ایک یادگار ترجمان - مسرت اللہ جان
(musarrat ullah jan, peshawar)
ایک روز قبل ٹیکسٹ میسج پیغام
موبائل فون پر موصول ہوا کہ لشکر اسلام کے سابق ترجمان مار دئیے گئے ہیں
اور ان کی لاش خیبر ایجنسی میں پھینک دی گئی ہیں جس کی تصدیق بعد میں
اخبارات میں کردی گئی - مرنے والا تو چلا گیا لیکن اس کی موت نے عجیب سے
کیفیت طاری کردی ہے - خیبر ایجنسی میں کچھ عرصہ سے سرگرم لشکر اسلام کے
سابق ترجمان حاجی زر خان آفریدی سے میرا تعلق 2008 ء میں بن گیا تھا جب میں
ٹی وی چینل پر ان کے انٹرویو کرنے کیلئے باڑہ کے علاقے میں واقع لشکر اسلام
کے مرکز میںگیا تھااس وقت ہمارے ایک دوست عامر علی شاہ بھی ساتھ تھے - ان
دنوں لشکر اسلام کا خیبر ایجنسی میں بہت زور تھا اور ہر کسی ہدایت کی گئی
تھی جو بھی شخص باڑہ خیبر ایجنسی آئیگا اس کو سفید ٹوپی پہن کر آنا پڑے گا
پشاور سے روانگی کے بعد مجھ سمیت کیمرہ مین نے بھی سربند کے علاقے سے جو کہ
باڑہ قدیم سے آگے ہے میں سفید ٹوپیاں پہنی اور لشکر اسلام کے مرکزی دفتر
واقع باڑہ پہنچے تھے - ان دنوں ہمارے ساتھ ارشد نامی ایک ڈرائیور بھی ہوا
کرتا تھا جو بنیادی طور پر باڑہ سے چلنے والی گاڑیوں کاڈرائیور تھا -وہ
لشکر اسلام کے امیر کے حوالے سے بات کرتا تھا کہ ہم نے ایک ساتھ کام کیا
لیکن ہم نے کبھی اس کی بات کو سنجیدہ نہیںلیا تھا کہ لشکر اسلام کا امیر
منگل باغ اور کہاں پر باڑہ سے چلنے والے گاڑیوں کی ڈرائیونگ کرنے والا ایک
ڈرائیور - جب ہم لشکر اسلام کے مرکزی دفتر میں پہنچ گئے تو وہاں پر ایک
خودکش بمبار جس نے جیکٹ مکمل طور پر پہنی تھی انہوں نے ہم سے مصافحہ کیا ور
ایک کمرے میں لے گئے اس کا کہنا تھا کہ ابھی امیر صاحب آنے والے ہیں پھرآپ
انٹرویو کرلیں - اسی دوران ہمارے لئے کولڈ ڈرنکس بھی منگوائی گئی کچھ دیر
بعد سفید کپڑوں اور نیلے جیکٹ پہنے حاجی زر خان آفریدی پہنچے اور یہ پہلا
موقع تھا کہ میں کسی تنظیم کے امیر کا انٹرویو کررہا تھا اس وقت حکومت
پاکستان نے لشکر اسلام کو کالعدم قرار نہیں دیا تھا اس لئے انٹرویو کرنا
مسئلہ نہیں تھا - اس دن ہم حاجی زر خان آفریدی کے مہمان نوازی کے قائل
ہوگئے-
یہ زر خان آفریدی کا میرا پہلا انٹرویو تھا جس میں ایک حد تک بے تکلفی بھی
ہوگئی لیکن زر خان آفریدی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھی اور پھر
انٹرویو دینے کا سلسلہ شروع ہوا تقریبا دو ہفتے بعد ان سے ملاقات ہوا کرتی
تھی باڑہ کے علاقے میں واقع اس مرکز میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے کچھ
لوگ جو لشکر اسلام کے کمانڈر تھے سے بھی ملاقات ہوئی ان دنوںزر خان آفرید ی
کے دو بیٹوں سے بھی میری ملاقات ہوئی ان میں ایک بیٹا ڈبل کیبن ڈاٹسن چلایا
کرتا تھا جس میں وہ اپنے والد کو لے کر جایا کرتا اس کے ہاتھ میں ہر وقت
تلوار ہوا کرتی تھی جبکہ دوسرا چھوٹا بیٹا تھا جو پچھلی سیٹوں پر والد
کیساتھ بیٹھا کرتا اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف ہوا کرتی اور اس کے جیکٹ میں ہر
وقت گرینیڈ رہتے تھے - اس دوران لشکر اسلام کے لیڈر منگل باغ نے صحافیوں کو
ملاقات کیلئے بلایا اور رپورٹنگ کیلئے میں بھی چلا گیا جبکہ کیمرہ مین عامر
علی شاہ جو کہ میرا اس اسائمنٹ کیلئے ساتھی تھا اس دن نہیں آیا اس دن ایک
اور کیمرہ مین کی ڈیوٹی لگا دی گئی کیمرہ مین ڈر رہا تھا کہ میں نے
جینزپہنی ہے کہیں لشکر اسلام والے غصہ نہ کریں لیکن میں نے اسے ساتھ لیا
اور مقررہ وقت سے تھوڑی دیر لیٹ اس مقام پر پہنچا جہاںسے صحافیوں نے جانا
تھا لیکن اس دن میں کیمرہ مین کی وجہ سے لیٹ ہوگیا تھا اسی باعث ہمارے آنے
سے بیس منٹ قبل سارے صحافی جن میں ہمارے قبائلی دوست نصر اللہ جو بعد میں
پشاور کینٹ میں اپنی گاڑی میں نامعلوم افراد کی طرف سے رکھے گئے بم کا
نشانہ بن کر شہید ہوگئے تھے بھی میرا انتظار کررہے تھے چونکہ انتظام اس نے
جانے کا کیا تھا جس وقت میں وہاں پہنچا تو حاجی زر خان اپنے بچوں کے ہمراہ
ڈبل کیبن میں موجود تھا اس نے مجھے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا دیا اور کہا کہ
امیر منگل باغ کا انٹرویو کرنے جانا ہے تقریبا چھ گھنٹے کا سفر طے کیا
دوران سفر بیٹھ کر گپ شپ بھی کی-
لشکر اسلام کے امیر منگل باغ کے انٹرویو کیلئے جانے کا یہ پہلا موقع تھا جب
حاجی زر خان آفریدی سے میری تفصیلی گفتگو ہوئی اس دن میں نے حاجی زر خان سے
لشکر اسلام کا ترجمان بننے کی وجہ پوچھی تھی جس پر مرحوم حاجی زر خان نے
کہا تھا کہ کسی زمانے میں وہ جماعت اسلامی اور بعدمیں جمعیت علماء اسلام
کیساتھ وابستگی ہوا کرتی تھی لیکن پارٹی پالیسیوں کی وجہ سے اس نے وہ پارٹی
بھی چھوڑ دی یہ پہلا موقع تھا جب اس نے کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا تھا
وہ کہا کرتے تھے کہ ملک میں صحیح اسلامی نظام آئے جس میں چوروں کے ہاتھ
کاٹے جائیں -تقریبا چار گھنٹے بعد مخصوص مقام ہم صحافیوں نے منگل باغ کا
انٹرویو کیا دوران انٹرویو میں نے منگل باغ سے سوال کیا تھا جو شائد اس وقت
امیر منگل باغ کو برا لگا تھا جب انٹرویو ختم ہوگیا اور ہم رخصت لیکر آرہے
تھے تو لشکر اسلام کے امیر منگل باغ نے سب ساتھی صحافیوں کو رخصت کیا اور
مجھے روک دیا بعد میں میرے سوال کا حوالہ دیکر سوال کیا اور ساتھ ہی کہا کہ
تمھارا سوال نامناسب تھا میں نے جواب دیا کہ امیر صاحب میں اپنے آپ کو
کلیئر کروں تو میں لوگوں کو پیغام پہنچا سکوں گا اگر میں خود کنفیوژن میں
ہوں گا تو پھرمیں دوسروں کوکیا جواب دونگا جس پر لشکر اسلام کے امیر منگل
باغ ہنس پڑے اور حاجی زر خان آفریدی کو بلا کر کہا کہ یہ میرا مہمان ہے
اگلی دفعہ اس کو بھی ساتھ لیکر آجانا اس سے ملاقات ہوگی-
پھر واپسی پر نامعلوم مقام پر رات نو بجے ایک جگہ پہنچے جہاں پر راستے میں
بچے کھڑے تھے جنہوں نے ہماری گاڑی کو روک دیا اور ہم کھانا کھانے ایک گھر
میں چلے گئے لالٹین کی روشنی میں گوشت اور بھی تندوری روٹی کیساتھ کھانا
الگ ہی مزہ ہے اور جب ساتھ حاجی زر خان آفریدی جیسا خوش خوراک بندہ بھی ہو
اس رات کھانے کے دوران حاجی زر خان آفریدی نے میرا مذاق اڑا یا تھا کہ تم
شہری لوگ کچھ کھا بھی نہیں سکتے-اتنے ہٹے کٹے صحافی ہو اور کھانے میں
تمھارا یہ حال ہے یہ حاجی زر خان آفریدی کے الفاظ تھے اور میںاپنے ساتھی
صحافیوں کو جن میں بیشتر مقامی تھے کی خوش خوراکی کا بھی قائل ہوگیا
تھادنبے کا گوشت ہم جیسے بندے زیادہ مقدار میں کھا بھی نہیں سکتے -خیر رات
کو دس بجے ہم باڑہ قدیم پہنچے اس وقت ٹیکسی سٹینڈ پر کچھ گاڑیاں کھڑی تھی
میں نے جلدی میں حاجی زر خان آفریدی کو پیچھے چھوڑ دیا اور ایک ٹیکسی
ڈرائیور تک جانے کے بابت پوچھا اس وقت اس نے پانچ سو روپے کہہ دئیے میں نے
سوچا کہ رات یہاں پر گزارنے سے بہتر ہے کہ پانچ سو دیکر جان چھڑائی جائے
حالانکہ مجھے پتہ تھا کہ ایک سو بیس روپے کرایہ بنتا تھا لیکن چونکہ رات کا
وقت تھا اس لئے میں نے جلدی میں ہاں کردی اور ہاتھ ملانے حاجی زر خان
آفریدی سے گیا اس نے کہا کہ رات ہمارے ساتھ رات گزارو ہمارے مہمان ہو صبح
چلے جانا لیکن میں نے کہا کہ ٹیکسی کرلی ہے میں جا رہا ہو اس پر اس نے
کرایہ پوچھا تو میں نے بتا دیا تو وہ جلدی سے ڈبل کیبن گاڑی سے اتر کر اس
ٹیکسی والے کے پاس آیا اور اس سے پوچھ لیا کہ ہاں بھئی ہمارے مہمان سے کتنے
پیسے لے رہے ہو جس پر وہ ٹیکسی ڈرائیور ڈر گیا اور کہنے لگا کہ مجھے نہیں
پتہ تھا کہ آپ کا مہمان ہے میں مفت میں لے جائونگا اس دوران حاجی زر خان
آفریدی نے اپنے ایک بیٹے کو آواز دی کہ اس ٹیکسی ڈرائیور کا چہرہ دیکھ لو
اگر یہ ہمارے مہمان کو لوٹتا ہے تو پھر ہمارا بھی اس کی مہمان داری کاحق
بنتا ہے - اور ٹیکسی ڈرائیور کیمرہ مین سے جلدی میں کیمرہ اور دیگر سامان
لیکرگاڑی آگے کردی اور کہا کہ حاجی صاحب بے غم شہ چہ ستا میلمانہ دی نو
زمان ہم میلمانہ دی ( یعنی اگر آپ کے مہمان ہے تو ہمارے بھی ہیں( اور پھر
رات گئے ہم اپنے دفتر پہنچ گئے دوران سفر ٹیکسی ڈرائیور نے کئی مرتبہ مجھے
کہا کہ برائے مہربانی میرے بھائی میں حاجی صاحب کو غلط مت کہہ دینا پیسے
بھی مت دو اس دن ٹیکسی ڈرائیو ر کرایہ بھی نہیں لے رہا تھا میں نے زبردستی
دو سو روپے دئیے اور وہ لیکر چلا گیا یہ آخری موقع تھا جب حاجی زر خان
آفریدی سے میری ملاقات ہوئی اس کے بعد باڑہ میں آپریشن شروع ہوا اور سب کچھ
تبدیل ہوکر رہ گیا-
حاجی زر خان آفریدی سے میری ملاقاتیں بحیثیت صحافی ہوئی تھی اور تقریبا
پانچ ملاقاتوں میں اس کے بارے میں اتنا کچھ جان گیا تھا کہ وہ مخلص آدمی
اور جی دار آدمی تھا اس کی لشکر اسلام سے وابستگی اس کا اپنا فیصلہ تھا کچھ
عرصہ تک ترجمان رہنے کے بعد اس نے لشکر اسلام کے ترجمانی بھی چھوڑ دی تھی
اورپھر پتہ چلا کہ اسے اغواء کرلیا گیا اور آج 23اگست 2014 ء کو اس کی لاش
مل گئی -میرے لئے یہ ایک خبر ہی ہے لیکن زر خان آفریدی کے ہنسنے کا سٹائل
اور مہمان داری اور لوگوں سے ملنے اور ذاتی تعلق بنانے کا عمل مجھے آج بھی
یاد ہے اور شائد ہمیشہ یاد رہے گا اللہ مغفرت نصیب کرے عجیب شخصیت کا مالک
تھا- |
|