بد قسمتی سے ہمارا ملک گزشہ کئی دھایوں بلکہ تقریباََ
ساری دھایوں سے اک عجیب قسم کی نہ ختم ہونے والی مصیبوں اور آفتوں میں
نااہل اور نکمے لوگوں کے بھنور میں گھرا ہوا ہے گزشتہ دھایوں پر الفاظ ضائع
کرنے کا وقت بھی نہیں اور موقع بھی میں صرف چند باتوں کی وضاحت کرنا چاہ
رہا ہوں وہ میری رائے ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے مگر درد دل رکھنے والا
پاکستانی ضرور تائید کرے گا-
14 اگست پاکستان کا یومِ آزادی کا دن ہے اور اس سال پاکستان کی عوام جو
پہلے بھی عوام ہی تھی اور ہجوم ہی تھی مزید ذہنی طور پر منقسم ہو گئی
حالانکہ اس کو ہجوم سے عوام اور عوام سے قوم بننا چاہیے مگر شائد کبھی یہ
عوامی ہجوم قوم بن جائے اور ہم نہ دیکھ سکیں آج تک اس عوام کو یہ سمجھ نہیں
آئی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ہمارے ملک کی معاشی صورتِ حال کس ڈگر پر
ہے اس پر بحث کرنے کیلیے کئی اور کالم لکھنا پڑیں گے مگر اس موجودہ صورتِ
حال میں صرف یہ بتانا چاہ رہا ہوں کوئی مانے نہ مانے کوئی پارٹی بازی کی
وجہ سے انکار کرے تو کرے کہ پاکستان کا موجودہ نظامِ حکومت مفلوج ہو چکا ہے
اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ جمہوریت ٹھیک نہیں یا ہمارا آئین ٹھیک نہیں یا وہ
نظام جو آئین دیتا ہے وہ ٹھیک نہیں بلکہ اس کی وجہ ہمارے موجودہ حکمرانی
پارٹیاں اور طبقہ ہے اور یہی بات وہ ہے جو ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کہتے
ہیں مگر لوگ اس کو الٹ پلٹ کرتے ہیں میری خواہش ہے کہ ہر بندہ اس ملک
پاکستان کا آئین پڑھے اور پھر اس کے تناظر میں اپنی حکومتوں کو دیکھے تو
انشااﷲ اس ملک کے آئین کی عینک لگا کر دیکھیں گے تو جن کو طاہر القادری چور
، ڈاکو اور ظالم کہتا ہے آپ بھی بے ساختہ طاہر القادری کی زباں بولیں گے۔
اک بات میں بڑے وسوق سے کہتا ہوں کہ جو نظام ہمارا آئین دیتا ہے اگر وہ
نافذ ہو تو کبھی کسی امیر غریب میں فرق سلوک کے حوالے سے باقی نہ رہے لیکن
نظام بھی مفلوج ہے حکمرانوں کی وجہ سے تھوڑا سا سیاست سے ہٹ کے سوچئے گا کہ
جب کوئی بااثر آدمی کوئی جرم کر ے پہلے تو اس کے خلاف ہماری پولیس FIR ہی
درج نہیں کرتی اگر کر بھی لے تو پکڑ نہیں سکتی اگر پکڑ بھی لے تو چائے بسکٹ
منگوا کر اپنی زمانت پر چھڑ بھی دیتی ہے اور اگر کوئی عدالت تک کیس چلا
جائے تو وہ عادی مجرم عدالت میں جاتے ہوئے میڈیا کے سامنے ویکٹری کے نشان
بناتا جاتا ہے اور بااثر آدمی باعزت بری ہو جاتا ہے اور پھر اس بے اثر کی
مصیبتوں میں اور اضافہ ہو جاتا ہے کوئی مدِ مقابل اگر پیسے والا ہو تو عدل
کے لئے پیسے لگاتا ہے تو عدالت تاریخ پر تاریخ ہی دیتی رہتی ہے جو عام سا
مقدمہ ہوتا ہے اس کو فوجداری مقدمے کے عرصے میں کوئی حل کرتی ہے اور جو
فوجداری ہو اس پر نسلیں گزر جاتی ہیں اور اگر کوئی بڑا سانحہ ہو جائے جیسے
کوئٹہ کا واقع یا محرم راولپنڈی کا اور اس جیسے ڈھیروں واقعات جن پر کمیٹی
بنا دی جاتی ہے میری زندگی میں کسی واقع پر کسی کمیٹی نے کوئی فیصلہ نہیں
سنایا کہ ذمہ دار کو سزا دی گئی ہویہ تو ہے میرے ملک میں مفلوج عدالتی نظام
کیا یہ وہ جمہوریت ہے جس کی حفاظت کے گن گائے جا رہے ہیں ؟
یہ تو اک مثال ہے اگر اسی طرح جس ادارے کا رخ کریں اس میں اسی طرح کی
نااہلی مفلوج ہونا ظاہر ہے اور اس میں صر ف اور صرف ہماری سیاسی پارٹیایوں
کا کردار ہے جنہوں نے آئین کے دو حصے کر کے رکھے ہوئے ہیں اک وہ جو ان کے
حق کی بات کرتا ہے اور آئے اسی میں ترامیم کرتے جا رہے ہیں اپنے حق میں اور
جو غریبوں والا آئین ہے شائد وہ خود بھی اتنا غریب ہے کہ کسی ردی کی ٹوکری
میں پڑا ہوا ہو گا کبھی اس آئین کی بات حکمرانوں نے نہیں کیا ہاں جب ووٹ
لینے ہوں تو وہ شائد کسی ردی سے اٹھا لاتے ہیں اور اس کا لولی پاپ بنا کر
عوام کو دیتے ہیں اور ووٹ لے جاتے ہیں پھر عوام پانچ سال تک روتی رہتی ہے۔
بدقسمتی ہے کہ اس ملک کے ساتھ کوئی حکومت سنجیدہ نہیں ہے صرف اپنی شاہانہ
زندگی اور سب کا شراکتی عوامی مال جس کو وہ بے دریغ اڑاتے ہیں کو بچانے کی
فکر میں ہیں بڑی عجیب بات ہے اگر یہ حکمران ملک کے لئے اتنے فکر مند ہوتے
تو اس ملک کی بہتری تبھی ممکن ہے جب اس کے ادارے ٹھیک ہوں جبکہ خود بھی
مانتے ہیں کہ ادارے صحیح کام نہیں کر رہے تو آپ نے کبھی ساچا کہ ان کو ٹھیک
کیوں نہیں کرتے اس لئے کہ اگر وہ ٹھیک ہو جائیں گے تو ان کو بھی مجبوراََ
ٹھیک ہونا پڑے گا جو یہ نہیں چاہتے کیونکہ اس سے ملک ترقی کر جاتا ہے۔
ملیشیاء کے ماہتیر محمد سے ہمارے ملک کہ اک سیاست دان نے پوچھا کہ آپ ملک
اتنا ترقی کیسے کر رہا ہے تو وہ انہیں اپنی لائبریری میں لے کر گئے اور کہا
کہ یہ کتابیں پڑھتا ہوں اور یہی فکر اپنے سسٹم میں استعمال کرتا ہوں بڑی
عجیب بات ہے کہ ان کتابوں کا مصنف ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہے جن کے فلسفے
پر ملیشیا ترقی کر رہا ہے مگر اسی طاہر القادری کی اپنے ملک میں اک نہیں
سنی جاتی کوئی ان کو کینڈین کہ کر رد کرتا ہے تو کوئی مسلکی لحاظ سے اک خاص
فرقہ بندی میں دھکیل کر عوام کو بیوقوف بنا دیتا ہے اور ان کو یہ کہتا ہے
کہ وہ جمہوریت گرانا چاہتا ہے وہ اس نظام کو نہیں مانتا اور اس کے پاس اپنا
بھی کوئی نظام نہیں حالانکہ ڈاکٹر صاحب نے سارا نظامِ حکومت بتایا سارا
عدالتی نظام بتایا اور ملک کے آئین میں مزید کن چیزوں کا اضافہ درکار ہے
تفصیل سے بتایا شائد یہ ان کے خطاب نہیں سنتے اگر سنتے ہیں تو چشم پوشی
کرتے ہیں اور فرقہ کی بات کرنے والوں کو یا تو پتہ نہیں یا حسد اور بغض کے
مرے ہوئے ہیں کہ نظر نہیں آتا میر گناہگار آنکھوں نے ایسا کوئی مذہبی لیڈر
نہیں دیکھا کہ جس کے سٹیج پر ہر مسلک اور مذہب کا بندہ بیٹھا ہو اور اس کی
مثال ہر سال کی میلاد النبی کانفرنس ہے مگر افسوس کہ ہم ناشکرے لوگوں کو ان
عظیم لوگوں کی نہ تو قدر کرنی آئی نہ کی جس کی وجہ سے آج ہم اس حال میں ہیں
چلیں باقی سب چھوڑ دیں آپ قادری صاحب کو کریڈٹ نہ دیں لیکن ان کا جو دیا
گیا نظامِ حکومت ہے اس کو analyst لوگوں کی ٹیبل پر تو لائیں کہ اس کو
تجزیہ میں لائیں کہ اس سے ملک کو فائدہ ہو سکتا ہے کہ نہیں جس کا قادری
صاحب دعویٰ کر رہے ہیں چلیں اس کو بھی چھوڑیں اگر آپ ملک کے لئے اتنے
سنجیدہ ہیں تو جو ملک کا آئین نظام دیتا ہے اس کو ہی فنگشل کر دیں لیکن
ممکن نہیں تم لوگوں کے مفاد مرتے ہیں
اور موجودہ نظامِ حکومت کے لئے علامہ اقبال کا اک شعر لکھوں کا اور وہی اس
کا حل ہے
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو |