اسلام اپنے ہمہ گیر دستور کی بنیاد پر دنیا کا سب سے عظیم
اور بلند وبالادین ہے اور دین ایک اکائی کا نام ہے۔دنیا اور آخرت اس کے دو
پہلو ہیں۔لفظ دین دونوں پہلوؤں کو محیط ہے۔مذہبی تعلیم کا وہ حصہ جو جنت
ودوزخ،ثواب وعتاب اور قبروحشر سے متعلق ہے اسے آخرت کہاجاتاہے اور دینی
ومذہبی تعلیم کا وہ حصہ جو عدل وانصاف،دنیوی زندگی وباہمی تعلقات،خدمت
خلق،نظم وضبط،انتظام وانصرام اور اصول جہاں بانی وحکمرانی سے متعلق ہے اسے
سیاست کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔بہ الفاظ دیگروہ تعلق جو بندوں کااﷲ کے ساتھ
ہے اس کا نام دین ہے اور جو بندوں کابندوں کے ساتھ ہے اس کا نام سیاست ہے۔
اس تعریف سے یہ معلوم ہواکہ دین اور دنیاکو الگ الگ خانوں میں بانٹنا،دونوں
میں تفریق کرنااور دونوں کے راستے اورمنزل الگ الگ سمجھنانادانی اور غلطی
ہے۔مگر مختلف اسباب و وجوہ سے موجودہ دور میں یہ دواجزاء دوالگ الگ خانوں
میں بٹ چکے ہیں۔اہلِ علم دینی تعلیمات کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں تو اہلِ
سیاست حکومتی باگ ڈور سنبھالنے میں مصروف۔اب دونوں کا مطمح نظر جداہوچکاہے۔
سیاست سے دین جداہوتو صرف چنگیزی رہ جاتی ہے اسی طرح تبلیغ سے مکمل دین
جداہوتو صرف رہ جاتاہے سیاسی اکھاڑہ۔اسلامی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پہلے جو
منصب امامت پر ہوتاتھاوہی خلیفۃ المسلمین بھی یعنی امامت اور سیاست کی باگ
ڈور ایک شخص کے ہاتھ میں ہوتی اور اس کا مقصد ہوتاخالص دین اسلام کی
اشاعت۔جب سے یہ راہیں جداہوئیں،قیادت کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ
ہوا، ساتھ ہی لوگوں کے نظریات وخیالات بھی تبدیل ہوئے،کچھ لوگ اپنی زندگی
کی پوری توانائی اہل علم کے پیچھے چلنے میں صَرف کررہے ہیں اور کچھ لوگ اہل
سیاست کے پیچھے اپنی حیات کامکمل سرمایہ لُٹا رہے ہیں۔اب سوال یہ پیداہوتا
ہیکہ کیا دونوں جانب سے لوگوں کی صحیح رہبری ہورہی ہے؟عوام کو صحیح ڈگر
بتائی جارہی ہے؟کیا انھیں ایسی شاہراہ پر گامزن کیاجارہاہے جس پر چل کر وہ
خدا و رسول ﷺکی بارگاہ میں شرمندگی اُٹھانے سے محفوظ رہیں اور ملکی قانون
کی بھی پاسداری کریں؟اس ضمن میں ایک تجزیاتی مطالعہ کیاجائے تودونوں طبقوں
کے چند لوگوں کی وجہ سے عوام کادونوں طبقے کے قائدین سے اعتماد ختم ہو رہا
ہے ، عوام بے چین ومضطرب ہے،آخربھروسہ کیاجائے تو کس پر؟جو کام جینس پینٹ
ٹی شرٹ والے اہل سیاست سے سرزد ہورہے ہیں وہی چھاپ جبّے قبّے اور دستار علم
وفضل سجانے والوں کے دامن پر بھی نظرآرہی ہے۔جس طرح اہل سیاست کا یہ نظریہ
ہے کہ ہمارے کارپوریٹرس زیادہ سے زیادہ ہوں،اسی طرح دینی درد کا مظاہرہ
کرنے والے مساجد ومدارس کی تعداد میں اضافہ کرکے واہ واہی بٹورنے کے خواہاں
ہیں ، جلسے جلوسوں میں دونوں قوم کا درد پیش کرتے ہیں مگر پس پشت دونوں کا
مطمح نظرکچھ اور ہوتاہے۔الاماشاء اﷲ۔ایک دوڑ لگی ہے جس میں جو جتنا چاہے
دوڑلے۔
ایک ملک اور ایک پارٹی ہونے کے باوجودہر لیڈررات دن اس فکر میں رہتاہے کہ
کس طرح وہ اپنی پارٹی کوغالب کرے،اپنے ورکروں کے جذبات کو گرمائے یا
بھڑکائے رکھے اور دوسری پارٹی کے جذبات کو کچل ڈالے،اسی طرح یہی مسابقاتی
دوڑ ایک مذہب بلکہ ایک مسلک رکھنے والوں کے مابین بھی جاری ہے۔ دوسرے الفاظ
میں یوں سمجھ لیجئے کہ خداکے جتنے بندوں پر خدائی جماسکوجمالو،جتنے بڑے بن
سکتے ہو،بن لو،جتنا مال مارسکتے ہو،مارلو، یہی کامیابی ہے اور یہی نفع کا
سوداہے!العیاذ باﷲ۔یہ ہے وہ غلط عقیدہ جو آدمی کومادیت کاپجاری بناتاہے اور
پھر قوم پرستی پیداکرتاہے۔یہ قوم پرستی جس طرز کی گروہ بندی کرتی ہے اس کی
بنیاد کسی ایسے اخلاقی اصول پر نہیں ہوتی جو مختلف انسانوں کوایک دوسرے سے
جوڑنے والاہو بلکہ یہ بالکل مادی بنیادوں پر ایک نسل یابولی یا کلچر کے
جوڑسے ایک ٹولی بناتاہے اور اسے دوسری ٹولیوں سے الگ کرکے علیحدگی پسند
جذبے سے اس کی پرورش کرتا ہے،اس جذبے میں یہ چیز شامل ہے کہ وہ اپنوں کی
بھلائی چاہے اور دوسروں کی بُرائی۔اس وجہ سے فطری طور پر ایک دوسرے سے
جھگڑارہتاہے،کھینچا تانی رہتی ہے،لڑائی بھڑائی ہوتی ہے اور ایک گروہ کے نفع
میں دوسرے گروہ کا نقصان اور ایک کی خوشی میں دوسرے کا غم لازماًشامل
ہوتاہے۔پھر انہیں کسی تیسری طاقت کے وجود سے بھی خدشہ رہتاہے اور یہ دونوں
برابراس بات کی تیاری میں رہتے ہیں کہ ان کے پاس دوسروں سے نمٹنے کی قوت
جمع ہوجائے اور جہاں یہ قوت جمع ہوگئی پھر کوئی بند اُسے روک نہیں
سکتا،کوئی جماعت،سوسائٹی یاکمیٹی اسے شرارت سے باز نہیں رکھ سکتی،پھر کمزور
کے لیے کوئی پناہ نہیں۔
ان وجوہات کی بناء پر انسان کی نگاہ میں اخلاق کی کوئی سچی قدر باقی نہیں
رہتی بلکہ اس کی جگہ محض مادی فائدہ زندگی کا مقصد بن جاتاہے۔ظاہر ہے کہ جب
کچھ آدمیوں کا نصب العین ہی یہ ہوکہ روپیہ، پیسہ، نوکری، عہدہ،حکومت مل
جائے تو ان کا جوڑ انھیں لوگوں سے ہوگاجن سے انھیں امیدہوکہ وہ نفع پہنچانے
اور نقصان سے بچانے میں ان کے پکے ساتھی ہوسکتے ہیں،پس اس اصول پر جن لوگوں
کا نفع نقصان میں ساجھاہوتاہے وہ مل کر ایک ٹولی بن جاتے ہیں اور جن سے
ساجھانہیں ہوتاوہ دشمن قرار پاتے ہیں اور پھر ایک ٹولی دوسری ٹولی کو شکست
دینے میں مصروف ہوجاتی ہے۔یہاں بھی پبلک کوجوڑنے اور ملانے والاکوئی روحانی
اصول کام نہیں کررہاہے اور نہ کوئی اخلاقی اور اصلاحی نصب العین نگاہوں کے
سامنے ہے بلکہ صرف ایک بڑائی کی ہوَس،مال ودولت میں ترقی کی دُھن،سیاسی
غلبہ پانے کی بھوک ،ہر دل اور ہر دماغ میں کام کررہی ہے۔ایسا نہیں کہ سب کا
ذہنی توازن اس بگاڑ کا شکار ہے بلکہ اب بھی ایسے بہت سے بااخلاق علماء
اورانسانیت کادرد رکھنے والے سیاسی لیڈران موجود ہیں جوہمہ وقت اپنے صالح
مشن کی تکمیل میں سرگرداں ہیں،دونوں طبقوں کے ایسے باکردار افراد کو چاہئے
کہ چند شریر لوگوں کی اصلاح کریں،جن کی وجہ سے یہ مصرع ہر دردمند دل کی
پکاربن چکاہے
الٰہی یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری |