چلو،چلو! اسلام آبادچلو
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
آپریشن ضربِ عضب دھرنوں کی دھول
میں گُم ہوگیا،آئی ڈی پیزکی بے بسی وبے کسی پرمایوسیوں کی سیاہ چادر ڈال دی
گئی اورہم نے انقلاب کی خاطر’’چلو،چلو! اسلام آبادچلو‘‘کے نعرے لگانے شروع
کردیئے۔ ڈاکٹرطاہرالقادری نے دھرنے کے شرکاء کی تعدادسے مایوس ہوکرپوری قوم
کودھرنے میں شرکت کی اپیلیں کرناشروع کردیں اورمحترم خاں صاحب نے سول
نافرمانی کی تحریک کاآغازکرکے قائدِ اعظمؒ کااحسان اتارنے کی تگ
ودَو۔اگرخُدانخواستہ سِول نافرمانی کی تحریک کامیاب ہوگئی توپھرخاکم بدہن
ہمیں ایک دفعہ پھراُسی کرب سے گزرناپڑے گاجس سے دسمبر1971ء
کوگزرناپڑاتھا۔ہم توکرب سے آشناہیں کہ بچشمِ نَم پاکستان کودوٹکڑے ہوتے
دیکھالیکن نسلِ نَوکوکیاپتہ کہ یہ کرب کیاہوتاہے۔ہماراجینامرناتواسی دھرتی
سے جُڑاہواہے۔رہنماؤں کاکیاہے اُن کے توپوری دُنیامیں ٹھکانے ہیں۔یہاں نہ
سہی تووہاں سہی۔سوچناتونسلِ نَوکوہے کہ کہیں اُن کے جذبات سے کھیلاتونہیں
جارہا؟۔کہیں اُن کی معصومیت کولہومیں ڈبوکرہوسِ اقتدارکی راہوں
کوہموارتونہیں کیاجارہا؟۔کہیں کوئی خفیہ ہاتھ افراتفری اورانارکی پیداکرکے
قائدؒ کے پاکستان کے مزیدٹکڑے تونہیں کرناچاہتا؟۔اُنہیں ایک لحظے کے لیے
رُک کریہ سوچناہوگا کہ اوّلیت کسے ہے،ملک کویااقتدارکے پجاریوں کو؟۔اُنہیں
یہ بھی سوچناہوگاکہ کیا احتجاجوں اورتحریکوں کے لیے یہ وقت مناسب ہے؟۔کپتان
صاحب بھلے اِس سے بھی کوئی بڑی تحریک لے کراٹھتے اورمیاں برادران کوگھر
بھیج دیتے لیکن قوم کے سامنے اپنامقدمہ پیش کرتے وقت کیاانہوں نے سوچاکہ
اقتدارکی اِس جنگ میں اُن ماؤں کے دلوں پرکیاگزرتی ہوگی جن کے کڑیل جوان
سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں،اُن بہنوں
کاکیاحال ہوتاہوگاجِن کے وجیہہ وشکیل بھائی اپنے قدموں پہ چل کر گئے اورآئے
پاکستان کے جھنڈے میں لپٹے ہوئے تابوتوں میں،اُن سہاگنوں کاکیاعالم
ہوتاہوگاجِن کے سہاگ وطن کی آبروپرقربان ہوگئے۔بوڑھے باپ یہ سوچتے
توضرورہونگے کہ اُنہوں نے اپنے جگرگوشوں کی قربانی کیوں دی؟۔کیاایسے لوگوں
کے لیے جن کی ہوس کے خونی پنجے ملکی سا لمیت کو اُدھیڑکے رکھ دینے کے درپے
ہیں؟۔
مولاناقادری نے کینیڈامیں بیٹھ کریہ دعویٰ کیاتھاکہ اُن کے انقلاب میں ایک
کروڑلوگ شامل ہونگے اورایک پتاہلے بغیرانقلاب آجائے گالیکن’’
کھوداپہاڑ،نکلاچوہا‘‘۔وہ بیس،پچیس ہزارعقیدت مندبھی اکٹھے نہ کرسکے،یہ الگ
بات ہے کہ وہ اسی کوپانچ،چھ لاکھ ظاہرکررہے ہیں۔چلیں پانچ چھ لاکھ بھی مانے
لیتے ہیں مگر ایک کروڑ۔۔۔۔؟۔مولاناکہتے ہیں کہ ایک پتاہلے بغیرانقلاب آجائے
گالیکن انقلاب توہوتاہی لہورنگ ہے اورنخلِ انقلاب کی آبیاری ہمیشہ لہوسے
ہوتی ہے کیونکہ اسے لہوبہت مرغوب ہے۔فرانس میں انقلاب آیااورایک لاکھ چوبیس
ہزارانسانوں کوچاٹ گیا۔روس کے انقلاب میں لگ بھگ پچیس لاکھ،امریکی سول
وارمیں چھ لاکھ اورماؤزے تنگ کے طویل ترین ثقافتی انقلاب میں تیس لاکھ
لوگوں کواپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ہمارے پڑوس میں امام خمینی کے انقلاب
میں شاہ ایران نے ساٹھ ہزارماردیئے اورانقلاب کے بعدامام خمینی کے
پیروکاروں نے سوا لاکھ۔تاریخ تویہی بتلاتی ہے کہ انقلاب ہمیشہ خونی ہی ہوتے
ہیں لیکن مولاناصاحب کا’’سبزانقلاب‘‘پتہ نہیں کیسے خوں رنگ نہیں
ہوگا۔ہوسکتاہے کہ کینیڈاسے امپورٹ کیے گئے انقلاب خوں رنگ نہ ہوتے ہوں۔یایہ
بھی ہوسکتاہے کہ مولاناکے نزدیک انقلاب بھی کوئی جنسِ بازار ہے جسے جب جی
چاہا،پیسے دے کر خریدلیا۔مایوس کُن دھرنے اور48گھنٹے کے الٹی میٹم جیسے
فلاپ شوکے بعداب مولانانے پاکستانی عوام سے اپیلیں کرنی شروع کردی ہیں کہ
وہ جلدازجلداسلام آبادپہنچ کراُن کے دھرنے میں شامل ہوں۔اُن کافرمان ہے’’اب
گھروں میں بیٹھناحرام ہے‘‘۔لیکن شایدمولاناخودبھی نہیں جانتے کہ کچھ عقیدت
مندوں کے سواکوئی اُنہیں عالمِ دیں تک ماننے کوتیارنہیں،مفتی توبہت دورکی
بات ہے۔ہم تواتناجانتے ہیں کہ اﷲ کے نام پرحاصل کیے گئے اِس ملک میں
افراتفری پھیلانااوراسے انارکی کی طرف دھکیل کرلے جاناگناہِ کبیرہ اورحرام
ہے۔
عمران خاں صاحب نے بھی دھرنے کے شرکاء کی تعدادسے مایوس ہوکر سِول نافرمانی
کی تحریک شروع کردی اورمیاں برادران کواستعفوں کے لیے 48گھنٹوں کاالٹی میٹم
دے دیالیکن چوبیس گھنٹے بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ خودسوائے خیبرپختونخواکے
ساری اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کااعلان کردیا۔ خیبر پختونخوا سے اِس لیے
نہیں کہ وہاں اُن کی اپنی حکومت ہے اوروہاں الیکشن کروانے کے لیے آسمان سے
فرشتے اُترے تھے۔ اگروہاں بھی اسی کرپٹ الیکشن کمشن کی زیرِنگرانی انتخابات
ہوئے توپھروہاں بھی یقیناََدھاندلی ہوئی ہوگی۔اگرپرویزخٹک کی حکومت بھی
دھاندلی ہی کی پیداوارہے توپھروہاں استعفے کیوں نہیں؟۔جب پورے پاکستان نے
سول نافرمانی کویکسر مستردکردیاتوخاں صاحب نے استعفوں کاآپشن استعمال کرتے
ہوئے ’’ریڈزون‘‘میں داخلے کااعلان بھی کردیااوردھرنے کے شرکاء کی انتہائی
مایوس کُن تعدادکودیکھتے ہوئے لاہوراورخیبرپختونخواکے’’سونامیوں‘‘کواسلام
آبادپہنچنے کی اپیل بھی کردی۔اُنہوں نے سونامیوں کوپُرامن رہنے کی تلقین
کرتے ہوئے فرمایاکہ آج(19اگست)کو ریڈزون کراس کیاجائے گا۔پتہ نہیں خاں صاحب
کس کوبیوقوف بنارہے ہیں،جب ریڈزون کراس ہوگا توخون توبہے گا۔قوم کے جذباتی
بچے اوربچیاں توخاں صاحب کی پکارپرلبیک کہہ رہے ہیں لیکن خاں صاحب کے اپنے
بیٹے اورتحریکِ انصاف کے اکابرین کے بچے بچیاں اپنے گھروں میں استراحت
فرمارہے ہیں۔سونامیے ریڈزون ضرورکراس کریں لیکن اِس شرط کے ساتھ کہ صرف
عمران خاں صاحب نہیں بلکہ ان کے بیٹے اورتحریکِ انصاف کے تمام رہنماؤں کے
خاندان صفِ اول میں ہوں اورکارکُن پیچھے۔
دراصل سیاسی نَوواردخاں صاحب کوپتہ ہی نہیں تھاکہ دھرنے میں کیامشکلات پیش
آسکتی ہیں۔پہلے دن تووہ اپنے بنی گالہ میں بنائے گئے محل میں کھسک لیے لیکن
دوسرے دن ’’عاجزانہ درخواست‘‘کے باوجودسونامیے ڈَٹ گئے اورخاں صاحب کووہیں
گدابچھاکرلیٹناپڑا۔اُس وقت اُن کی حالت یہ تھی کہ
بسترکی ہرشکن سے پوچھ اُس کی بے قراری
کاٹی ہورات جس نے کروٹ بدل بدل کے
خاں صاحب تین گھنٹے تک کروٹیں بدلتے رہے اورجب دیکھاکہ سونامیے خوابِ خرگوش
کے مزے لے رہے ہیں توچپکے سے’’پھُر‘‘ہوگئے۔بنی گالہ میں جب ایک نیوزچینل کی
اینکرپرسن نے سوال کیاکہ خاں صاحب نے راہِ فرارکیوں اختیارکی تواُن کاجواب
تھاکہ مارچ کے شُرکاء تواِدھراُدھراپنابندوبست کرلیتے ہیں،کچھ
مساجداورمارکیٹ کے غسل خانوں میں چلے جاتے ہیں اورکچھ جھاڑیوں کوہی غسل
خانے سمجھ لیتے ہیں اورچونکہ اُنہیں بھی نہانا ہوتاہے اِس لیے وہ بنی گالہ
آجاتے ہیں۔ظاہرہے کہ قوم کے غم میں گھلے جانے والے کپتان صاحب عام سے گندے
غسل خانوں میں تونہیں جاسکتے۔اُن کے 300کنال پرمشتمل محل میں توکروڑوں کی
لاگت سے تیار کیے گئے’’باتھ رومز‘‘ ہیں۔پھربھلاوہ عوام کے لیے بنائے گئے
غلیظ غسل خانوں میں کیوں جائیں۔ |
|