یہ کالم جب تک آپ کی نظروں سے
گزرے تو ہوسکتا ہے کہ حالات یکسر بدل چکے ہوں۔ ’’انقلاب‘‘ آچکا ہو یا ’’کرسی‘‘
اور انقلاب کی باقیات کو ہم سمیٹ رہے ہوں۔ ’’ڈیل‘‘ کرنا ہمارا قومی وتیرہ
بن چکا ہے۔ ملک میں ہر سطح پر ’’ڈیل‘‘ کا نظام رائج ہے۔ لگتا ہے کہ اس
مرتبہ بھی کچھ ایسا ہی ہوگا دو پارٹیاں ایک ساتھ جب آبپارہ چوک کے اطراف
پارلیمنٹ ہاؤس سے ایک کلو میٹر دور بیٹھی نظر آئیں تو ذہن اس خوش اسلوبی
اور منظم انداز میں کی گئی ’’ڈیل‘‘ کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکا ’’تم اپنی
حدود میں رہو اور ہم اپنی۔ مقصد ہمارا ایک ہے۔‘‘ ڈیل کسی ’’نیک‘‘ مقصد کے
لیے کی گئی ہو یا ’’کرسی‘‘ حاصل کرنے اور ’’انقلاب‘‘ لانے کی خاطر ’’ڈیل تو
آخر ڈیل ہی ہے نا۔‘‘
موجودہ صورت حال سے جس طرح پاکستانی قوم گزر رہی ہے یا اس قوم کو گزرنے پر
مجبور کیا جا رہا ہے، پاکستان کی تاریخ میں تلاش کرنے سے بھی اس کی مثال
نہیں ملتی۔ اردو اور انگریزی کی لغات میں بہت سر کھپانے کے بعد بھی مجھے
کوئی ایسا لفظ نہ ملا جو انقلاب اور بلیک میلنگ کو ہم معنی ثابت کردے، لیکن
اب شاید لغات میں ان الفاظ کی تعریف کو تبدیل کرنا پڑے۔
کوئی افراتفری سی افراتفری ہے۔ بڑی چھوٹی کئی سیاسی جماعتیں تو ملک میں
انقلاب برپا کرنے اور ’’آزادی‘‘ کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں اور وہ سیاسی
پارٹیاں جو انقلاب کی گنگا میں ہاتھ نہ دھو سکیں، تھوڑے سے پانی میں اپنی
انگلی ڈبونے کے لیے ازخود مذاکراتی کمیٹی بنانے کے فیصلے کر بیٹھیں۔ صاحب!
آپ خود سوچیے، جب میڈیا مستقل دو چار پارٹیوں ہی کے راہ نماؤں کے نام کا
جاپ کر رہا ہو گا تو ’’نام‘‘ باقی نہ رہنے کا خوف اور سیاست کی بقا کی
خواہش تو بہرحال پریشان کردے گی۔ سو پیپلزپارٹی کی حکمت عملی بھی اس سارے
معاملے میں خوب رہی۔ ’’ننھا‘‘ بلاول ٹوئٹر پر اپنے موبائل فون کے ذریعے
پیغامات دیتا رہا اور مزے کی بات یہ ہے کہ بلاول کے انگریزی پیغامات میں
ہمیشہ اردو زبان کے چٹخارے موجود ہوتے ہیں۔ وہی بلاول بھٹو زرداری جو اردو
زبان سے اتنا ہی واقف ہے جتنا پاکستان میں رہنے والا کوئی سبزی فروش
انگریزی زبان سے واقف ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو کو پیغامات لکھ کر دینے والوں کو
جب اتنا ہی کافی نہ لگا تو مذاکراتی کمیٹی بنانے کا اعلان سامنے آگیا۔ چلیں
اچھی بات ہے۔ یہ ایک خوش آئند عمل ہے کہ ملک میں پھیلے یا پھلائے جانے والے
انتشار کو روکنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتیں اپنا مثبت کردار ادا کر رہی
ہیں یا ایسا کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔
حکومت اور انقلابیوں کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے والوں کے مصالحتی
کردار کو سراہے بغیر نہیں رہا جاسکتا، مگر نہ جانے یہ کمیٹیاں اس وقت کیوں
نہ قائم کی جاسکیں اور اپنا کردار اد ا نہ کرسکیں جب انقلاب کی خواہاں
پارٹیاں چودہ اگست کے انقلاب کا ’’بگل‘‘ بجا رہی تھیں اور ان کی طرف سے
آزادی اور تبدیلی کے ڈھول پیٹے جا رہے تھے۔ آخر انتظار کس بات کا تھا۔ اور
تو اور خود حکومت بھی جس کے خلاف معرکہ شروع ہونے جا رہا تھا یوں بے
اعتنائی کا مظاہرہ کر رہی تھی جیسے یہ سب کسی اور دیس میں ہورہا ہو۔ یوں
لگتا ہے جیسے سب نے سوچ رکھا ہو کہ جب میلہ سجے گا تب تماشا دیکھیں گے۔
یہ ہماری قومی خصلت بن چکی ہے کہ ہم کسی بحران اور مصیبت کو روکنے کے لیے
کچھ نہیں کرتے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کوئی بحران یا مشکل ہمارے دروازے پر
پہنچنے کو ہے ہم سکون سے بیٹھے رہتے ہیں اور اس سے بچنے کی کوئی تدبیر نہیں
کرتے۔ جب پانی سر سے گزرنے لگتا ہے تب ہی حالات کی بہتری کے لیے سوچا اور
لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔ تھر میں کچھ عرصہ قبل پیش آنے والی کرب ناک
صورت حال ہی کو یاد کیجیے۔ کتنے ہی معصوم بچے قحط اور خشک سالی کی بھینٹ
چڑھ گئے۔ کتنے ہی خاندان بھوک کے صدمے سہ کر دربہ در ہوگئے۔ یہ سب اچانک
نہیں ہوا۔ اس خطرے کی گھنٹی کب سے بج رہی تھی، لیکن مجال ہے کہ حکومت میں
بیٹھی کسی جماعت کو تھر کے معصوم لوگوں کا خیال آیا ہو یا اپوزیشن میں
بیٹھی جماعتوں نے تھر کے باسیوں کے بارے میں سوچا ہو۔
بین الااقوامی میڈیا چیخ چیخ کر حکومتی بے حسی پر طمانچے مارتا رہا۔
پاکستانی میڈیا نے شور مچایا۔ تب کہیں جاکر ہماری سیاسی جماعتیں ہوش میں
آئیں۔ جب تھر میں صورت حال بہت بگڑ چکی تو کہیں جاکر حکومت نے اپنی
کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور حزب اختلاف کی جماعتیں مدد کے لیے پہنچیں۔ مگر
کیا واقعی یہ لوگ تھر کے مصیبت زدہ عوام کی مدد کر رہے تھے؟ اگر ایسا ہوتا
تو حالات بہت جلدی بدل جاتے۔ درحقیقت ہر کوئی اپنی دکان چمکا رہا تھا۔
میڈیا کے سامنے اہل تھر کی مدد کے معاملے میں ایک دوسرے سے آگے رہنے کا
تمغہ لینے کے لیے سب ہی بے تاب تھے۔ مدد ہوئی اور وقتی طور پر معاملات کو
سلجھا دیا گیا، لیکن حکومتی اداروں سمیت مستقبل کی کوئی حکمت عملی کسی نے
بھی تیار نہ کی۔ چناں چہ تھر کی موجودہ صورت حال پھر خطرے کی گھنٹی بجا رہی
ہے۔ خبروں کے مطابق تھر کو ایک بار پھر خشک سالی اور قحط کا سامنا ہے، لیکن
اس بدقسمت خطے کے رہنے والوں کو اس آفت سے بچانے کے لیے حکومت کی طرف سے
کوئی اقدام نظر نہیں آرہا، نہ ہی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اس ایشو پر
آواز اٹھارہی ہیں۔ ان حالات میں خدشہ ہے کہ تھر میں ایک مرتبہ پھر قیامت
برپا ہوگی اور وہی خوف ناک اور کرب انگیز مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہوں
گے جو کچھ عرصہ قبل ہمیں رُلا چکے ہیں۔
خدا نخواستہ اگر پھر ایسا ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا۔ حکومت اور حزب اختلاف
کی جماعتیں سب اس ’’ہونے‘‘ کے بعد کمیٹیاں تشکیل دیں گی۔
اسی طرح دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے باعث اپنا گھربار چھوڑنے والے افراد
یعنی آئی ڈی پیز کس حال میں ہیں؟ کچھ پتا نہیں۔ بعض خبریں بتاتی ہیں کہ ملک
میں امن کی خاطر اپنے گھر کی قربانی دینے والے آئی ڈی پیز اب تک مسائل کا
شکار ہیں، لیکن ان کی کسی کو فکر نہیں۔ حکومت کے مخالفین حکومت گرانے کی
کوشش کر رہے ہیں اور حکم راں اپنا اقتدار بچانے میں مصروف، میڈیا اسلام
آباد کی رونقیں دکھانے میں مشغول ہے اور ہم سب اس سیاسی میلے کے پَل پَل کے
مناظر دیکھنے میں مگن ہیں۔ ایسے میں آئی ڈی پیز کو کون پوچھے گا اور تھر کی
پروا کسے ہوگی۔
انقلاب، آزادی، تبدیلی، انھیں روکنے کی کوششیں، ان سرگرمیوں کی میڈیا
کوریج․․․․․یہ سب عوام کے لیے ہے، اور تھر سے ملک کے شمال تک عوام مصیبتیں
جھیل رہے ہیں اور نئے مصائب کے منتظر ہیں۔ |