اسرائیل غزہ کے محبوس فلسطینیوں
پر ظلم کے جو پہاڑ توڑ رہا ہے، اس نے عالمی برادری میں مسئلہ فلسطین کو
سمجھنے کا تجسس تو پیدا کر دیا ہے۔ خصوصاً اس کی نئی نسل میں اسرائیلی
بربریت کے جاری برہنہ مظاہرے سے بلند درجے کا یہ تجسس پیدا ہونا بھی قدرتی
ہے کہ انسانیت،آزادی، بنیادی انسانی حقوق، حق خود ارادیت اور جغرافیائی
سرحدوں کے احترام کے علمبردار امریکہ اور یورپی یونین انسانیت کشاسرائیلی
دہشت گردی پر مجرمانہ حد تک کیسے خاموش ہیں بلکہ اسرائیل کی پشت پناہی بھی
کیوں کر رہے ہیں؟
مسئلہ فلسطین انسانی المیہ: مسئلہ فلسطین صرف سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ یہ
انسانوں کو پیش آنے والے بہت سے مسائل سے عبارت ہے۔ صبح و شام حقوق انسانی
کا واویلا کرنے والوں کے سامنے لاکھوں مظلوموں کی آہ و بکاء ان کی جانبداری
کے نفاق کا پردہ چاک کررہی ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کا ننگ چھپائے نہیں چھپ رہا۔
ترقی یافتہ ممالک کے سامنے جہاں حیوان و بہائم کے حقوق کی بات ہوتی ہے وہاں
پچھلی نصف صدی سے ساٹھ لاکھ سے زائد انسانوں کا سوال ہے جن سے ان کا وطن
بزورقوت چھین لیا گیا ہے۔ جن کی خیمہ بستیوں میں بھوک ہی بھوک ‘ افلاس ‘
امراض اور ناخواندگی ہے۔وہ بے گھر انسان جن کی جھونپڑیوں کو جلا کر ان پر
یہودیوں نے بلند و بالا عمارتیں کھڑی کرلی ہیں؛ ایک ایسے دعوے کو بنیاد بنا
کر جو سراسر جھوٹ ہے۔ ایک ایسا دعویٰ جس کی نہ تاریخی حقیقت ہے نہ کوئی
دینی ( توراتی ) شہادت ہے اور نہ ہی بین الاقوامی قوانین میں اس کی گنجائش
ہے۔فلسطین میں صہیونی ریاست مغربی استعمار کی باقی ماندہ بدنما شکل کی صورت
میں قائم ہے۔مسلم آبادی والے دوسروں خطوں سے تو استعمار کو نکلنا پڑا، اب
اسے ارض رباط سے بھی نکلنا ہے؛ آج یا کل۔ چاہیئے کہ اس انسانی المیے کو حل
کرنے کیلئے پوری انسانیت کھڑی ہوجائے۔
عمرانی صداقتیں: دنیا میں صہیونی قوت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔بین الاقوامی
مالیاتی امور ہوں یا سیاسی ہیر پھیر ہوں یا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہو ہر
جگہ پس پردہ صہیونی منصوبہ کار فرما ہے۔امریکہ میں صہیونی اثر و نفوذ سے
کوئی بھی انکار نہیں کرتا۔ ہم کسی ’سامی نفرت‘ کی وجہ سے یہ بات نہیں کررہے
ہیں اور نہ ہی ہمیں کسی خاص نسل سے بیر ہے۔اگر کوئی قوم ترقی پا کر اپنی
صلاحیتوں کا لوہا منوا لیتی ہے تو یہ قابل ستائش کام ہے نہ کہ قابل مذمت
شرط یہ ہے کہ وہ انسانی فلاح کے لیے استعمال ہو۔ قوت حاصل ہونے پر ظلم اور
فساد پھیلا نا ‘ دوسروں کے حقوق سلب کرنا قابل تحسین نہیں کہلا سکتا۔بلاشبہ
صہیونی آج قوت میں ہیں لیکن یہ تفوق نا قابل تسخیر نہیں ہے۔ یہ خیال غلط
ہوگا کہ دنیا کے ہر چھوٹے بڑے واقعے کے پیچھے صہیونی ہوں گے۔ صہیونی قوت
خدا کی قوت پر غالب نہیں ہے اورنہ ہی وہ بشریت کی سرحدوں سے آگے نہیں نکل
گئے ہیں۔ خدا کی پیدا کردہ مخلوق ہیں اپنے تئیں پیدا نہیں ہوئے۔قوموں کے
عروج و زوال کی کچھ خدائی سنتیں ہیں۔جیسے دوسری قوموں پر زوال کے دن آتے
ہیں اسی طرح صہیونی بھی ہمیشہ طاقت ور نہیں رہیں گے-
ہمیں اعتراف ہے کہ ترقی کی منازل بغیر محنت و مشقت اور اعلیٰ تنظیم کے حاصل
نہیں ہواکرتیں لیکن ہمیں ان اسباب کو بھی سامنے رکھنا ہے جو زوال لا یا
کرتے ہیں۔ دنیا کی طویل تاریخ میں پہلے بھی اس قوم کو ترقی حاصل ہوئی تھی
لیکن ان پر زوال کوئی ایک مرتبہ نہیں آیا۔ صہیونی آج قوت میں ہیں تو اس میں
امت مسلمہ کے لیے نصیحت ہے۔ ایک زمانے میں یہودی دنیا کی حقیر ترین قوموں
میں شمار ہوتے تھے۔ مسلمان بھی اپنے اندر وہ صلاحیتیں پیدا کرسکتے ہیں جو
دنیا کی نیابت کے لئے ضروری ہوا کرتی ہیں۔تیسری عالمی جنگ کا خطرہ: اسرائیل
کی ہوشر با فوجی قوت اقوام عالم کے امن کے لئے ایک مستقل خطرہ ہے۔اسرائیل
کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں جن میں 200 ایٹم بم
بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کی تیز رفتار فوج کی استعداد خطر ناک حد تک زیادہ ہے۔
اسرائیل محض بہتر گھنٹوں میں سات لاکھ فوج ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل
کرسکتا ہے۔ عالم اسلام کے قلب میں ایسی خطر ناک فوج بین الاقوامی امن کے
لیے ایک مستقل خطرہ ہے جہاں کسی وقت بھی ایک خطر ناک جنگ بھڑک سکتی ہے جو
تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔
آج نہیں تو کل مسلمان ایک بڑی قوت بننے والے ہیں۔ یہ بات بعید نہیں کہ
اسرائیل کی وجہ سے مسلمان بھی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار
حاصل کرلیں۔ مسلمان اپنی ایک انچ زمین سے بھی دست بردار ہونے کے نہیں۔ حالت
ضعف میں کبھی مسلمان نچلے نہیں بیٹھے اب جبکہ وہ دن دور نہیں جب مسلمان ایک
بڑی قوت ہوں گے۔ اگر اسرائیل کے وجود کو عالم اسلام کے قلب سے ختم نہیں کیا
جاتا تو مسلمان اپنی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے عدو کو نکال کر دم لیں گے۔
اس سے پہلے استعمار کو بھی عالم اسلام سے نکلنا پڑا تھا۔ استعماری طاقتیں
بھی بڑی قوت ہوا کرتی تھیں۔ایک خطر ناک بین الاقوامی جنگ سے بچاؤ کی یہی
صورت ہے کہ عالمی طاقتیں اپنا اثرو نفوذ استعمال کرتے ہوئے صہیونی ریاست کو
مسلم اراضی سے بے دخل کردیں۔ |