دعوے کرتے چلے آ رہے ہیں۔درمیان
میں چودہری پرویز الہی کی حکومت بھی تھانہ کلچر، کچہری اور تحصیل کے پٹواری
کلچہر کے ساتھ ساتھ سسٹم کی تبدیلی کے لیے اپنی کوشش کر چکے ہیں۔مگر
حکومتیں گھروں کی راہ لے گئیں مگر یہ سسٹم ویسا کا ویسا ہی چل رہا ہے……
کیا کبھی مہذب اور ترقی یافتہ ممالک سے بھی کبھی کوئی ایسی خبر آئی ہے کہ
وزیر اعظم نے فلاں واقعہ پر از خود نوٹس لیا ہے۔یا کبھی کوئی خبر میڈیا کی
زینت بنی ہو کہ امریکہ ،برطانیہ، فرانس،جرمنی میں وہاں کے چیف جسٹس صاحبان
نے کسی خبر کے شائع اور نشر ہونے پر از خود نوٹس لے کر کارروائی کا آغاز کر
دیا ہے…… وہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا ؟ اس لیے کہ وہاں باقاعدہ سسٹم اور نظام
موجود ہے۔ وہاں اداروں کے اوپر کسی قسم کا دباو نہیں ہے ……جبکہ ہمارے ہاں
ایم پی اے اور ایم این ایز اور وزرا کی کامیابی کا دارومدار ہی تھانہ
کچہری،تحصیل اور ضلع میں انتظامی افسران کی تعیناتیاں اور تبادلوں سے مشروط
ہے۔
وزیر اعلی سے لیکر وزیر اعظم تک کی خدمت مین عرض کرنا چاہوں گا کہ اپنی
تمام تر توانیاں صرف کر کے ایک ایسے سسٹم کی بنیاد رکھیں جس میں انہیں کسی
خبر کے شائع ہونے یا نشر ہونے کے بعد از خود نوٹس لینے کی ضرورت ہی پیش نہ
آیا کرے۔اور ہر ضلع کی انتظامیہ کو خود بخود ہر ظلم کرنے والے کا ہاتھ
روکنے کے قابل ہو نا چاہئیے ۔اس طرح عوام ہر ظلم و زیادتی اور نا انصافی کے
خلاف اقتدار کے ایوانوں کی جانب نہ دیکھیں گئے جس دن ایسا کرنے میں ہمارے
حکمران کامیاب ہو گے تو سمجھ لینا جمہوریت کے ثمرات حاصل ہو گے ورنہ چاہے
تین تین سال بعد انتخابات منعقد کروائے جائیں کچھ حاصل نہ ہوگا بلکہ سب
بیکار اور رائیگاں جائیگا- |