جامعہ کراچی کاشعبہ لائبریری سائنس جو اب لائبریری و
انفارمیشن سائنس ہے ۱۰ اگست ۱۹۵۶ء کو معرض وجود میں آیا۔الحمد اﷲ شعبہ نے
۲۰۰۶ء میں ۵۰ سال مکمل کر لیے ۔راقم الحروف کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ ۱۹۷۱ء
اور ۱۹۷۲ء میں مادر علمی کے اس شعبہ میں تعلیم حاصل کی اور لائبریری سائنس
میں ایم اے کی ڈگری حاصل کر سکا۔ میری زندگی کا یہ ایک اہم ترین زمانہ تھا
جس کی بنیاد پر میں نے اپنی زندگی کے ماہ و سال اس پروفیشن میں گزارے۔ اس
شعبہ اور پروفیشن نے مجھے بہت کچھ دیا ذاتی زندگی میں بھی اور پروفیشنل
لائف میں بھی میں اپنے آپ کو کامیاب تصور کرتا ہوں۔شعبہ کی گولڈن جوبلی
(۱۹۵۶ء۔۲۰۰۶ء) کے موقع پر شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس ، جامعہ کراچی
کی جانب سے بھی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔ اس موقع پر ’’پاکستان لائبریری
و انفارمیشن سائنس جرنل‘‘ نے ’’خصوصی شمارہ شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔
درج ذیل تاثرات ان نکات کی روشنی میں تحریرکیے گئے جو مدیر اعلیٰ کی جانب
سے جاری کییگئے تھے۔ یہاں یہ تحریر ایڈٹ کرکے پیش کی جارہی ہے۔
میں شعبہ میں کیسے پہنچا ؟
راقم الحروف نے ۱۹۷۰ میں بی اے پاس کیا اور جامعہ کراچی میں معاشیات میں
ایم اے کر نے کی خواہش لیے غنی الا کرم سبزواری( اب ڈاکٹر غنی لا کرم
سبزواری ہیں )سے مشورہ اور مدد حاصل کر نے شعبہ لائبریری سائنس گیا۔ اس وقت
شعبہ کراچی یونیورسٹی لائبریری (جو اب ڈاکٹر محمود حسین لائبریری ہے) کی
پانچویں منزل پر واقع تھا ۔ مدعا بیان کیا کہ میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں
داخلہ لینے کی خواہش رکھتا ہوں تا کہ اکنامکس میں ایم اے کرسکوں ، ارادہ
بینکر بننے کاہے۔ اکرم صاحب جو شعبہ کے ایک سینئر استاد اور انتظامی امور
سے بھی وابسطہ تھے نے محبت اور پیار سے بٹھایا ، خوش ہوئے کہنے لگے کہ میں
کلاس میں جارہا ہوں واپس آکر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ کلاس سے واپس آئے
دائیں بائیں ، اِدھر اُدھرکالے گاؤن پہنے ہوئے کئی طلبہ اور طالبات تھے
اپنے کمرے میں آئے کچھ دیر ان سے باتیں کر کے انہیں فارغ کیا۔ اب میری جانب
متوجہ ہوئے گویا ہوئے ہاں میاں تو آپ اکنامکس میں ایم کر نا چاہتے ہیں ،
بہت خوب اچھا خیال ہے، کیا تم نے فارم لے لیا میں نے کہا کہ نہیں ابھی نہیں
لیا لینا ہے۔پھر گویا ہوئے کہ بھئی یہ جو ہمارا سبجیکٹ ہے لائبریری سائنس
یہ بھی ایک پروفیشنل اور ٹیکنیکل مضمون ہے اور خاصا اسکوپ ہے اگر تمہیں
لکھنے پڑھنے اور کتابوں سے دلچسپی ہے تو اس کے بارے میں بھی سوچومیرا خیال
ہے کہ یہ مضمون بھی تمہارے لیے بہتر رہے گا۔میں نے اسء وقت فیصلہ کرلیا کہ
میں معاشیات میں نہیں بلکہ لائبریری سائنس میں داخلہ لوں گا۔
لا ئبر یرین شپ میں داخل ہونے کی اولین گھڑی تھی چنانچہ ایک داخلہ فارم
اکنامکس میں اور ایک لائبریری
سائنس میں جمع کرادیا گیا۔لائبریری سائنس شعبہ کے انتظامی معاملات میں اس
وقت اکرم صاحب ہی کر تا دھر تا تھے چنانچہ داخلہ فہرست میں نام آنا لازمی
تھا ایسا ہی ہوا۔میں نے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ جاکر دیکھا بھی نہیں کہ وہا ں کی
داخلہ فہرست میں نام آیا یانہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ میں یہ فیصلہ کر چکا
تھا۔اس فیصلہ پر میرے والد صاحب خوش اور مطمئن تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر عبد المعیدشعبہ کے بانی سربراہ
۱۹۷۱ء کے ابتدائی دنوں میں سے کوئی دن، شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی
ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کی پانچویں منزل پر واقع تھا ۔ تمام کمروں کے
چارو ں اطراف کھلی ہوئی جگہ نے کلاس روم کو ضرورت سے زیادہ روشن کردیا تھا
بلکہ چبھتی ہوئی روشنی کا احساس نمایاں تھا۔کلاس روم میں کل۷۷ طلبہ جن میں
۴۴ طلبہ اور ۳۳ طالبات تھیں۔ یہ ایم اے سال اول (لائبریری سائنس) کی کلاس
تھی۔ تمام طلبہ نے جامعہ کے شو ق میں کالے رنگ کے گاؤن ذیب تن کیے ہوئے تھے
(اُس زمانے میں جامعہ کے ہر طالب علم کے لیے کالا گاؤن پہننا لازمی تھا)۔
کلاس روم میں مکمل خاموشی، پہلے دن کے خوف نے ماحول کو کچھ زیادہ ہی خاموش
بنا دیا تھا۔ پہلی کلا س تعارفی کلا س تھی شعبہ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر
عبدالمعید ، غنی الا کرم سبزواری(مشیر امور طلبہ)، سید جلا ل الدین حیدر
اور اظہار الحق ضیاء کلا س میں موجود تھے ۔ صدر شعبہ ڈاکٹر عبدالمعید صاحب
نے تمہیدی کلمات کہے ، شعبہ تعارف کرایا ، اسا تذہ کے بارے میں بتا یا ،
ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سے صاف ظاہر تھا کہ کہ کو ئی عالم فاضل شخص گفتگو کر
رہا ہے۔گندمی رنگ،قد میں قدرِ چھوٹے، گٹھا ہوا جسم، روشن آنکھیں، سیاہ بال،
کلین شیو، کالے رنگ کے چشمہ نے ان کی شخصیت کو حسین بنا دیا تھا۔بعد میں
معلوم ہوا کہ ہمارے ایک استاد اور بھی ہیں جو پیروں میں تکلیف کے باعث اوپر
نہیں چڑھ سکتے وہ تھے پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید صاحب۔
ڈاکٹر عبدالمعید بہ حیثیت استاد اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ، آپ کا حافظہ
زبر دست تھا ، کتب خانوں کی تاریخ کے حوالے سے آپ کو تاریخی واقعات کے ساتھ
ساتھ تاریخیں بھی یاد تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک بہترین مقرر تھے۔ تقریر
کے فن سے خوب واقف تھے البتہ ّپ کا تحریری سرمایہ مختصر تھا۔اس کے بر عکس
ڈاکٹر انیس خورشید صاحب اپنی تکلیف کے باعث کم گفتار ، دھیمہ لہجہ، اکثر
پیچھے بیٹھے ہوئے طلبہ آپ کے لیکچر سے محروم ہی رہا کرتے لیکن اﷲ تعالیٰ نے
آپ کو تحریر کی بے بہا نعمت سے نوازا آپ کا تحریری سرمایا ہر اعتبار سے
یعنی معیار اور تعداد کے اعتبار سے لائبریری سائنس کے لکھنے والوں میں
زیادہ ہے۔سید جلال الدین حیدر (اب ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر ہیں ) شعبہ کے
با صلا حیت اور محنتی اساتذہ میں سے تھے۔اظہار الحق ضیاء صاحب کالج
لائبریرین تھے آسٹریلیا سے لائبریری سائنس میں
پوسٹ گریجویٹ ڈپلو مہ تھے ۔
جامعہ کراچی میں سیمسٹر نظام رائج نہیں ہوا تھا بلکہ سا لانہ طریقہ امتحان
ہی پر عمل ہو رہا تھا۔ لائبریری سائنس ہم تمام طلبہ کے لیے بالکل ہی نیا
موضوع تھا ۔ ہم نے لفظ کیٹلاگ یا کیٹلاگنگ ، ببلو گرافی، ڈیوی دیسیمل
کلاسیفیکشن ، ریفرنس سر وس وغیرہ پہلی بار ہی سنے تھے۔یہ ہمارے اساتذہ کا
کمال ہی تھا کہ نئے موضو عات کو اس خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ سمجھا یا
اور سکھا یا کہ ہماری دلچسپی اس مضمون سے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ راقم
الحروف کیوں کہ یہ ارادہ لیے جامعہ میں داخل ہوا تھا کہ اس سبجیکٹ میں
ماسٹر کرنا ہے چنانچہ تمام تر سرگرمیوں سے دور رہتے ہوئے پڑھائی کی جانب
توجہ مرکوز رکھی۔میں تو اسکول سے گریجویشن تک درمیانہ درجہ کا طالب علم رہا
لیکن شعبہ لائبریری سائنس میں تعلیم کے دوران میں نے زیادہ محنت کی، مضمون
میں حد درجہ دلچسپی لی، غیر نصابی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ نہیں لیا شرکت
کی حد تک شامل ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ میری پہلی ڈویزن آئی اور لکھنے اور
پڑھنے کی جانب بھی مائل ہو گیا۔ایم اے فائنل میں تھیسس لکھنا اس وقت لازمی
تھا چنانچہ میں نے اپنے استاد ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری کی نگرانی میں
’’اردو میں سائنسی موضوعات کی کتب کی تو ضیعی کتا بیات ‘‘ مر تب کی ۔ اسی
مشقت اور محنت نے مجھے کتا بوں کے زیادہ قریب کر دیا اور مجھ میں لکھنے
جستجو اور لگن پیدا ہوئی ۔
فارغ التحصیل ہو نے کے بعد پہلی توقع تو یہ ہو ا کرتی ہے کہ جلد کوئی
ملازمت حاصل ہو جائے اور اساتذہ ہماری رہنمائی اور سر پرستی کرتے رہیں۔مجھے
شعبہ کے اساتذہ کی وجہ سے ہی اولین ملازمت ڈاکٹر محمود حسین لائبریری میں
ملی جس میں کوئی چار ماہ کام کیا یہ زندگی کا اولین تجربہ تھا بعد ازاں
حکومت سندھ کے شعبہ تعلیم میں گریڈ ۱۷ کی ملازمت مل گئی۔شعبہ کے اساتذہ کی
رہنمائی اور سرپرستی کا ہی نتیجہ ہے کہ میں نے اپنے موضوع پر لکھنا سیکھا ،
میرے مضامیں شائع ہوئے اور آج اﷲ کے فضل سے ۳۳ کتابیں اور۲۵۰ سے زیادہ
مضامیں شائع ہوچکے ہیں انٹر میڈیٹ اور بی اے کے نصاب میں راقم کی نصابی کتب
کو اولین شائع ہونے اور سب سے زیادہ پڑھی اور شائع ہونے والی کتب کا درجہ
حاصل ہے۔
شعبہ لائبریری سائنس جو ۱۹۸۹ء سے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس ہے کا
موازنہ اپنے زمانہ طالب علمی سے کر تا ہوں تو مجھے اس شعبہ کے درو دیوار تو
وہی نظر آتے ہیں البتہ تعلیم دینے والے وہ شفیق اور اعلیٰ تعلیم یافتہ
اساتذہ نظر نہیں آتے۔ڈاکٹر عبدالمعید اﷲ کو پیارے ہو چکے باقی تمام اساتذہ
اگر شعبہ میں موجود بھی ہوتے تو ریٹائر ہو چکے ہوتے۔ میرے زمانہ طالب علمی
میں پانچ اساتذہ تھے جب کہ ایک خاتون جذوقتی استاد تھیں۔ تمام کے تمام
اساتذہ (Foreign qualified)تھے ان میں سے ڈاکٹر عبدالمعید( بنگال لائبریری
ایسو سی ایشن ، کلکتہ سے لائبریری سائنس میں سر ٹیفیکیت ، مشیگن یونیورسٹی
، امریکہ سے لائبریری سائنس میں ایم ایل ایس، یونیورسٹی آف ایلونائے ،
امریکہ سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی تھے اور ڈاکٹر انیس خورشید( کراچی
لائبریری ایسو سی ایشن کے تحت سر ٹیفکیٹ کورس، جامعہ کراچی سے لائبریر ی سا
ئنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ ، امریکہ کی(Rutgers-State University of N
J)سے ایم ایل آئی ایس اور امریکہ کی(University of Pittsburgh) سے لائبریری
سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں اس کے علاوہ لائبریری سائنس کے شعبے میں صدارتی
تمغہ حسن کارکردگی حاصل کر نے والے آپ اولین شخص ہیں۔ غنی الا کرم سبزواری
مشیگن یونیورسٹی University) (Michigan سے بعدمیں امریکہ کی سینچری
یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ، سید جلال الدین حیدر رٹگرس ،اسٹیٹ یونیورسٹی
آف نیو جرسی (Rutgers,TheState University, NJ) سے ایم اے بعد میں لفبرو
یونیورسٹی ، برطانیہ (Loughborough University, UK)سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل
کی ، اظہار الحق ضیاء یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز ، آسٹریلیا(University
of New South Wales, Australia) سے لائبریری ساائنس میں پوستٹ گریجویٹ
ڈپلومہ تھے اور ممتاز بیگم کراچی یونیورسٹی سے بوٹنی میں ایم ایس سی
اور لندن سے لائبریری و انفارمیشن سائنس میں ایم اے تھیں۔
آج سے ۳۴ (ا۷۔۱۹۷۲ء)سال قبل جب راقم الحروف اس شعبہ کا طالب علم تھا اور آج
کازمانہ تر قی اور علم کے فروغ نیز وسائل کے اعتبار سے بہت مختلف ہے۔ یہ
دور معلومات کے پھیلاؤ اور انفارمیشن سائنس کی دو لت سے مالا مال ہے چنانچہ
شعبہ موجودہ حالات اور ضروریات کے مطابق ایک جدید تعلیمی ادارہ ہے جہاں پر
سیمینار لائبریری، کمپیوٹر لیب اور زیادہ اساتذہ طالب علموں کی رہنمائی کے
لیے موجود ہیں۔
راقم الحروف کو شعبہ کی سلور جوبلی تقریب (۱۹۸۱ء) اور اس سال (۲۰۰۶ء) میں
گولڈن جوبلی تقریب میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔ گولڈن جوبلی تقریبات ۱۸۔۱۹ستمبر
۲۰۰۶ء کو منعقد ہوئیں۔سلور جوبلی تقریبات کا افتتاح اس وقت کے گورنر سندھ
نے کیا تھا جب کہ گولڈن جوبلی تقریبات کا افتتاح جامعہ کراچی کے شیخ
الجامعہ نے کیا۔پاکستان میں لائبریرین شب کے بانی پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید
سلور جوبلی تقریبات میں موجود تھے جب کہ ان تقریبات کے انعقاد میں پروفیسر
ڈاکٹر انیس خورشید اور ڈاکٹر سید جلاالدین حیدر پیش پیش تھے۔ ڈاکٹر
عبدالمعید اﷲ کو پیارے ہوچکے جب کہ ڈاکٹر انیس خورشید صاحب صاحب فراش ہیں
جس کے باعٹ وہ تقریب میں حاضر نہ ہوسکے تاہم ان کا پیغام جو ان کی اپنی
نحیف ؔواز میں تھا سنا یا گیا۔ ڈاکٹر سید جلاالدین حیدرصاحب شعبہ سے ریٹائر
ہوچکے ہیں آپ نے گولڈن جوبلی تقریبات میں مجلس مزاکرہ کی صدارت کی۔راقم
الحروف نے ایک مجلس مزاکرہ بعنوان ’’لائبریریز اور لائبریرین شپ‘‘ کی صدارت
کی جب کہ ایک اور مجلس مزاکرہ بعنوان ’’پاکستان میں لائبریری انجمنوں کا
کردار‘‘ میں ایک مقرر کی حیثیت سے شرکت کی۔ تقریب کے اختتام پر شعبہ کی
جانب سے مختلف احباب کو اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ راقم کو بھی
'Professional Achievement Award' سے نوازا گیا -
(مطبوعہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل جلد ۳۷، شمارہ ۴،دسمبر
۲۰۰۶ء) |