سِول نافرمانی اور جتھا راج

پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
شرمناک،انتہائی شرمناک،18معصوم طوفانِ بادوباراں کی بھینٹ چڑھ گئے اور80سے زائدہسپتالوں میں بے یارومددگار۔ہرہسپتال میں ایمرجنسی کانفاذلیکن صوبے کاسربراہ موسیقی کی دھن پرسٹیج پرناچتارہا،بنی گالہ کا’’لاڈلا‘‘جھومتارہااور’’امریکی بھگوڑا‘‘دھمال ڈالتارہا۔سچ کہامولانافضل الرحمٰن نے کہ’’یہ آزادی نہیں ناچ مارچ ہے‘‘۔ دھرناکپتان صاحب کا ہویامولاناطاہر القادری کا،ہر جگہ بھنگڑے اورڈانس ہی نظرآتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بیس پچیس ہزار مرد و زن مِل کر پکنک منا رہے ہوں۔مولاناطاہرالقادری اپنے مقصدمیں کامیاب کہ اُن کاتوایجنڈاہی افراتفری اورانارکی ہے۔میں اکثرسوچاکرتاتھاکہ آخرخودکُش بمبارکیسے بنائے جاتے ہیں اوریہ کس ناحیے کے لوگ ہیں جوہنس کرموت کوگلے لگالیتے ہیں لیکن میری یہ الجھن مولاناقادری نے دورکردی۔اگرکوئی ’’برین واشنگ‘‘کے فن میں طاق ہوناچاہے تومولاناصاحب کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کردے۔تسلیم کرناپڑے گاکہ اُن کے خطبات میں ایساسحراوراداکاری اتنی پرفیکٹ ہے کہ سامع اورناظرمسحور۔عقیدت گزیدہ کی توبات ہی کیا،اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی اُن کے سحرمیں گرفتار۔انٹرنیٹ مولاناکے کارناموں سے لبالب لیکن یہ عالم وفاضل اِس پردھیان دینے کوتیارنہیں۔وہ سوات کے مولاناصوفی محمدکوتودہشت گردقراردیتے ہیں لیکن جب مولاناقادری وہی مطالبات لے کرسامنے آتے ہیں تواُنہیں بلاجھجک’’مُرشد‘‘تسلیم کرلیتے ہیں۔شایدیہ’’حُبِ علیؓ نہیں،بغضِ معاویہؓ ‘‘ہے اوروہ اپنے بغض میں اتناآگے بڑھ چکے ہیں کہ میاں برادران کانام سنتے ہی آپے سے باہرہوجاتے ہیں۔جب ایسے عقیل وفہیم لوگوں کی راہیں اُلجھ چکی ہوں توپھرقوم کی بربادیوں کانوحہ پڑھ لیناچاہیے کیونکہ یہی تووہ لوگ تھے جِن سے ناتراشیدہ ہیروں کی تراش خراش کاکام لیاجانا تھا۔

دھرنادیئے بیٹھے رہنماتواپنی ضدمیں اٹل ہیں ہی کہ اُن کاایجنڈاہی یہی ہے لیکن میاں برادران بھی کسی سے کم نہیں۔میری یہ مجال کہاں کہ کہہ سکوں’’نیروچین کی بانسری بجارہاہے ‘‘لیکن یہ کہنے کی جسارت ضرورکہ میاں صاحبان کا رویہ ناقابلِ فہم ہے۔ ماناکہ وزیرِ اعظم صاحب کے پاس دوتہائی اکثریت ہے اور342کے ایوان میں307اُن کے کندھے سے کندھاملائے کھڑے ہیں لیکن یہ دوتہائی اکثریت تواُس وقت بھی تھی جب آمرمشرف نے اُن کی حکومت کاتختہ اُلٹا۔تاریخ تو یہی بتلاتی ہے کہ سازشی عناصرہمیشہ قلیل اقلیت میں ہوتے ہیں جواپنی سازشوں کے بَل بوتے پراکثریت پراکثرحاوی ہوجاتے ہیں لیکن نوازلیگ اب بھی اپنی اکثریت کے زعم میں مبتلاء اورمیاں برادران کارویہ یہ کہ
کب دہلا ہے آفاتِ زمانہ سے میرا دل
طوفاں کوجوآناہے تودروازہ کھلاہے

مولاناطاہر القادری تو’’فارن فنڈنگ‘‘کے سہارے اپنے مغربی آقاؤں کے ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر ہرسال پاکستان پرحملہ آورہوجاتے ہیں البتہ’’انوکھے لاڈلے‘‘کے بارے میں حسنِ ظن تھاکہ اُس کاخمیرپاک وطن کی مٹی سے اُٹھاہے اور اُس کی چاہتوں کا محور و مرکز پاکستان ہے ، محض پاکستان ۔لیکن’’خواب تھاجوکچھ کہ دیکھاتھا ،جوسُناافسانہ تھا‘‘۔ محترم خاں صاحب نے ثابت کردیاکہ ہوسِ اقتدار کی تگ و دَو میں وہ بھی کسی سے کم نہیں۔اُنہوں نے ایک لاکھ موٹرسائیکلوں اوردس لاکھ انسانوں کے ہجوم کے ساتھ اسلام آبادپرحملہ آورہونے کی ٹھانی لیکن اپنے مقصدمیں بری طرح ناکام ہوئے۔تب اُن کی’’ انانیت‘‘ نے اُنہیں ایسادرس دیاکہ سبھی انگشت بدنداں۔اُنہوں نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کرکے یہ ثابت کر دیا کہ اُن کی چاہتوں کا محور و مرکز دھرتی ماں نہیں ’’کُرسی‘‘ ہے محض کرسی۔ خاں صاحب جانتے ہی ہونگے کہ سول نافرمانی کی تو تاریخ ہی یہی ہے کہ یہ ہمیشہ بیرونی غاصبوں کے خلاف شروع کی جاتی ہے اپنے ملک اوراپنی حکومت کے خلاف نہیں۔وہ یہ بھی جانتے ہونگے کہ یہ صریحاََ غیرآئینی فعل ہے جس پرآرٹیکل چھ کااطلاق ہوسکتاہے۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک صوبے میں اُن کی اپنی حکومت ہے اور اُن کے وزیرِِ اعلیٰ پرویزخٹک واشگاف الفاظ میں یہ کہہ جکے ہیں کہ اُنکی حکومت مستعفی نہیں ہوگی۔اگرسول نافرمانی کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے(جِس کادوردورتک کوئی امکان نہیں)توپھرپرویزخٹک صاحب خیبرپختونخوا کی حکومت کیسے چلاپائیں گے؟۔ اگر خاں صاحب کو سول نافرمانی کا اتنا ہی شوق ہے تو اُنہیں چاہیے کہ پہلے وہ اِس پارلیمنٹ سے مستعفی ہوں جسے وہ جعلی قرار دے رہے ہیں ۔پرویز خٹک صاحب کو خیبر پختونخوا حکومت سے دست بردار ہونے پر آمادہ کریں اور پھر سول نافرمانی کا شوق پورا کر لیں۔

خاں صاحب ہمیشہ وطنِ عزیز کو قائدِ اعظم کا پاکستان بنانے کے دعوے کرتے رہے اور اُن کے کاسہ لیس لکھاری اُنہیں ’’قائدِ اعظم ثانی‘‘ کے خطاب سے نوازتے رہے لیکن پتہ یہ چلا کہ خاں صاحب کا آئیڈیل تو گاندھی ہے اور وہ فرموداتِ قائدِ اعظم نہیں ، فرموداتِ گاندھی پر عمل پیرا ہیں ۔سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان سے ذرا پہلے اُنہوں نے بنی گالہ میں ایک نیوز چینل کی اینکر پرسن کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ اُن کا سٹائل ’’گاندھی ‘‘جیسا ہے ۔شاید خاں صاحب نہیں جانتے کہ جب گاندھی جی نے ہندوستان میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو قائدِ اعظم نے اسے تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ کانگرس بھی چھوڑ دی۔پوری قوم تو آج بھی محمد علی جناحؒ کو ہی قائدِ اعظم تسلیم کرتی ہے اور انشاء اﷲ تسلیم کرتی رہے گی البتہ سونامیوں کو نوید ہو کہ ان کے قائدِ اعظم گاندھی جی ہیں۔

وزیرِخزانہ جناب اسحاق ڈارکہتے ہیں کہ’’ پہلے پاکستان اقتصادی طورپردیوالیہ ہونے کے قریب تھالیکن حکومت کی محض ایک سالہ کارکردگی کی بناپردُنیابھرکی اقتصادی سروے رپورٹس سے یہ ظاہرہونے لگاکہ پاکستان بہتری کی جانب گامزن ہے۔اب دھرنوں کی سیاست سے ایک دفعہ پھر سبھی چونک اُٹھے ہیں اورIMFکے وفدنے بھی پاکستان آنے سے انکارکردیاہے۔اِس افراتفری میں ساڑھے چارسوارب کانقصان ہوچکااور سٹاک مارکیٹ کریش کرگئی‘‘۔جنابِ اسحاق ڈار کو علم ہونا چاہیے کہ محترم عمران خاں کے ایوانِ اقتدار تک پہنچنے کی صرف ایک ہی راہ تھی کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکتا اور خاں صاحب ’’نئے پاکستان ‘‘ کا نعرہ لگا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتے ۔لیکن ڈار صاحب نے خاں صاحب کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا ۔اقتصادی طور پر مضبوط پاکستان میں بھلا کپتان صاحب کی گنجائش کہاں؟۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643072 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More