دنیا بھر میں آئے دن سیاسی ڈراموں کا انعقاد ہوتا ہے،
اسٹیج سجائے جاتے ہیں اور ڈرامہ شروع کیا جاتا ہے، آجکل پاکستان کے
دارالخلافہ اسلام آباد میں قومی اسمبلی اور وزیراعظم ہاوس کے سامنے بیک وقت
دو اسٹیج سجائے گے ہیں ایک اسٹیج پر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران
خان ہیں اور دوسرئے اسٹیج پر پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری
ہیں، تیسرا اسٹیج وزیراعظم ہاوس میں پہلے سے سجا ہوا ہے جہاں پاکستان مسلم
لیگ نون کے سربراہ نواز شریف وزیراعظم کی حیثیت سے موجود ہیں۔ 2007ء اور
2008ء میں وکلا تحریک میں ایک نعرہ ضرور لگایا جاتا تھا "گو مشرف گو"، نواز
شریف کو یہ نعرہ اسقدر پسند تھا کہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان
افتخار محمد چوہدری اوراُنکے حواریوں کے اوپر اسقدر سرمایہ کاری کی کہ
آخرکار 18اگست 2008ء کو "گو مشرف گو" کا نعرہ پایہ تکمیل کو پہنچا اور سابق
صدرجنرل پرویز مشرف کو استعفی دینا پڑا۔ آج وزیراعظم ہاوس کے سامنے جو دو
اسٹیج آزادی اور انقلابی دھرنے کے نام سے لگے ہوئے ہیں، اُنکے مطالبات
مختلف اور کم زیادہ ہیں، مگر ایک مطالبے یا نعرہ پر دونوں کا مکمل اتفاق
ہے، نعرہ کسی بھی اسٹیج سے لگے، نعرہ ہوتا ہے"گو نوازگو"۔ بدلتا ہے رنگ
آسماں کیسے کیسے، اِسکا شاید نواز شریف کو اسوقت بلکل احساس نہیں تھا جب وہ
مشرف کو اقتدار سے علیدہ کرنے کےلیے افتخار محمد چوہدری اوراُنکے حواریوں
کو استمال کررہے تھے۔ اُنہوں نے شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ ایک دن "گو مشرف
گو" کا نعرہ تبدیل ہوکر "گو نوازگو" بن جائےگا، جب یہ نعرہ لگایا جاتا ہوگا
توشاید وزیراعظم ہاوس میں صاف سنائی دیتا ہوگا۔ عوام جو اُن ڈراموں میں
شامل ہوتے ہیں ، ڈرامہ ختم ہونے کے بعد اُنکو کو نہ داد ملتی ہے نہ معاوضہ،
جسکی دو مثالیں دی جاسکتی ہیں، 2009ء میں نواز شریف کا ججوں کی بحالی کےلیے
لانگ مارچ اور 2013ء میں طاہر القادری کالانگ مارچ اور پانچ روزکا دھرنا،
دونوں میں عوام شامل، عوام کو کچھ نہ ملا، نواز شریف وزیراعظم بن گے اور
طاہرالقادری دوسری مرتبہ اسلام آباد کا گھیراو کرنے میں کامیاب۔
نواز شریف کے والدمیاں محمد شریف ایک کاروباری شخص تھے، مرحوم کو جہاں
فاہدہ نظر آتا وہ اُسکو حاصل کرنے کی کوشش کرتے، بڑی بڑی شخصیات کو خریدنے
میں کبھی جھجک محسوس نہیں کی جو بک گیاوہ شریف فیملی کا غلام بن گیا، بکنے
والے تو کبھی نہیں اعتراف کرینگے مگر سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ اور
سابق صدر جنرل پرویزمشرف جب جب وہ آرمی چیف تھے بتایا کہ اُن کو نواز شریف
نے کھانے پربلایا اوراُنکے والد میاں شریف نے اُنہیں نئی کار کی چابیاں دی
جو انہوں نے اُنکو واپس کردی، آصف نواز جنجوعہ کےمیاں شریف کی اس حرکت کے
بعد نواز شریف سے تعلقات بہت خراب ہوگئے تھے لیکن جلدہی اُنکا انتقال
ہوگیا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُنکی ہلاکت زہر سے ہوئی، انکو زہر دینے کا
الزام موجودہ وزیر داخلہ چوہدری نثار پر لگایا گیا، جبکہ پرویز مشرف کے بھی
تعلقات میاں شریف کی حرکت کے بعد نواز شریف سے اچھے نہیں رہے، تھوڑئے ہی
عرصے بعد کارگل کا واقعہ ہوا اور پھر 1999ء میں جنرل مشرف نے نواز شریف کو
اقتدار سے محروم کردیا۔ نواز شریف کی سیاست کا آغازفوجی آمر جنرل ضیاءالحق
کے زیر سایہ ہوا۔ انہوں نے 1981ء ميں پنجاب کی صوبائی کابينہ ميں بطور
وزيرخزانہ شامل ہوکر اقتدار کے ایوان میں شمولیت اختیارکی۔ 1988ء میں جنرل
ضیاءالحق ایک ہوائی حادثہ میں ہلاک ہوگےمگر نواز شریف آگے بڑھتے ہوئے ایک
اور فوجی جنرل حمید گل کی مدد سے 6 نومبر 1990ء کو پہلی مرتبہ ملک کے
وزیراعظم بنےلیکن جلدی اُسوقت کے صدر سے اُن کے اختلاف ہوگے جنہوں نے اُن
کو ان کے منصب سے فارغ کر ديا۔وہ سپریم کورٹ چلے گے اور چمک کے کرشمے سے
دوبارہ بحال ہوگے، جس بینچ نے اُنکو بحال کیا تھااُسکے سربراہ جسٹس نسیم
حسن شاہ تھے جو نواز شریف کے دوسرئے دور میں سینٹ کے امیدوار تھے لیکن بن
نہ سکے۔ جبکہ سابق صدر رفیق تارڑ بھی بینچ کا حصہ تھے جو نواز شریف کے
دوسرئے دور میں صدر بن گے۔نواز شریف کو سپریم کورٹ نے بحال تو کیا لیکن
اُنکو جولائی 1993ء میں صدر کے ساتھ استعفی دينا پڑا۔
نواز شریف دوسری مرتبہ 17 فروری 1997ء سے 12 اکتوبر 1999ء تک وزیراعظم رہے،
اُنکا یہ تمام عرصہ مختلف اداروں سے اختلاف میں گذرا۔ اپنے دوسرئے دور
اقتدارمیں چونکہ بھاری اکثریت سے جیتے تھے لہذا وہ کسی کو بھی خاطر میں
نہیں لاتے تھے۔دسمبر1997 میں جب جسٹس سجاد علی شاہ نے نواز شریف کی حکومت
سے ٹکر لی تھی اس وقت وکلاء عدلیہ کے ساتھ نہیں تھے۔جسٹس سجاد علی شاہ اور
وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان جھگڑا سپریم کورٹ کے دو حصوں میں بٹوارے،
ملک کی اعلی ترین عدالت پر سیاسی غنڈوں کے حملے، چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی
برطرفی اور صدر فاروق لغاری کے استعفی پر جاکر ختم ہوا تھا۔ بارہ اکتوبر
1999 کو نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو اُن کے سری لنکا کے دورے کے دوران
برخواست کرکے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارلی ۔ شام تک نواز شریف کی حکومت
ختم ہوگئی اور وہ گرفتار ہوگے۔دسمبر 1999 میں حکومت سے ایک دس سالہ معاہدہ
کرکے جدہ چلے گے، اُنکی واپسی نومبر 2007 میں ہوئی۔ 2008 کے الیکشن میں وہ
مرکز میں تو اقتدار حاصل نہ کرسکے مگر پنجاب میں اُنکی حکومت بنی، 2013 کے
الیکشن میں کامیاب ہوکرنواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے۔ آج
اُنکے بھائی تو اپنے آپ کو خادم اعلی کہلاتے ہیں جبکہ نواز شریف کے دوست
آصف زرداری نےاُنکو بادشاہ کا لقب دیا ۔ دراصل نواز شریف اور شہباز شریف نے
اپنی جلاوطنی کا زیادہ وقت سعودی عرب میں گذارا ہے اور سعودی شاہی خاندان
سے اُنکی ملاقاتیں رہیں ہیں لہذا دونوں بھایئوں پر وہاں کے نظام کا کچھ اثر
آگیا ہے، شاہ فہد بن عبدالعزیزنے پہلی مرتبہ اپنے آپ کو بادشاہ کہلانے کے
ساتھ ساتھ "خادم الحرمین الشرفین" کہلایا تو موجودہ بادشاہ عبداللہ بن
عبدالعزیز بھی اپنے آپ کو "خادم الحرمین الشرفین" ہی کہلاتے ہیں، شاہ فہد
ہوں یا شاہ عبداللہ لاکھ اپنے آپ کو "خادم الحرمین الشرفین" کہلایں مگر وہ
اپنے ملک کے بادشاہ ہیں۔ اب شہباز شریف تو کافی عرصہ سے خادم اعلی ہیں
اورنواز شریف گذشتہ سال 5جون سے اس ملک کو بادشاہ بن کرچلارہے ہیں۔
ملک آج کل پھر سیاسی ہلچل سے دوچار ہے، ایک طرف آزادی والے ہیں جو الیکشن
کمیشن کے سابق ایڈنشنل سیکریٹری محمد افضل خان کے بیان کو بنیاد بناکر
استعفی کا مطالبہ کرچکے ہیں تو دوسری طرف کفن دکھاکر انقلاب کی آمد کا
اعلان ہورہا ہے۔ بدقسمتی کا پورا سایہ نواز شریف اور اُنکے بھائی شہباز
شریف پر لہرا رہا ہے۔پہلے اچانک راتوں رات کسی کے دماغ میں ماڈل ٹاون لاہور
میں لاشیں گرانے کا خیال آیا اور اب الیکشن کمیشن کا سابق ایڈنشنل سیکریٹری
کا انتخابات میں دھاندلی کا اعتراف۔ اسلام آباد میں اس وقت دو دو دھرنے دیے
جارہے ہیں ، ہمارئے ہاں تو ایسا ہوتا رہا کہ آج حکومت بنی اور کل سے حکومت
کے خاتمے کی تاریخیں آنا شروع کوئی تعجب کی بات نہیں، اور اگر حکومت کے
سربراہ نواز شریف ہوں جو پہلے بھی دو مرتبہ اپنی حکومت کا خاتمہ وقت سے
پہلے ہوتا دیکھ چکے ہوں، یہ بات کسی کے لیے بھی تعجب کا باعث نہیں کیونکہ
نواز شریف ماضی سے کبھی کچھ نہیں سیکھتے۔ اگر نواز شریف اپنی ملکی مسائل پر
ذرا بھی توجہ دیتے، بڑھتی ہوئی مہنگائی کم کرنے کی کوشش کرتے، بجلی کے
بحران میں کچھ بہتری لاتے اور بجلی کے بلوں کے زریعے عام غریب لوگوں کو
جوجھٹکے دے رہے ہیں یہ نہ دیتے، کشکول توڑنے کے وعدئے کو توڑ کر اور بڑا
کشکول پھیلاکر اپنی معاشی پالیسیوں کی ناکامیابی کا ڈھول نہ پیٹتے، اپنے
سمدھی اسحاق ڈار جو پہلے بھی ایک ناکام وزیر خزانہ رہ چکے ہیں، اُنکی جگہ
کسی قابل آدمی کو آگے لاتے جو ملک کو آگے بڑھاتا۔ طالبان سے مذاکرات کے
بہانے وقت برباد کرنا اورپھرفوج سے بلاوجہ کے اختلاف پیدا کرنا، دہشت گردوں
کے خلاف آپریشن کے بعد آئی ڈی پیزکی امداد میں ناکامی، یہ سب کچھ نہ کرتے۔
اپنی ناکام انتظامی اور معاشی پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کےلیے حکومتی پیسے
سےاخبارات میں اشتہار بازی کے زریعے اپنی ذات کا پروپگنڈا، نواز حکومت کی
ناکامی ہے۔ غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقے سے نواز حکومت کا خاتمہ غلط
ہوگا لیکن پورئے ملک میں نواز شریف کی تیسری حکومت کے خاتمے کی باتیں ہورہی
ہیں۔ مولانا فضل الرحمان بھی نواز حکومت کو بچانے کےلیے جلسے جلوس کررہے
ہیں کیونکہ نواز شریف کی حکومت جائے گی تو اُنکی اور اُنکے وزیروں کی نوکری
بھی جائے گی۔ آصف زرداری بھی رائے ونڈ میں ستر قسم کے کھانے کھانے کے
بعداپنےبھائی کی حکومت کو بچانے کی پوری پوری کوشش کررہے ہیں اور "پہلے
میری باری تھی اب آپ کی باری" والے وعدے پر قائم ہیں مگر جناب یہ آصف
زرداری ہیں جو کسی وقت بھی کہہ سکتے ہیں کہ وعدے "قرآن یا حدیث نہیں ہوتے"۔
کیا ان باتوں کے باوجود کسی نجومی سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ اس مرتبہ
نواز شریف اپنی حکومت کے پانچ سال پورئے کرینگے یا نہیں۔ اب "گو مشرف گو"
کے نعرئے میں تبدیلی آچکی ہے اور اب اسلام آباد کے دھرنوں میں تبدیلی کے
بعد نعرہ لگ رہا ہے "گو نواز گو"۔ |