جنرل کیانی کا شکریہ

جنرل کیانی نے پاک فوج کو عوام کے دل کے قریب کر دیا ہے۔ انہوں نے پے درپے کامرانیاں اور نیک نامیاں حاصل کی ہیں۔ اب پاکستان کے دشمن بھارت کو للکارا ہے تو افسردہ اور مایوس لوگوں کے دل میں ٹھنڈ پڑ گئی ہے۔ ہمارے سیاستدان٬ حکمران اور دانشور بھارت کو صرف پکارتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ مہم جو ہمسائے سے مستقل خطرہ ہے۔ انہوں نے بھارت کا نام نہیں لیا مگر سب کے دکھی دل سے آواز آئی ہے۔ بھارت، بھارت۔ بھارت ہمارا دشمن ہے اور اس کے سرپرست امریکہ اور اسرائیل بھی ہمارے دشمن ہیں۔ ہمارے حکمران ہمارے دشمن کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ یہ پینگیں جھولتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ شکر ہے کہ خود دشمن بھارت نے پاکستانی حکمرانوں کی دوستی کی خواہشوں کو اپنی سازشوں سے پورا نہیں ہونے دیا۔ صدر زرداری کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ ہمیں بھارت سے کوئی خطرہ نہیں اس لئے کہ یہ بات امریکہ کہتا ہے۔ صدر زرداری کے سسر بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک لڑیں گے۔ اسی جذبے سے ایٹم بم بنانا شروع کیا تھا۔ امریکہ کے لئے کام ہمارے حکمران کرتے ہیں بلکہ امریکہ کے کام آتے ہیں اور وہ دم بھارت کا بھرتا ہے۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ دشمن تین قسم کے ہوتے ہیں٬ دشمن٬ دشمن کا دوست اور دوست کا دشمن۔ یہ تینوں باتیں بھارت پر صادق آتی ہیں۔ بھارت٬ امریکہ اور اسرائیل کا دوست ہے اور ہمیں مل کر ناکام اور بدنام کیا جا رہا ہے۔ چین ہمارا دوست ہے جبکہ ہمارے حکمرانوں نے اس دوستی کو شرمندہ کر رکھا ہے۔ بھارت چین کا دشمن ہے۔ پاکستان نے جو کچھ اب تک پایا ہے وہ بھارت دشمنی میں پایا ہے اور جو کھویا ہے وہ بھی بھارت دشمنی میں کھویا ہے۔ پاکستان کی معاشیات کبھی اچھی نہیں رہی بلکہ بہت بری رہی ہے۔ ساری دنیا امریکہ اور بھارت حیران پریشان ہیں کہ پاکستان نے ایٹم بم کیسے بنا لیا ہے۔ ایٹم بم ہم نے بھارت کی دشمنی میں بنایا اور تجربے کئے۔ اس کا کریڈٹ عوام٬ افواج اور نواز شریف کو جاتا ہے۔ اسے مجید نظامی کا یہ جملہ یاد ہو گا کہ ایٹمی دھماکے کرو ورنہ لوگ تمہارا دھماکہ کر دیں گے مگر نواز شریف اب کہتے ہیں کہ بھارت پاکستان میں ویزا نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان میں جو بم دھماکے اور دہشت گردی ہو رہی ہے وہ بھارت اور امریکہ کرا رہا ہے۔ جو دہشت گرد پکڑے گئے ہیں ان کا تعلق افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں سے ہے مگر ہمارے حکمران نہیں بولتے۔ مخدوم گیلانی کہتے ہیں کہ بھارت پاکستان میں مداخلت کر رہا ہے مگر ہم یہ ثبوت وقت آنے پر پیش کریں گے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ وقت کب آئے گا۔ اس سے پہلے کچھ اور نہ ثابت ہو جائے۔ بھارت ایسا ملک ہے کہ جس کے لئے دوست یا دشمن ملک کہنا بے معنی ہے۔ وہ صرف ہمسایہ ملک ہے۔

محبوب جرنیل نے کہا کہ ہم قومی خودمختاری اور سلامتی کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ پیغام بھارت کے لئے ہے بھارت کے دوستوں کے لئے ہے جو پاکستان کے دشمن ہیں۔ بھارت کے ان دوستوں کیلئے بھی ہے جو پاکستان کے اندر ہیں۔ انہیں شرم نہیں آتی وہ بھارت کے ایٹم بم کے حق میں ہیں مگر اپنے ایٹم بم کے خلاف ہیں۔ سب سے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ”دو قومی نظریہ پر بننے والا قائداعظم رحمتہ اﷲ علیہ اور علامہ اقبال رحمتہ اﷲ علیہ کا پاکستان قائم دائم رہے گا۔ ملک مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ہمیں اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہیں۔ دشمن پڑوسی (بھارت) توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے۔ ہم اس کے ناپاک ارادوں سے واقف ہیں۔ کسی کو ہماری دفاعی صلاحیت کا غلط اندازہ نہیں لگانا چاہئے۔ سوات کے بعد جنوبی وزیرستان میں فوج سرخرو ہو گی۔ سوات میں پاک فوج کی کامیابیوں سے بھارت٬ افغانستان اور امریکہ پریشان ہے۔ دنیا بھر میں گوریلا جنگ کے حوالے سے پاک فوج کی کامیابی ایک مثال ہے جو بے مثال ہے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ نے یہ کہہ کر کمال کر دیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے جہاں فوج بھیجی پاکستان کی رِٹ قائم نہیں ہوئی٬ جنرل کیانی نے جہاں فوج بھیجی٬ وہ خود بھی وہاں پہنچے اور پاکستان کی رٹ قائم ہوئی۔ جنرل مشرف کے دور میں پاک فوج بدنام ہوئی اور عوام بد دل ہوئے٬ جنرل کیانی کے زمانے میں پاک فوج سرخرو٬ سرفراز اور سرشار ہوئی اور عوام پھر سے فوج سے والہانہ پیار کرنے لگے۔ بیگ صاحب کی یہ بات درست ہے کہ اب پاک فوج کے شہیدوں کے لئے لوگوں کے آنسو مسکراتے ہیں۔ مائیں کہتی ہیں کہ وطن پر قربان ہونے والے جوانوں پر فخر ہے۔ شہید ہونے والے افسران کی تعداد اتنی ہے کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے۔ امریکہ اور بھارت کی یہ سازش دم توڑ گئی ہے کہ عوام اور افواج میں دوریاں پیدا کی جائیں۔ اب تو یہ قربتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ 65ء کی پاک بھارت کی جنگ ستمبر یاد آ گئی ہے۔ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو.... اب یہ لہو ہماری گمشدہ آرزو کو زندہ کر چکا ہے اور اب ہم غیروں سے بدتر ”اپنوں“ سے بھی نہیں ہاریں گے۔ اندازہ کریں کہ امریکہ اپنے مرنے والوں کو چھپاتا ہے اور پاکستان کے شہید پورے فوجی٬ عوامی اور سیاسی اعزاز کے ساتھ اپنی خاک سے وصال پاتے ہیں۔

میں اور محترمہ سیما فرخ ایک شہید فیملی سے ملے تھے۔ شہید کی ماں اور شہید کی بیوہ کا جذبہ دیدنی تھا اور اس میں امریکہ اور بھارت کی نفرت چھلک رہی تھی۔ میں نے تب کہا تھا کہ شہید کی بیوی کو بیوہ نہیں کہنا چاہئے۔ وہ زندہ ہے اسے مردہ نہ کہو تو پھر شہید کی بیوی سے تعزیت مت کرو۔ ہمارے سیاستدان اور حکمران کسی شہید کے گھر نہیں گئے۔ وہ تو جی ایچ کیو پر حملے اور اسلام آباد میں فوجی افسران کے خلاف دہشت گردی پر بھی خاموش ہیں۔ اس دہشت گردی کے ذمہ دار سول انتظامیہ اور حکمران ہیں۔ پاک فوج کی کامیابیاں سوات اور وزیرستان میں دیکھیں۔ حکمران تو اسلام آباد کے ”وزیرستان“ (وزیروں کے محلات) سے نہیں نکلتے۔ جنرل کیانی نے یہ بھی کہا کہ ہم اپنے ملک کے حالات سے باخبر ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ کون آدمی کتنے پانی میں ہے٬ اس کی اہلیت اور کردار کیا ہے۔

فوزیہ وہاب نے برملا کہا ہے کہ صدر زرداری اور جنرل کیانی میں بھارت کے معاملے میں اختلاف ہے۔ صدر زرداری پاکستان کے سربراہ ہیں اور سپریم کمانڈر بھی ہیں تو سپہ سالار اعلیٰ کے ساتھ اختلاف کا اس طرح بے محابا اظہار مناسب نہیں ہے جبکہ فوزیہ وہاب نے ہی کہا تھا کہ صدر زرداری اور آرمی چیف میں کوئی اختلاف نہیں۔ فوزیہ نے یہ بھی کہا کہ صدر زرداری کے خلاف پاکستان میں یہودی لابی اور ہندو لابی متحرک ہے۔ اس میں امریکی لابی بھی شامل ہے۔ سرکاری طور پر اعتراف تو کیا گیا کہ پاکستان میں یہ لابیاں متحرک ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ ان کی یہ سازش بھی کامیاب نہیں ہو گی کہ فوج براہ راست سیاست اور حکومت میں آ جائے۔ سیاستدان بھی ہوش کریں! یہ لابیاں اصل میں تینوں ایک ہیں۔ ایک چوتھی لابی بھی ہے اس کا ذکر فوزیہ وہاب پھر کبھی کرے گی مگر وہ یہ بتائے کہ ہندو لابی صدر زرداری کے خلاف ہے تو اسے جنرل کیانی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے جس دشمن پڑوسی کا ذکر کیا ہے وہ ہندو ہے۔ ہندو لابی ہمارے خلاف امریکہ میں بھی متحرک ہے۔ وقت آئے گا کہ فوزیہ وہاب اور صدر زرداری جنرل کیانی کا شکریہ ادا کریں گے۔
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 19 Articles with 19044 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.