اسلام آباد سمیت پورے ملک میں
تحریک انصاف کے دھرنوں سے ہمارے دانشوروں کی ایک بات تو غلط ثابت ہوگئی ہے
کہ تحریک انصاف میں ممی ڈیڈی شامل ہیں وہ کیا مارچ کرینگے عمران خان ناکام
ہوجائینگے مگر لاہور سے لیکر آب پارہ اسلام آبادتک کی سڑکیں گواہ ہیں بلکہ
آب پارہ سے ڈی چوک تک درختوں کے پتوں سے لیکر آسمان پر اڑنے والے پرندوں تک
سبھی گواہ ہیں کہ یہ ممی ڈیڈی نہیں ہیں بلکہ یہ تو پاکستان کے ان تمام نکمے
، کام چوراور مضبوط جسم والوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں جو ابھی تک ڈر کے
مارے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں جن کو صرف ایک ہی بات کا جنون ہے کہ
کسی نہ کسی طرح وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوجائیں 67سالہ پرانے پاکستان کی
تعمیر نو کرسکیں ان معصوم شکل وصورت کے خوبصورت جوانوں کے حوصلے، جوش
اورجذبے کو دیکھ انہیں بار بار سلام کرنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ یہ وہ کلاس
ہے جن کو اﷲ تعالی نے دنیا کی ہر نعمت سے نواز رکھا ہے اگر یہ لوگ گھروں
میں بھی بیٹھے رہیں تو بھی انکو کوئی فرق پڑے گا اور نہ انکے کسی چاہنے
والو ں کو کوئی فرق پڑیگا اگر فرق پڑے گا تو اس ملک کے غریب ،مزدور اور
کسان کو پڑے گا جو نسل در نسل غلامی کی زندگی گذار رہے ہیں یہ ان کو فرق
پڑے گا جو تمام عمر محنت مزدوری کرتے کرتے اپنی کمر دھری کروابیٹھتے ہیں
اور اپنے بچے کو موٹر سائیکل خرید کر دینے کی خواہش تک پوری کرنے میں ناکام
رہتے ہیں ہاں یہ فرق پڑے گا تو ان 70فیصد پاکستانیوں کو پڑے گا جو غربت کی
لکیر سے نیچے کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گذار نے پر مجبور ہیں جن کو دو وقت
کی روٹی اور نہ ہی تکلیف میں درد کی دواء کھانے کو ملتی ہے یہ فرق پڑے گا
تو انکو پڑے کا جو ساری عمر کی کمائی ٹھگوں کے ہاتھوں لٹا بیٹھتے ہیں اور
پھر اپنی لوٹی گئی دولت کو ٹھگوں سے واپس لینے کے لیے اپنی رہی سہی پونجی
بھی تھانہ کچہری کی نظر کردیتے ہیں اور پھر آخر میں بے یارو مددگار قبرستان
کو سدھارجاتے ہیں اب تو غریب انسان کاقبرستان میں دفن ہونا بھی کسی معجزے
سے کم نہیں اگر کوئی انہی ممی ڈیڈی میں سے کوئی مدد کردے تو کفن دفن کا
انتظام ہوجاتا ہے ورنہ لاش کو آخری ٹھکانے کے لیے بھی چندے کی ضرورت پڑ
جاتی ہے اگر آج عوام پرانے ،فرسودہ اور گھٹیا نظام سے پاکستانیوں کی جان
چھڑوانے کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے ساتھ کندھے سے کندھا
ملا کر کھڑی ہے تو یہ واقعی غریب پاکستانیوں کی خوش قسمتی ہے کہ انکی تقدیر
بدلنے کے لیے لاکھوں افراد پارلیمنٹ کے سامنے موجود ہیں جو نہ گرمی کی
پرواہ کررہے ہیں اور نہ ہی بارشوں میں بھیگے بدن کو ڈھانپنے کے لیے گھروں
کو بھاگ رہے ہیں انکا کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا اور سونا انہی سڑکوں پر ہے
جہاں انسان دن کے وقت حبس والی گرمی میں 10منٹ نہیں ٹہر سکتااور ہمارے یہ
نازک مزاج پاکستانی کسی کی بھی پراہ کیے بغیروزیراعظم میاں نواز شریف اور
وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے استعفے کے منتظر ہیں جنہیں انکی کابینہ
اورمالشیے قسم کے کچھ نام نہاد رہنماء مسلسل روکے ہوئے ہیں کہ کسی بھی صورت
استعفی نہ دیا جائے بلکہ سڑکوں پر بیٹھے افراد کو سختی سے کچل دیا جائے مگر
جیسے ہی منظر تبدیل ہوگا تو یہی افراد سب سے پہلے میاں برادران کو چھوڑنے
میں پہل کریں گے مجھے سابق فیلڈ مارشل لاء جنرل ایوب خان اس لحاظ سے پسند
ہے کہ انہوں نے جیسے ہی سنا کہ عوام انکے خلاف سڑکوں پر نعرے بازی کررہی ہے
تو انہوں نے اقتدار کی کرسی کو لات ماری اور حکومت چھوڑ دی مگر یہاں پر تو
اپنے آپ کو عوام کے نمائندے کہلانے والے عوام کے سمندر کے سامنے اپنی ہٹ
دھرمی پر قائم ہیں عوام سڑکوں پر ہے اور حکمران ٹھنڈے محلوں میں بیٹھے ہوئے
ان احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسانے کا پروگرام بنا رہی ہے کیا اپنے حق
کے لیے لڑنا جرم ہے اور یہ احتجاج کرنے والے تو پورے پاکستانیوں کے حقوق کی
جنگ لڑ رہے ہیں اگر یہ ناکام ہوگئے تو پھر اس ملک میں جمہوریت کے بھیس میں
جو آمریت مسلط کی جائیگی اس سے پیچھا چھڑوانے کے لیے پھر شائد ایک دو سال
نہیں بلکہ کئی صدیوں انتظار کرنا پڑیگاہماری ایک نسل تو غلامی کی زندگی
گذار کر چلی گئی دوسری نسل اب غلام بنی ہوئی ہے اگر یہ موقعہ بھی ہاتھ سے
گذر گیا تو پھر سمجھیں یہ غلام بھی گذر جائیں گے اور آئندہ بھی غلام ہی
پیدا ہونگے جواعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی کلرک بھرتی ہونے کے لیے کسی
ایم این اے یا ایم پی اے کے در کا غلام بن جائے جس طرح قیام پاکستان کے وقت
اس وقت کے غلاموں نے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنا حق ادا کردیا تھا آج ایک
بار پھر آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور لٹیرے حکمرانوں کی غلامی سے نکلنے کے
لیے اسی جوش اور ولولہ کی ضرورت ہے اب آزادی مارچ اور انقلاب مارچ دونوں
ایک ہی جگہ اکٹھے ہوچکے ہیں انکے جذبوں اور ولولوں کے سامنے موجودہ
حکمرانوں کا ٹہرنا ناممکن ہو چکا ہے اس سے قبل کہ تاخیر ہوجائے ایک بار سب
کو مل کر باہر نکلنا چاہیے تاکہ نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جاسکے۔ |