“ہم نا شکرے”

آج سےقريبا" چھ سال پہلےکى بات هے کہ جب میں راولپنڈی میں اپنی تعلیم و روزگار کے سلسلے میں مقیم تھا۔ ھم راولپنڈی کے F-BLOCK کے ایک فلیٹ میں چند بیچلرز (چھڑے) مل کر رہتے تھے۔ کھانا کبھی تو خود ہی بنا لیتے مگر اکثر اوقات قریب ہی موجود ایک چھپر ہوٹل سے ہی کھایا کرتے تھے۔ جو کہ گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ایک پہلوان جی کا تھا اور اسی نسبت سے ہوٹل کا نام " پہلوان ہوٹل " تھا۔ ان دنوں پہلوان جی کے بیٹے جو کہ ھمارے سامنے بچپن گزار کے بڑے ہوۓ تھے وہ سنبھالتے تھے- ان کے ساتھ میرا چھوٹے بھائیوں کی طرح پیار تھا اور وہ بھی بڑوں کی طرح میرا عزت کرتے تھے۔ انھیں پتا تھا کہ مجھے "پائے" بہت پسند ھیں لہذا ہر اتوار کو وہ میرے لئے صبح سے ہی " پائے " کا پیالا تیار کر کے رکھ دیتے تھے۔ تیار کرنے سے مراد کہ اس میں پائے کی اچھی بوٹیاں اور نلی(گودا) وغیرہ ڈال کے رکھ دیتے تھے۔ خیر، اسی طرح ایک دفعہ اتوار کا روز تھا اور چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے ہم سب ہی لیٹ اٹھے بلکہ یوں کہیے کہ دوپہر کو ہی اٹھے۔ حسب معمول نہا دھو کر " پائے " کھانے کے لیے میں اپنے فلیٹ جو کہ تیسری منزل پہ تھا، سے قدم بہ قدم نیچے اترا اور اس عمارت کے دور ارضی والی مارکیٹ سے ہوتے ہوئے سب دوکانداروں سے سلام دعاء کرتے عمارت کے سامنے والی بک شاپ پہ کھڑے ہو کے " آج کی تازہ خبروں " پہ نظر ڈالی اور اپنے آپ کو " سینئر تجزیہ نگار " سمجھتے ہوئے تھوڑی دیر کیلئے اپنا ماہرانہ غیر ماہرانہ تجزیہ جھاڑنے لگا مگر تجزیے کے بیچ میں ہی مجھے خد‎شہ ظا ہر ھوا کہ " پائے " تو ‏ٹھنڈے ہو رہے ہوں گے۔ لہذا میں نے سارے حالات حاضرہ ادھورے چھوڑے اور رستے کے دوکانداروں سے چھیڑ چھاڑ کرتے " پہلوان ہوٹل " کی طرف چل دیا۔ چند قدم کا فاصلے پر مسجد کا موڑ مڑ کر جیسے ہی میں ہوٹل کے قریب پہنچا تو دور سے ہی عبدالصمد، پہلوان جی کا بیٹا جو ہوٹل سنبھالتا تھا، کی آواز آئی "" شاہ جی!!! "" قربت کی اس انوکھی پکار نے زندہ دلی کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ میرے چہرے پہ سجا دی۔ اس کے قریب پہنچا تو بے تکلفی سے میرے گلے لگ گیا اور بولا " آو مرشد پاک، ایتھے بیٹھو "۔ حالانکہ میں نے اسے کئی بار منع بھی کیا تھا کہ مجھ جیسے گنہگار بندے کو اس لقب سے نہ پکارا کرے لیکن شاید یہ اس کی سادات سے عقیدت تھی کہ مجھ جیسے بندے کو بھی وہ اس طرح مؤدب انداز میں مخاطب کرتا تھا۔ بہرحال، میں جیسے ہی بیٹھا تو وہ بی بی سی نیوز کا سارا خبرنامہ سنانے لگا۔ تھوڑی دیر تک میں اس کی دلجوئی کیلئے سنتا رہا پھر مضحکہ خیز انداز میں اسے کہا " یار، دماغ بڑا چٹ لیا اي ہن پائے وي لے آ! " تو اس کے چہرے پہ انکار بھرا سکتا چھا گیا اور میرے سوالیہ انداز میں دیکھنے پہ وہ بول پڑا " شاہ جی، چھوٹے نے غلطی نال کسی گاہک نوں دے دتے نے، اج قورمہ بڑا اچھا بنیا اۓ اوہ کھاؤ"۔ خیر، ایک لمحے کیلئے میں خاموش ہوا اور پھر شکوہ بھرے انداز میں یہ کہتے ہوۓ اٹھ کھڑا ہوا" بس پائے نئیں تے کجھ نئیں کھانا میں "- پھر کیا تھا کہ وہ اپنے مخصوص انداز میں مجھ سے لپٹ لپٹ کے مجھے روکنے لگا اور ميں بضد کہ پائے ہی کھانے ہیں اور کچھ نہیں کھانا- اسی اثناء میں ایک آدمی، قریبا" 6 فٹ لمبا، ہاتھ میں ایک چھوٹی سی تھیلی لیے اندر داخل ہوا- جو کہ پھٹے پرانے کپڑے، پاؤں میں ٹوٹی ہوئی نائلون کی چپل پہنے ہوئے تھا- بائیں ہاتھ پہ پٹی اور چہرے پہ بڑی ہوئی داڑھی جو شائد ایک عرصے سے تراشی نہیں گئی- اس کے چہرے کا اطمینان جو کہ اس کے اندر کے کرب کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہو- خیر، چھوٹی تھیلی ٹیبل پہ رکھتے ہوئے وہ ایک طرف کرسی لیے بیٹھ گیا-
تھوڑا ‏غور کرنے پہ معلوم ہوا کہ اس تھیلی میں " اچار " کے چند ٹکڑے ہیں- میں نے ذرا طنزیہ ہنسی کے ساتھ خود کلامی کی " دیکھو اس شخص کو، کھانے کا چسکا لینے کے لئے اچار ساتھ اٹھائے پھرتا ہے"- اتنے میں صمد کے پوچھنے پہ کہ کیا کھائے گا وہ، اس نے بس اتنا کہا " دو روٹیاں دے دیو بس!"- یہ سن کر میں نے بھی سوالیہ انداز میں اسے دیکھا اور صمد نے بھی پوچھا " کیوں سالن نہیں چاہی دا؟؟؟" تو اس شخص نے نحیف آواز میں کہا " نہیں! "۔ بس اس کا یہ نہیں سننا تھا کہ میرے اندر ایک لہر سی دوڑ گئی اور میرے ذہن نے قطعی اندازہ لگایا کہ یہ شخص سوکھی روٹی صرف اس "اچار کے ساتھ کھائے گا جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا- صمد پہلوان نے بغیر سالن کے روٹی دینے سے انکار کرتے ہوئےروکھے انداز میں کہا " بھا جی، اسی اپنا سالن ویچنے آستے روٹی باہروں لینے آں "- ابھی اس نے یہی کہا تھا کہ میں نے اسے ٹوکا اور آنکھیں دیکھاتے ہوئے اسے روٹی دینے کو کہا لہذا اس نے ایسا ہی کیا- اس کے بعد شائد اس نے صمد پہلوان کے ڈر سے پلیٹ بھی نہ مانگی اور اسی تھیلی میں سے اچار کی ڈلی نکالتا اور سر جھکائے سوکھی روٹی کے ساتھ کھاتا جا رہا تھا- پھر کیا تھا کہ میں اس کے بارے میں اپنی طنزیہ رائے کی وجہ سے اپنے ہی ضمیر سے چھپنا چاہ رہا تھا اور ایسا منفی سوچنے پہ اندر ہی اندر ماتم کناں تھا اور شائد آنکھوں میں آنسو بھی۔۔۔۔۔۔۔ میں چوری چھپے مگر ٹکٹکی باندھ کے مسلسل اسے دیکھ رہا تھا- اسکی آنکھیں گہری خاموشی میں جھکی ہوئی اردگرد کے ماحول سے حجاب کرنے کی کوشش کر رہی تھیں- اتنے میں صمد پہلوان بھی اس شخص کی غربت اور خودداری کو بھانپ گیا اور افسردہ سے چہرے کے ساتھ اس نے میری طرف نگاہ کی تو میں نے اشارے سے اسے پیسے لینے سے منع کیا- صمد پہلوان نے بھی ہاں میں آنکھیں جھپکیں اور اپنے گاہک ڈیل کرنے لگ گیا- اتنے میں اس شخص نے کھانا ختم کیا اور وہ اچار کی تھیلی پھر سے اپنی جیب میں رکھ کے اپنے ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا " شکرا" للہ "- اس کا یہ انداز دیکھ کر مجھے رہ رہ کر اس کے بارے میں اپنی منفی رائے اور خلاف تمنا کھانا نہ کھانے میں ضد کرنے پہ شرمندگی ہو رہی تھی- اتنے میں وہ شخص اٹھا اور اپنی جیب سے فورا" ہی دس روپے کا تہہ شدہ نوٹ نکالا کہ جیسے یہ ایک ہی نوٹ تھا اس کی جیب میں! بہرحال وہ صمد پہلوان کی طرف بڑھا اور اس سے پوچھا " کنے پیسے " تو صمد پہلوان نے دھیمے لہجے میں کہا "رہن دیو بھا جی، ہو گئے نے "- اس شخص نے شکریہ کے انداز میں ہلکی سی مسکراہٹ دیتے ہوئے سر جھکائے اپنے راستے پہ چل دیا- صمد میرے پاس بیٹھ کر پوچھنے لگا " کی ھویا جے شاہ جی؟؟؟ " تو میرے منہ سے بس یہ ہی نکل سکا " اسی بڑے نا شکرے آں یار! "

اس واقعے نے میرے ذہنی روش پہ بہت ہی مثبت اثرات ڈالے لہذا دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اس کے دئیے پہ صبر اور ہر حال میں اس خالق و رازق کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے- (آمین)

Shahmeer Naqvi
About the Author: Shahmeer Naqvi Read More Articles by Shahmeer Naqvi: 2 Articles with 1694 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.