بحران سے نکلنے کا راستہ
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
پچھلے آٹھ یا نو دنوں سے پوری
قوم اسلام آباد میں کپتان اور طاہرالقادری کے دھرنوں کی وجہ سے شدید ہیجان
میں مبتلاہے ،تمام سیاسی پارٹیاں ، میڈیا سے منسلک تمام حضرات ،درد ِدل
رکھنے والا ہرپاکستانی ، اورپاکستان کے معاملات سے کسی بھی وجہ سے دلچسپی
رکھنے والے مغرب و مشرق ،عالم ِعرب اور دنیائے اسلام کے تمام ممالک، ان کے
سفراء اوران کے وزارتہائے خارجہ کے ذمہ داران، نیزہمارے یہاں کے حزب اقتدار
اور حزبِ اختلاف سب کی نیندیں اڑ چکی ہیں ،سیکورٹی فورسزبھی پیش آمدہ ہر
قسم کی صورت حال کے لئے ہائی الرٹ ہیں۔
دوسری طرف ان سب کے ساتھ ساتھ خود پی ٹی آئی اور پیٹ کے قائدین و کارکنان
بھی دو راہے پر کھڑے ہیں، اعصاب شکن سیا سی ماحول ہے،کبھی سخت گرمی ہے
اورکبھی موسلادھاربارشیں ہیں، جن سے خنکی تو ہوجاتی ہے،مگربیٹھنے اور لیٹنے
کی جگہ معدوم ،کپڑے اور خیمے گیلے ، بچے ،بوڑھے ،خواتین اور بیماربیچارگی
کے عالم میں ’’نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘کی تصویر بنے ہوئے ہیں ،پریشاں
بھی ہے توسیاسی عزتِ نفس کا سوال بھی ہے۔
اس پرمستزاد یہ کہ فریقین برداشت کے ماحول سے عدم برداشت کی طرف بڑھ رہے
ہیں،لب ولہجے میں شدت ،نازیبا پن کو چھو رہی ہے، ،اخلاقیات متأثر ہورہی
ہے،مقابلے در مقابلے میں ریلیاں نکالی جارہی ہیں،نون لیگ پختونخوا میں اینٹ
کا جواب پتھر سے نہ دینے پر آپس میں اس حد تک گتھم گتھا ہوگئی کہ ہاتھ پَیر
بھی تُڑوابیٹھے،ڈر ہے کہ خدانخواستہ کپتان اور پرائم منسٹرکی ضد ملک وملت
کو خانہ جنگی کی آگ کی طرف نہ لے جائے،کیونکہ ہمیشہ بڑی آگ چھوٹی چنگاری سے
ہی لگتی ہے اور پھر اسی سے پھیلتی بھی ہے،سیکورٹی فورسزجو پہلے ہی بلوچستان
،وزیرستان، کراچی اور دیگر محاذوں پر کسی نہ کسی طرح مشغول ہیں،نجی وسرکاری
املاک کو نقصان پہنچانے کی صورت میں وہ ایکشن لیئے بغیر نہیں رہ سکتیں، اب
اس ایکشن کا اگر ری ایکشن ہوگیا،توملک وملت کا خدا ہی حافظ ۔
جمعرات وجمعے کی درمیانی شب ہم ٹی وی اسکرین پرایک خوفناک منظردیکھ رہے تھے
،مخدوم جاوید ہاشمی خطاب فرمارہے تھے،زوردار بارش ہورہی تھی ،وہ کسی معذور
آدمی کی طرح بول رہے تھے،ایک ہاتھ میں مائک تھا،دوسرابغیر کسی سہارے
یاگلوبند کے ،گلے کی طرف لٹکے جارہا تھا،ہمیں ترس آگیا،پر اس سے زیادہ ان
بچوں اور خواتین پر رحم آرہاتھا،جو اس بادو باراں میں بھی خطیب کے ہاں میں
ہاں ملائے جارہی تھیں،اورپاکستان و پی ٹی آئی کے پرچم لہرا رہی تھیں،پیٹ
والوں کا حال اس سے بھی کئی گنا زیادہ خراب تھا،کیونکہ سنا ہے کہ وہ سب
قادری صاحب کے لاچار ملازمین ہیں، اس شدید صورت حال پر ہم جتنے غمگین تھے ،اس
سے کہیں زیادہ اپنی اس مملکت خداداد کے قائدین پر رونا آرہا تھا،کہ کچھ نے
قوم کی بیٹیوں،بچوں اوربوڑھوں کو ایک طرف یرغمال بنائے رکھا ہے، اورکچھ
ادھر سے ملکی باگ ڈور کے رکھوالے ’’ہور چوپو ‘‘ کے طنزلگارہے ہیں،وزراء
طعنے دے رہے ہیں،اولادیں جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں،اتحادی بیانات پر بیانات
جاری کررہے ہیں،گویا حکومت اور دہرنے والوں کے مابین ایک دوسرے کو
نیچادکھانے کی مساعیٔ نامسعود ہورہی ہیں۔
اس بے حسی پرعلامہ اقبال مرحوم ومغفور کا یہ شعر رِہ رِہ کر یاد آتاہے:
ترے دریامیں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
نیز ہم سوچتے رہے کہ یہ حال ہماری قیادتوں کا ہوجائے ،پوری دنیا میں ہماری
جگ ہنسائی ہو،تو پھر اﷲ تعالیٰ کاعذاب نہیں آئے گا ،تو اور کیا ہوگاـ،جنرل
ایوب خان ،جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف جیسے آمروں پر رحم آنے لگا،کہ ان
کے زمانے میں ایسے ہی سیاسی قیادتیں ہوتی ہونگی،جنہوں نے قوم کو بحرانوں
میں ڈالا ہوگا،لاکھ کوششوں کے باوجود وہ کوئی معقول حل تلاش نہیں کر سکتے
ہوں گے،بلکہ سیاسی میدانوں میں یوں ہی فیل ہوچکے ہوں گے،جیسے آج ناکام
ہیں،تو مجبوراً فوج حرکت میں آگئی ہوگی،اور دیرتک اس لئے براجمان رہی ہوں
گی ،کہ یہ قیادتیں کوئی ۹۰ دن یادوسال میں عقل کے ناخن لینے کے لائق نہیں
ہوں گی،ادھر فوج پر ریاست کوانہدام سے بچانے کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں،بین
الاقوامی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اڑوس پڑوس کی طالع آزما قوتیں بھی تاک میں
ہوتی ہیں،وہ تو اس فرصت کے انتظار میں ہوتی ہیں کہ ہم پاکستانیوں کا صفایا
کردیاجائے۔شیخ مجیب الرحمن اور بھٹو کے درمیان یہی ضد تو تھی، جس نے اس ملک
کو دولخت کردیاتھا۔اور ہم ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں
لیتے،نوازشریف کی یہ تیسری برخاستگی اس ملک میں وزارت عظمیٰ سے ایک ہی شخص
کے سبکدوشی کی’’ ہیٹ ٹرک‘‘ ہوگی ،جو تاریخ انسانی میں ایک نئے ریکارڈ کا
اضافہ ہوگا،بدقسمتی سے یہ اضافہ کوئی نیک شگون نہیں ہوگا،لیکن کیا کیجئے
،’’خود کردۂ راعلاج نیست،،۔
زرداری صاحب مفاہمت کے جادوگر ہیں،خورشید شاہ ایک بہترین حل پہلے ہی دے چکے
ہیں،کہ سات روز میں کمیشن دھاندلی کی رپورٹ پیش کریں ، اگرد ھاندلی ثابت
ہوگئی،توپیپلزپارٹی بھی وزیراعظم سے استعفاء کا مطالبہ کردیگی، نہیں ہوئی
تو کپتان اگلے انتخابات تک صبر سے کام لیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ صاحب کا یہ
فارمولا، صلح حدیبیہ کی طرح ایک کامیاب فارمولااور فتحِ مبین ہے ، دونوں
طرف ضامن بیٹھ جائیں، فوج بھی اس میں ضمانت دے اور سپریم کورٹ بھی اس میں
شامل ہو،اس طرح یہ دھرنے ختم ہوجائیں گے ، ایک پائیدار اور باعزت راستہ بھی
فریقین کومل جائے گا۔
لیکن وسعت ِ ظرفی ،بڑاپن اور د انشمندی کے اس فقدان پر جتنا رویا جئے کم
ہے۔
ہے بہت دشوار عاشی آئینے کا سامنا
کونسا چہرہ کروگے آئینے کے سامنے |
|